مرزا غالب کی شخصیت کے دو پہلو

378

جناب غوث علی شاہ قلندر پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ کے سفر نامے، ملفوظات، حکایات اور واقعات کو دلنشیں انداز میں بیان کرنے والی کتاب ’’تذکرہ غوثیہ‘‘ شروع کرنے کے بعد ختم کیے بغیر ہاتھ سے رکھنے کو دل نہیں چاہتا۔ اردو زبان میں اس شان کی کوئی اور کتاب نہیں لکھی گئی۔ بلاشبہ یہ کتاب اردو زبان کے ادبِ عالیہ میں شمار کیے جانے کے لائق ہے۔ پہلی مرتبہ ۹ جون ۱۸۸۴ء کو میرٹھ سے طبع ہوئی۔ دوسری مرتبہ کتاب ۱۹۵۵ء میں شائع ہوئی۔

غوث علی شاہؒ بقول خود منزل بہ منزل سیر کرتے ہوئے دہلی میں پہنچے تو چھ مہینے تک زینت المساجد میں قیام کیا۔ اپنے سفر نامے میں مرزا غالب سے متعلق دو واقعات بیان فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

پہلا واقعہ۔ مرزا نوشہ کی کسرِ نفسی:
ہم مرزا نوشہ (مرزا غالبؔ) کے مکان پر گئے۔ نہایت حسن اخلاق سے ملے۔ تمام حال دریافت کیا۔ ہم نے کہا کہ مرزا صاحب ہم کو آپ کی ایک غزل بہت ہی پسند ہے۔ علی الخصوص یہ شعر:

تو نہ قاتل ہو، کوئی اور ہی ہو
تیرے کوچہ کی شہادت ہی سہی

کہا: صاحب یہ شعر تو میرا نہیں کسی استاد کا ہے۔ فی الحقیقت نہایت ہی اچھا ہے۔

اس کے بعد مرزا غالب نے حضرت کو اپنی وہ مشہور غزل سنائی جس کا مطلع ہے:

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تِری شہرت ہی سہی

حضرت صاحب غالبؔ کی یہ غزل مکمل نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

’’اس دن سے مرزا صاحب نے یہ دستور کرلیا کہ تیسرے دن زینت المساجد میں ہم سے ملنے کو آتے اور ایک خوان کھانے کا ساتھ لاتے۔ ہر چند ہم نے عذر کیا یہ تکلیف نہ کیجئے مگر وہ کب مانتے تھے۔ ہم نے ساتھ کھانے کے لیے کہا تو کہنے لگے کہ میں اس قابل نہیں ہوں۔ میخوار، رو سیاہ، گنہ گار، مجھ کو آپ کے ساتھ کھاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ البتہ اولش کا مضائقہ نہیں (بزرگوں کے آگے سے بچایا ہوا جھوٹا کھانا) ہم نے بہت اصرار کیا تو الگ طشتری میں لے کر کھایا۔ ان کے مزاج میں کمال کسر نفسی اور فروتنی تھی‘‘۔

دوسرا واقعہ۔ مرزا نوشہ کا بے ساختہ سچ اور پھر لیپا پوتی:
دوسرے واقعے میں تحریر فرماتے ہیں کہ: مرزا رجب علی سُرور، مصنف فسانۂ عجائب لکھنؤ سے آئے۔ (وہ بھی) مرزا نوشہ سے ملے۔ اثنائے گفتگو میں پوچھا کہ ’’مرزا صاحب! اردو زبان کس کتاب کی عمدہ ہے؟ کہا: چہار درویش کی۔ میاں رجب علی بولے اور فسانہ عجائب کیسی ہے؟ مرزا بے ساختہ کہہ اٹھے: اجی لاحول ولاقوۃ الا باللہ! اس میں لطفِ زبان کہاں؟ ایک تک بندی اور بھٹیار خانہ جمع ہے۔ اس وقت تک مرزا نوشہ کو خبر نہ تھی کہ یہی میاں سُرور ہیں۔ جب چلے گئے تو حال معلوم ہوا۔ بہت افسوس کیا اور کہا: ظالمو! پہلے سے کیوں نہ کہا؟ دوسرے دن مرزا نوشہ ہمارے پاس آئے۔ یہ قصہ سنایا اور کہا حضرت! یہ امر مجھ سے نادانستگی میں ہوگیا۔ آیئے آج ان کے مکان پر چلیں اور کل کی مکافات کر آئیں۔ ہم ان کے ہمراہ ہولیے اور میاں سُرور کی فرودگاہ پر پہنچے۔ مزاج پرسی کے بعد مرزا صاحب نے عبارت آرائی کا ذکر چھیڑا اور ہماری طرف مخاطب ہوکر بولے کہ : جناب مولوی صاحب! رات میں نے فسانۂ عجائب کو جو بغور دیکھا تو اس کی خوبیٔ عبارت اور رنگینی کا کیا بیان کروں؟ نہایت ہی فصیح و بلیغ عبارت ہے۔ میرے قیاس میں تو ایسی عمدہ نثر نہ پہلے ہوئی نہ آگے ہوگی۔ اور کیوں کر ہو؟ اس کا مصنف اپنا جواب نہیں رکھتا۔ غرض اس قسم کی بہت سی باتیں بنائیں۔ اپنی خاکساری اور ان کی تعریف کرکے میاں سُرور کو نہایت مسرور کیا (میاں سُرور بھی خوب تھے کہ اس لیپا پوتی پر مسرور ہوگئے)۔ دوسرے دن ان کی دعوت کی اور ہم کو بھی بلایا۔ اس وقت بھی میاں سرور کی بہت تعریف کی‘‘۔

(احمد حاطب صدیقی کے کالم ’’زیرو زبر‘‘ (جسارت) سے ماخوذ)

حصہ