امریکی جامعات میں کیا چل رہا ہے:
مشہور امریکی جامعات میں 6 ماہ سے ریاستی جبر کے باوجود فلسطین کے لیے آوازیں اپنا دائرہ پھیلانے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔ یہ ردعمل امریکی سیاست دانوں کو امریکی الیکشن مہم کے دوران بھی خوب نظر آیا۔ ٹوئٹر پر اِس ہفتے کولمبیا یونیورسٹی، برکلے یونیورسٹی، نیویارک یونیورسٹی،کیلی فورنیا یونیورسٹی، ییل، ہارورڈ، ایم آئی ٹی، امریکن یونیورسٹی، ٹیکساس یونیورسٹی فلسطین کے حق میں مظاہروں کا موضوع بنی رہیں۔ ان تمام جامعات میں مظاہروں، جھڑپوں، گرفتاریوں کی وڈیوز سوشل میڈیا پر خوب گردش کرتی رہیں۔ سوشل میڈیا پر ’کولمبیا یونیورسٹی‘ کا ٹرینڈ توجہ لے گیا۔ ساری عالمی نشریاتی خبروں پر بھی امریکی جامعات چھائی نظر آئیں۔ امریکا و یورپ میں چونکہ ’انسانیت‘، ’تصورِ آزادی‘ اور ’مساوات‘ کا درس پڑھایا، ٹھونسا، بتایا، سمجھایا جاتا ہے کہ تہذیب، حقوق وغیرہ سب کا ٹھیکیدار مغرب ہے، امریکا ہے، یورپ ہے، جہاں خوب آزادیِ اظہارِ رائے کا حق ہے اس لیے وہاں تو ردعمل بنتا ہی ہے۔ ویسے ان مظاہروں میں ہمیں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ یہودی، عیسائی اور وہ سب طبقات جن کے لیے ’انسانیت‘ کی تعریف میں اشتراک موجود ہے، نظر آرہے ہیں۔ امریکی ریاست نے بھی اِن مظاہروں کو اتنا سنجیدہ لیا کہ دو جامعات کے صدور کو ذلت کے ساتھ استعفیٰ دینا پڑگیا۔ یہ امریکی خانہ جنگی کے بعد پہلا موقع ہے جب اتنی شدت سے کوئی رد عمل پنپ رہا ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی:
کولمبیا یونیورسٹی میں مظاہرے کی اہم وجہ ’’یونیورسٹی کے اسرائیل کے ساتھ مالی روابط منقطع‘‘کرنے کا مطالبہ ہے۔ طلبہ نے یونیورسٹی کی جانب سے اسرائیل کی مالی مدد کرنے پر کئی ثبوت عوام میں پیش کردیے ہیں جس کی وجہ سے ردعمل پھیلتا جارہا ہے۔ اب تک 108 طلبہ کی گرفتاری، 21 سے زائد طلبہ کی معطلی جن میں ایک مسلم امریکی سیاست دان ’الہان عمر‘ کی بیٹی بھی شامل ہے، اور ایک مسلمان پروفیسر کا اخراج شامل ہے، جبکہ کئی پروفیسر بھی زیر تفتیش ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی نے تو صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے بقیہ سمسٹر آن لائن کلاس کا اعلان کرکے کیمپس ہی بند کردیا۔ یونیورسٹی اساتذہ نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر گرفتاریوں اور اسرائیل کی مدد کی صورتِ حال پرمستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ یہ سب احوال وڈیوز اور تصاویر کی صورت میںٖ سوشل میڈیا پر مستقل نشر ہوتا رہا۔ ویسے تو سب مقامی لوگ ڈیل کر ہی رہے تھے مگر امریکی صدر جوبائیڈن کولمبیا یونیورسٹی کے معاملے میں پارٹی بن گئے اور یہود دشمنی کی مذمت کردی۔ بات یہیں نہیں رُکی بلکہ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے کولمبیا یونیورسٹی کے مظاہروں کو اہمیت دیتے ہوئے اُس کو ’یہود مخالف ہجوم‘ قرار دے کر مذمت کردی۔ طلبہ غزہ سے اظہارِ یکجہتی کے لیے یونیورسٹی میدان میں 50 ٹینٹ لگا کر بیٹھ گئے تھے، اس عمل میں سیکڑوں طالب علم بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ یہ تاثر مل رہا ہے کہ نیویارک کی تمام ایڈمنسٹریشن کولمبیا میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف ہوچکی ہے۔ امریکا کی جانب سے اسرائیل کی سرکاری امداد کے اعلان کے بعد مقامی سینیٹر کے گھر کے باہر بھی ایک بڑا دھرنا 12 گھنٹے چلتا رہا۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا:
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں مظاہرہ تو نہیں ہوا مگر اُنہوں نے اپنی سالانہ تقریب کا شیڈول اچانک بدل دیا۔ شیڈول میں موجود اعزازی مقررین پر پابندی کے ساتھ، مسلمان طالبہ کی تقریر بھی ختم کردی۔ بائیو میڈیکل کی باحجاب مسلمان طالبہ اسنہ تبسم کو دو سو سے زائد طلبہ کے درمیان مقابلے میں ٹاپ کرنے پر یہ تقریر کرنی تھی، جسے حفاظتی اقدامات کی آڑ لے کر روک دیا گیا۔ طالبہ کا کہنا ہے کہ ہمیں غزہ کے مسلمانوں کے حق میں بات کرنے کی وجہ سے باہر کیا گیا ہے، یہودی طلبہ نے پہلے ہی اسنہ تبسم اور اس کے مسلمان ساتھیوں کے خلاف شکایات درج کرادی تھیں۔ سیدھی بات ہے کہ ہارورڈ، پنسلوانیا، ایم آئی ٹی اور کولمبیا یونیورسٹیوں کے صدور کے ساتھ امریکی کانگریس میں ہونے والے ذلت آمیز واقعات سے باقی امریکی جامعات ڈری ہوئی ہیں، سب کو نوکری پیاری ہے، سب کو یہودیوں اور اُن کے اداروں کی جانب سے اربوں ڈالر کی فنڈنگ سے بھی بہت پیار ہے۔
برکلے اسکول بھی گنتی میں:
برکلے لا (Law) اسکول کے یہودی ڈین سے طلبہ نے احتجاجی ریلی میں استعفے کا مطالبہ کردیا۔ ڈین نے گھر میں طلبہ کے لیے کھانے کی دعوت رکھی تھی، اس دعوت میں ایک فلسطینی مسلمان طالبہ نے حجاب اور فلسطینی رومال پہن کر چند جملے بول دیے جو ڈین کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگئے۔ طالبہ مائیکروفون اور ایمپلی فائر ساتھ لائی تھی، صرف چند منٹ کی یہ کارروائی ہوسکی کیونکہ یہودی ڈین اور اُس کی پروفیسر بیوی نے طالبہ کو زدو کوب کرکے اس کی تقریر روک دی اور گھر سے نکال دیا۔ اس کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور میڈیا پر طوفان مچ گیا۔ پروفیسر کا دعویٰ تھا کہ میرا گھر ہے، میری دعوت ہے، میری مرضی چلے گی۔ ایسا کرتے ہوئے میزبانوں نے مہمان کو زبردستی گھر سے نکال دیا۔ تقریر روکنے کے عمل نے وڈیو کی صورت زیر بحث آکر ’’مہذب‘‘ امریکا میں آزادیِ اظہار کی منافقت کے بارے میں خوب بحث چھیڑ ڈالی۔ کھانے کی اس تقریب سے ایک ہفتہ قبل اس طالبہ نے کالج میں ’ہینڈ بل‘ تقسیم کیا تھا جس میں اسکول ڈین کی طرف سے طلبہ کی ٹیوشن کی رقم سے اسرائیل کے لیے 2 بلین ڈالر کا اسلحہ خریدنے کی تفصیلات لکھی تھیں۔ طالبہ نے انسانی بنیادوں پر ڈین کے کھانے کے بائیکاٹ پر ذہن سازی کی کوشش کی تھی۔ طالبہ کا کہنا ہے کہ احتجاج مختصر ہونے کے باوجود کامیاب رہا: ’’اس کا مقصد لا اسکول کو جواب دہ بنانا تھا، اور یہ ظاہر کرنا تھا کہ کمیونٹی دیکھ رہی ہے‘‘۔ وہ کہتی ہے کہ اس نے فِسک اور چیمرنسکی کے خلاف مذہبی امتیاز پر ایک انتظامی شکایت درج کرائی ہے اور مزید قانونی کارروائی پر غور کررہی ہے۔ طلبہ و طالبات نے لا اسکول کے باہر احتجاجی ریلی نکالی اور طالبہ پر تشدد اور آزادیِ اظہارِ رائے کے خلاف عمل کرنے پر ڈین سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا۔
یونیورسٹیوں میں اینٹی سیمیٹ ازم:
جاوید غامدی اور مرزا انجینئر کہتے ہیں کہ ’’امریکا عالمی طاقت ہے، آپ محکوم ہیں، آپ کا کام ہے اُس کی اطاعت کرنا، اُس کی طاقت کے سامنے مزاحمت نہ کرنا بلکہ سیٹنگ کرکے چلنا، کیونکہ اُس نے عالمی نظم قائم کررکھا ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’آپ کے گھر میں طاقتور ڈاکو آجائے تو آپ اُس سے نہ لڑو، بلکہ اس جیسی طاقت بننے کی کوشش کرتے رہو‘‘۔ ایسا بتاتے وقت وہ یہ نہیں بتاتے کہ اگر وہی ڈاکو ہر ہفتے آجایا کرے تو کیا کریں؟ کب تک یہ ڈکیتی برداشت کریں؟ وہ ڈاکو کیوں مفتوح لوگوں کو ویسی ہی طاقت بننے دے گا جو اُس کو ہی ڈکیتی سے روک دے؟ مساوات اور برابر کے شہری کی تعریف کرتے ہوئے وہ یہ نہیں بتا پاتے کہ امریکا میں ’اینٹی سیمیٹ ازم‘‘ یعنی یہودیوں کے خلاف کوئی بات، اشارہ، یا عمل کرنا سخت جرم کیوں ہے؟ اس لیے وہاں پولیس ’آزادیِ اظہار‘ کے نام پر نہیں بلکہ ’’اینٹی سیمیٹ ازم‘‘ کے نام پر ریاست کارروائی کرتی ہے۔ نیوہیون، کنیکٹی کٹ میں واقع ییل یونیورسٹی کے کیمپس میں حکام نے کم از کم 47 مظاہرین کو گرفتار کیا۔ گرفتار طلبہ کے خلاف یونیورسٹی کی اپنی تادیبی کارروائی بھی ہوگی۔ ییل یونیورسٹی کے کیمپس میں کئی سو لوگ احتجاج کررہے تھے، جن میں بھوک ہڑتال کرنے والے بھی شامل تھے جو یونیورسٹی سے مطالبہ کررہے تھے کہ وہ فوجی ہتھیار بنانے والی کمپنیوں اور اسرائیل سے تعلقات رکھنے والی دیگر کمپنیوں سے علیحدگی اختیار کرلے۔ مین ہٹن کے مرکز میں، نیویارک یونیورسٹی میں مظاہرین کے ساتھ پولیس کی جھڑپ ہوگئی۔ پولیس اہلکاروں کی طرف سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے مرچوں کے اسپرے کے استعمال کی اطلاعات ملیں، جبکہ وہاں بھی سو سے زائد طلبہ و طالبات کو گرفتار کرلیا گیا۔ نیو یارک یونیورسٹی کے اساتذہ نے طلبہ مظاہرین کو پولیس سے بچانے کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بھی بنائی۔ طلبہ و طالبات کو جو آزادی، مساوات اور جمہوریت کے عقائد پڑھائے جاتے ہیں وہ سب غزہ کی صورتِ حال پر ڈھیر ہوچکے ہیں۔ امریکا و اسرائیل کا سفاک چہرہ ایک بار پھر سامنے آچکا ہے۔ جامعات میں اب طلبہ و طالبات کے لیے اظہارِ خیال کی آزادی بھی چھینی جارہی ہے۔ امریکا اور یورپ کے سارے پیش کردہ نظریات، افکار و اقدار باطل ثابت ہوچکے ہیں۔ پُرامن احتجاج کرنے والے مظاہرین گرفتار ہوتے ہیں تو ’تصورِ آزادی‘ کا بحران نظر آتا ہے؟ انسانیت کی بات کی جاتی ہے تو غزہ میں معصوم بچوں کی لاشیں بتا دیتی ہیں کہ ان کی ’انسانیت‘ بھی ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ ویسے یہ تو امریکی جامعات کا حال ہے، پاکستان سمیت مسلم ممالک کی جامعات میں بھی سناٹا طاری ہے۔
گوگل بھی پارٹی بن گیا:
غزہ کے معاملے میں سب ایکسپوز ہوئے،گوگل بھی ہوگیا۔ بائیکاٹ مہم کے خلاف بہرحال جو سب سے بڑے دلائل دیے جاتے ہیں اُن میں یہ ضرور ہوتا ہے کہ بائیکاٹ کرنا ہے تو مکمل کرو۔ امریکا کا گوگل، یہودی کا فیس بک بھی استعمال کرنا چھوڑدو۔ اس پر ہم سب خاموش ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ جواب دیتے ہیں کہ میں تو کوریا کا موبائل اور چین کا لیپ ٹاپ استعمال کررہا ہوں۔ اب گوگل کا معاملہ سامنے آگیا ہے اس لیے معاملہ مزید سنگین ہوگیا ہے۔ امریکا میں مقیم گوگل کے ملازمین نے نیویارک سٹی، کیلیفورنیا اور سیٹل میں ٹیک کمپنی کے دفاتر میں اسرائیلی حکومت کے ساتھ 125 ملین ڈالر کے معاہدے کی مخالفت میں احتجاج کیا ہے۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ نسل کُشی کے لیے ٹیکنالوجی نہیں دی جا سکتی۔ عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل پر نسل کُشی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ ٹیک ورکرز نے مطالبہ کیا کہ انہیں یہ جاننے کا حق ہے کہ ان کی محنت کا استعمال کیسے اور کہاں ہورہا ہے۔ اس سے قبل ایمیزون اور فیس بک کے کارکنان بھی اسرائیل سے جنگی روابط پر احتجاج چکے ہیں۔
گوگل نے اس احتجاج کی پاداش میں اب تک 9 ملازمین گرفتار کرائے ہیں جبکہ دو شہروں میں 48 ملازمین کو نوکری سے بھی نکال دیاگیا ہے جن کو وہاں مسلمان ہی لیڈ کررہے ہیں۔ گوگل کے ہندو چیف ایگزیکٹو افسر سندرپچائی نے صاف کہا ہے کہ’’ہم کاروبار کررہے ہیں، بات چیت کرنے کے لیے مواقع موجود ہیں، ایسے سب کام کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘‘۔ اب وہ تمام لوگ جو ٹیکنالوجی کو غیر اقداری سمجھتے ہیں، دیکھ لیں کہ کاروبار اور پیسے کی کوئی اخلاقیات نہیں… کاروباری ادارہ ٹیکنالوجی بیچے گا پیسے کے لیے، چاہے کتنی ہی نسل کُشی ہوتی رہے۔
خونیں معاہدۂ نمبس:
گوگل کا یہ خونیں معاہدہ پروجیکٹ نمبس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ گوگل اور ایمیزون کے درمیان 2021ء میں دستخط کیے گئے۔ مشترکہ معاہدے کا مقصد اسرائیلی حکومت اور اس کی فوج کو کلائوڈ کمپیوٹنگ انفرااسٹرکچر، مصنوعی ذہانت (AI) اور دیگر ٹیکنالوجی خدمات فراہم کرنا ہے۔ گوگل میں اسٹاف سافٹ ویئر انجینئر، ٹینا واچووسکی نے بھی ٹیکنالوجی کو ظلم کے لیے استعمال کرنے پر اظہارِ شرمندگی کیا ہے۔ دی انٹرسیپٹ کی 2021ء کی رپورٹ کے مطابق، گوگل اسرائیل کو جدید ترین AI صلاحیتوں کی پیشکش کررہا ہے، جو پروجیکٹ نمبس کے حصے کے طور پر چہرے کی شناخت اور آبجیکٹ سے باخبر رہنے کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرسکتا ہے۔ جنگی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ میں AI کا استعمال بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل دو ماہ قبل دعویٰ کرچکا ہے کہ اُس نے مصنوعی ذہانت کو نسل کُشی میں استعمال کرنے کا تجربہ کیا ہے۔ صورتِ حال واضح ہے کہ گوگل اس نسل کُشی میں براہِ راست ساتھی بن رہا ہے۔
بطور صارف میرا ڈیٹا بھی تو اُس کے پاس ہے، کل اگر ہم پر حملہ ہوتاہے تو یہ ڈیٹا نشانہ لگانے کے کام آئے گا۔ دوسری طرف اس معاملے کی اہمیت یہ ہے کہ امریکا نے ’ٹک ٹاک‘ پابندی کا قانون منظور کرلیا، صرف اپنے صارفین کا ’ڈیٹا‘ چین کے پاس نہ پہنچنے کے لیے۔ جب امریکا کے لیے یہ ڈیٹا اتنا قیمتی ہے تو ہم کیوں سستا سمجھیں جو ہمیں ہی نشانہ بنانے کے کام آئے!
میں نے تو یہ ساری صورتِ حال دیکھ کر اپنے طور پر سرچ انجن اور براؤزرکے لیے روسی Yandex اور Edgeکا استعمال شروع کردیا ہے۔ روس کو امریکا پاکستان کے آئی پی ایڈریس میں داخل نہیں ہونے دیتا، اس لیے ای میل outlookپر فی الحال شفٹ کردی ہے، جو مائیکروسوفٹ کی ہے۔ باقی آپ اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کریں۔