خدا ،انسان اور کائنات

359

مرکز مائل قوت اور مرکز گریز قوت…یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں، یعنی ایک عمل ہے دوسری ردِعمل ہے۔ پہلی قائم اور جوڑ کر رکھنے والی، دوسری بکھیر دینے والی ہے۔

مرکز مائل قوت (centripetal force): دائرے میں گھومتے ہوئے جسم کو اس کی دوری پر حرکت میں قائم رکھنے کے لیے قوت درکار ہوتی ہے جو اُسے مرکز کی طرف مائل رکھتی ہے۔ جو قوت جسم کو دائرے میں حرکت پر مجبور کرے ’’مرکز مائل قوت’’ کہلاتی ہے۔ بات صاف ہے، مرکز سے جوڑے رکھنے والی قوت مرکز مائل قوت کہلاتی ہے۔

مرکز گریز قوت ( centrifungal force): جب کسی جسم کو دائرے میں حرکت دینے کے لیے قوت لگائی جاتی ہے تو اس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوتی ہے جو اس کو مرکز سے دور لے جانا چاہتی ہے۔ اس ردعمل والی مزاحمتی قوت کو مرکز گریز قوت (centrifugal force)کہتے ہیں۔

اس تمہید کو قارئین یہ نہ سمجھیں کہ میں طبعیات کا کوئی سبق پڑھانے چلا ہوں، بلکہ میرے اس کالم کا مدعا میرا عنوان ہے۔

ہم کائنات کے جس اجسام فلکی کے ایک ٹکڑے پر آباد ہیں اس کو زمین کہتے ہیں، اور یہ زمین سورج کے گرد گردش کررہی ہے، اور یہ جس نظامِ شمسی کا حصہ ہے اس کے گرد کئی سیارے محوِ گردش ہیں۔ چاند بھی ایک ذیلی سیارہ ہے جو زمین کے مدار کے چاروں طرف گردش کررہا ہے۔ سورج اپنے گرد گھومنے والے تمام سیاروں کو ایک متعین کشش ثقل کے تحت ان کے مداروں میں گھومنے کا پابند رکھتا ہے جس کو ہم مرکز مائل قوت کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ہم نے سورج اور چاند کے درمیان ایک حساب رکھا ہے۔‘‘

’’اور آسمان کو بلند کیا اور میزان قائم کردی۔‘‘

اس لا متناہی فلک میں لا تعداد ستارے اور سیارے گردش میں ہیں، اور یہ اپنے اپنے مداروں میں مرکز مائل قوت کی وجہ سے ایک دوسرے سے ٹکراتے نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا قیامت کے حوالے سے اس کائنات کے بکھر جانے کا فیصلہ اس طرح محفوظ ہے کہ:

’’اور آسمان پھٹ جائے گا اور ستارے بے نور ہوجائیں گے اور سمندر جل اٹھے گا‘‘ (سورہ انفطار)۔ گویا مرکز مائل قوت کے خلاف مرکز گریز قوت کا ردعمل اس کائنات کو بکھیر کر رکھ دے گا۔

یہ تو کائنات کی بقا کا ایک مختصر سا جائزہ ہے، ورنہ قرآن مجید میں قیامت کے وقوع پذیر ہونے اور اس کی ہولناکیوں کا تذکرہ پڑھ کر مومن کا دل ڈوبنے لگتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا کہ ’’یا رسول اللہ! آپؐ کی داڑھی کے بالوں میں چاندی آگئی ہے۔‘‘ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب سے سورہ نبا، سورہ انفطار اور سورہ زلزال نازل ہوئی ہیں اور ان میں قیامت کا جو تذکرہ ہے اس کی ہولناکیوں نے مجھے بوڑھا کردیا۔‘‘

ہم زمین والوں کی زندگی پر اس گردشِ نظام شمسی کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ سب سے پہلے تو ہم طبعی اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ زمین اپنے محور پر 24 گھنٹے میں جب ایک چکر لگاتی ہے تو دن رات ہوتے ہیں۔ اور زمین جب سورج کے مدار کے گرد سال میں ایک گردش مکمل کرتی ہے تو موسم تبدیل ہوتے ہیں جس کو سردی، گرمی، برسات اور بہار کے نام سے اہلِ زمین نہ صرف پکارتے ہیں بلکہ اس کے مطابق لباس، خوراک اور دیگر موسمی ضروریاتِ زندگی کے سامان بدلتے ہیں۔

چاند کی گردش سے مسلمان اور ہندو اپنے ماہ و سال کا حساب رکھتے ہیں، جب کہ سورج کی گردش کے مطابق شمسی کلینڈر بنایا گیا ہے۔

اب آتے ہیں اصل عنوان کی طرف جو دنیا میں انسانوں کی آمد اور شیطان مردود کی ازلی دشمنی کی کہانی ہے جو تاقیامت جاری رہے گی۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘

ایک مسلمان اللہ کے دین کی پیروی جنت کے حصول کے لیے اس وقت کرتا ہے جب مرکز مائل قوتِ محرکہ توحید سے اس کی شب و روز کی زندگی جڑ جاتی ہے۔ اب اس کی زندگی کی دوڑ اس دائرے میں گردش کرتی ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا دائرہ ہے۔ زندگی واقعتاً ایک گردشی سفر کا نام ہے کیوں کہ انسان اپنی پیدائش کے بعد عمر کے دیگر مراحل سے گزر کر وہیں چلا جاتا ہے جہاں سے آیا تھا، اور دائرے میں گردش کرتی ہوئی ہر چیز کی فطری گردش ایسی ہی ہوتی ہے۔

اس توحید، رسالت اور فکرِ آخرت کی مرکز مائل قوتِ محرکہ کے خلاف مرکز گریز قوت کون ہے؟ تو فوراً یاد آتا ہے کہ جب شیطان نے اپنے تخلیقی غرور میں آکر اللہ کی حکم عدولی کرتے ہوئے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا اور راندۂ درگاہ ٹھیرا تو اس نے باری تعالیٰ سے اس بات کی اجازت لی کہ میں جس آدم کے سبب راندۂ درگاہ ٹھیرا ہوں اس کی اولاد کو تاقیامت آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے گمراہ کروں گا۔ اللہ نے فرمایا ’’تم اُنہی کو بہکا سکو گے جو بہکنا چاہیں گے۔‘‘ (القرآن)

اس قرآنی مکالمے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انسان جب بھی اللہ کی بندگی پر، اس توحید و رسالت اور فکرِ آخرت کی مرکز مائل قوتِ محرکہ کے تحت اپنی زندگی گزارنا شروع کرتا ہے تو شیطان اور اس کے چیلے مرکز گریز قوت کے ساتھ ردعمل شروع کرتے ہیں۔ آدمی کا عقیدۂ توحید و رسالت اور فکرِ آخرت جتنی مضبوط ہوگی شیطان اتنا ہی ناکام و نامراد ہوگا، اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ وہ مایوس ہوکر کسی دوسرے شخص کی تلاش میں چلا جائے گا۔ شیطان کے پاس جو مرکز گریز قوت ہے وہ شرک، دنیا پرستی، ہوسِ مال و زر، لالچ، خوف ہے، دغا اور فریب ہے جس کی وجہ سے وہ مغرور ہوکر راندۂ درگاہ ٹھیرا۔ یہی غرور و تکبر وہ انسانوں کو بھی سکھاتا ہے، اور ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی کثیر تعداد انہی باتوں کو اپناکر گمراہی کی دلدل میں دھنستی جاتی ہے، کہ شیطان کا ایک حربہ حسد ہے جس کی وجہ سے وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرکے راندۂ درگاہ بنا اور عزازیل سے ابلیس بن گیا۔

تکبر عزازیل را خوار کرد
با زندان لعنت گرفتار کرد

حسد ہی تکبر پیدا کرتا ہے۔ اور شیطانی وسوسوں اور ترغیبات کا شکار ہونے والا انسان اس کی گرفت میں آکر اپنی دنیا اور آخرت دونوں برباد کر ڈالتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’شیطان تم کو بھوک اور موت سے ڈراتا ہے اور فحاشی اور عریانی کی طرف بلاتا ہے۔‘‘ آج پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔ بھوک اور موت کی ڈائن رقصِ ابلیس کررہی ہے، اور فحاشی وعریانی انسانی حقوق کے نام پر ریاست کی سرپرستی اور قانون کی چھتری تلے اس قدر مادر پدر آزاد ہوچکی ہیں کہ حیوان بھی شرمندگی محسوس کر رہے ہیں۔

تہذیب پھر سے آئی ہے پتھر کے دور کی
یہ اور بات ہے کہ نئے پیرہن میں ہے

جنگل میں بے لباس تھی کل کی جانِ جاں
آج بے لباس بھری انجمن میں ہے
پتوں کا پیرہن تھا، آنکھوں میں شرم تھی
آج خوش لباسی میں بکتا بدن بھی ہے

اس شیطانی مرکز گریز قوت نے انسان کو مرکز مائل قوت ِمحرکہ سے نکال کر تباہی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے اور اچھائی برائی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں چھپتی جا رہی ہے۔

ہنر مند کو کمینہ، فراڈی کو ذہین کہتی ہے
یہ دنیا کتنی ظالم ہے بے حیا کو حسین کہتی ہے

مگر آج بھی سوادِ اسلامیہ کے فرزندانِ توحید ڈٹ کر مقابلے میں کھڑے ہیں اور سرِ عام اعلان ہے:

زنداں میں ڈالو یا سولی چڑھا دو

چاہو تم جتنی سزا دو
نہ ٹوٹے گا رشتہ نبیؐ سے ہمارا
طبیعت میری مصطفی پہ دیوانی
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
چاہو تو لے لو میری جوانی
اسلام میرے دل کی ہے دھڑکن
چاہے بنا لو جتنی کہانی

شداد آیا نمرود آیا زمانے میں آئے فرعون کتنے

اسلام غالب ہوکر رہے گا لٹاتے رہیں گے ہم اپنی جوانی

حصہ