امتحانات اور ان کے نتائج کا زمانہ طلبہ کے لیے ہمیشہ سے امیداوراندیشے کا زمانہ رہاہے۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے یہ زندگی اورموت کا مسئلہ بن گیاہے۔ امریکا اور یورپ ہی میں نہیں جاپان اور کوریا جیسے ملکوں میں بھی ہرسال سیکڑوں طلباءامتحان میں اچھے نمبرحاصل نہ کرنے کی وجہ سے خود کشی کرلیتے ہیں یہاں تک کہ امریکا یورپ اور جاپان میں تو اچھے اسکولوں اور اچھے کالجوں میں داخلہ اتنا بڑا نفسیاتی دباؤ بن چکاہے کہ وہ کروڑوں طلبہ کو نفسیاتی مریض بنادیتاہے۔ جو طلبہ اچھے اسکولوں اورکالجوں میں داخل ہوجاتے ہیں وہ اور ان کے والدین محسوس کرتے ہیں کہ انہیں جنت مل گئی اور جو طلبا اچھے اسکولوں اورکالجوں میں داخل نہیں ہوپاتے وہ اور ان کے والدین خیال کرتے ہیں کہ انہیں جہنم میں پھینک دیاگیاہے۔
پاکستان میں تعلیم کے منظرنامے پر اس حوالے سے بظاہرخاموشی کا راج نظرآتاہے تاہم حالیہ دنوں میں ایسی کئی خبریں اخبارات میں شائع ہوئی ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ امتحانات اور ان کے نتائج کے دباؤنے ہمارے معاشرے میں بھی تعلیم کو قاتل تعلیم بنانا شروع کردیاہے۔ ان خبروں کے مطابق ملک کے کئی علاقوں میں طلبہ نے امتحانات میں اچھے نمبرنہ آنے کی وجہ سے خودکشی کرلی۔
زندگی ایک مستقل امتحان ہے اور اس کا دباؤ جان لیواہے چنانچہ بچوں کو ابتداہی سے چھوٹے موٹے امتحانات سے گزرنے اور ان کے دباؤکو برداشت کرنے کی عادت ہونی چاہیے۔ تعلیم کے دائرے میں امتحانات کا عمل بچوں کو زندگی کے اصل امتحان کے قابل بنانے میں اہم کرداراداکرتاہے چنانچہ امتحانات میں”معمول کا نفسیاتی دباؤ“ہوناہی چاہیے اس کے بغیربچوں کوپڑھنے اوربہترنتائج پیداکرکے دکھانے پر مائل نہیں کیاجاسکتا۔
لیکن ہمارے زمانے میں کئی ایسے محرکات پیداہوگئے ہیں جنہوں نے امتحانات اور ان کے نتائج کو طلبہ کے لیے غیرمعمولی اوراعصاب شکن بنادیاہے۔
ہمارے زمانے میں ایسے والدین کی بڑی تعداد موجود ہے جو خود اپنے زمانے میں اچھے طالب علم نہ تھے چنانچہ ایسے والدین اپنے بچوں کی امتحانی کارکردگی کواپنی ”ناکامیوں“کا مداوا بنا لیتے ہیں اور وہ بچوں کو امتحانات اور ان کے نتائج کے حوالے سے حدسے زیادہ حساس بنادیتے ہیں۔ ہم نے ایسے والدین بھی دیکھے ہیں کہ ان کے بچے نے کلاس میں دوسری پوزیشن حاصل کی مگر انہوں نے بچے کو اس طرح ڈانٹ پلائی جیسے وہ فیل ہوگیاہو۔ ایسے والدین اصرارکرتے ہیں کہ بچے کو ہرصورت میں کلاس میں ”فرسٹ“ آنا چاہیے۔ اس طرح کے والدین بچے کے نفسیاتی دباؤ میں اپنا نفسیاتی دباؤبھی شامل کردیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے بالخصوص ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی یہ ہے کہ اس نے امتحانی نتائج کو”پوری ذہانت“ بنادیاہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امتحانی نتائج طلبہ کی مجموعی ذہانت کا محض ایک حصہ ہیں۔
ہمارے امتحانی نظام میں رٹنے اوررٹے ہوئے کو دہرانے کی استعداد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور رٹنے کا عمل ذہانت کا پست درجہ ہے۔ ذہانت کا اعلیٰ درجہ تخلیق کرنے کی اہلیت سے متعلق ہے۔ ہمارے امتحانی نظام میں طلبہ پورے نصاب کی تیاری نہیں کرتے بلکہ وہ نصاب کے مخصوص حصوں کی تیاری کرتے ہیں اب یہ مقدرکی بات ہوتی ہے کہ طلبہ نے جن سوالات کی تیاری کی ہے وہی سوالات امتحان میں آئے ہیں یا نہیں۔ اکثرایسا ہوتاہے کہ بعض طالب علم 60 فیصد نصاب سے امتحان کی تیاری کرتے ہیں اور سو فیصد پرچہ حل کرلیتے ہیں اس کے برعکس بعض طلبہ 80 فیصد نصاب سے تیاری کرتے ہیں اور وہ 70 فیصد پرچہ حل کرکے آتے ہیں۔ اس عمل میں اصل چیزذہانت نہیں اتفاق ہے۔ جن طلبہ نے زیادہ نصاب پڑھا سوالات کے سلسلے میں ان کا ”تکّا“ نہیں لگا لیکن جن طلبہ نے کم نصاب پڑھ کر امتحان کی تیاری کی سوالات کے سلسلے میں ان کا ”تکّا“ لگ گیا۔
تاریخ عالم پرنظرڈالی جائے تو بڑے لوگوں کی عظیم اکثریت غیرمعمولی امتحانی ذہانت کی حامل نظرنہیں آتی۔ والمیکی سنسکرت کے تین بڑے شاعروں میں سے ایک ہے اور والمیکی ڈاکو تھا۔ لیکن پھرایک واقعے نے اس کی قلب ماہیت کردی اور اس نے رام کی زندگی کو منظم کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ آئن اسٹائن کو 20 ویں صدی کا عظم ترین سائنسدان قراردیاگیاہے اور اپنے اسکول کے زمانے میں آئن اسٹائن اوسط درجے کا طالب علم بھی نہ تھا۔ حکیم الامت اور شاعرمشرق کہلانے والے اقبال نے اسکول اور کالج میں کبھی ”ٹاپ“ نہیں کیا۔ سعادت حسن منٹو اردوکے دوبڑے افسانہ نگاروں میں سے ایک ہے اوروہ میٹرک میں اردوکے پرچے میں ایک سے زیادہ مرتبہ فیل ہوا۔
اس سلسلے میں ہمیں اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ انسانوں میں ذہانت اور صلاحیت کے اظہارکی کوئی خاص عمرنہیں ہوتی۔ بعض لوگوں کی ذہانت اور صلاحیت بچپن ہی میں ظاہرہوجاتی ہے لیکن بعض لوگ بیس‘تیس یا چالیس سال کے بعد اپنی ذہانت اور صلاحیت ظاہرکرتے ہیں۔ چنانچہ بچوں کے سلسلے میں بسا اوقات والدین کو انتظارکرناپڑتاہے۔
والدین اور بالخصوص طلبہ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ امتحانی نتائج بہت اہم ہیں مگر امتحانی نتائج زندگی کا حصہ ہیں پوری زندگی نہیں اوربُرے یا کم اچھے نتائج سے زندگی ختم نہیں ہوجاتی اور نہ ہی زندہ رہنے کا جواز فناہوتاہے۔ جن معاشروں میں مذہب ایک مرکزی حکومت کے طورپر موجود نہیں ان معاشروں میں کسی کو یہ بات سمجھانادشوارہے مگر ہمارے معاشرے میں مذہب ہماری زندگی کا مرکزی حوالہ ہے چنانچہ ہمارے یہاں اساتذہ ‘والدین اور ذرائع ابلاغ کو یہ شعور پیدا کرنے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔
بعض لوگ تعلیم اور امتحانی عمل کو ”کھیل“ بنانے کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن زندگی کھیل نہیں ہے اس لیے اس کے کھیلوں میں ایک طرح کی سنجیدگی اورمعنویت پیداکرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن تعلیمی نتائج اتنی سنجیدہ بات بھی نہیں کہ ان کے لیے زندگی ختم کردی جائے۔ ضرورت دراصل ایک ایسے متوازن شعورکی ہے جس میں امتحان اور اس کے نتائج طلبہ کے لیے موت کے خوف کے بجائے ایک چیلنج بن جائیں۔ چیلنج کے اندربھی خوف کا عنصرموجود ہوتاہے مگر چیلنج میں موجود خوف انسان کو متحرک کرتاہے۔ امیددلاتاہے۔ زندہ رہنے اور جدوجہد کرتے رہنے پرمائل کرتاہے۔ ہمارے طلبہ کو اگرخون کی ضرورت ہے تو چیلنج میں موجود خوف کی۔ ویسے بھی علم زندگی دینے کے لیے ہے‘ زندگی لینے کے لیے نہیں۔