مرزا غالب نے کہا ہے،
شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
یہی حال مغلیہ سلطنت کا بھی ہوا۔ آخری وقت کچھ اس طرح کا دھواں اٹھا کہ ساری محفل سیاہ پوش ہو گئی۔
یوں تو اورنگ زیب کے بعد ہی اس عظیم الشان مغلیہ سلطنت میں انحطاط کے آثار پیدا ہو چکے تھے لیکن ان کے بعد تو وہ افراتفری اور بیراکھیری پھیلی کہ بادشاہ صرف نام کے بادشاہ رہ گئے۔ محمد شاہ رنگیلے ’’پیا‘‘ کہلائے۔ ان کے عہد میں درودیوار سے نغمے برستے اور شعروشاعری کے اکھاڑے جمتے۔ نعمت خاں سدارنگ انہی کے دربار کا بین کار اور کلاونت تھا جس نے دھرپد کے مقابلے میں خیال کی گائیکی کو فروغ دیا۔ آج تک گویے اس کے نام پر کان پکڑتے ہیں، ولیؔ اپنا دیوان لے کر انہی کے زمانے میں دلّی آئے تھے اور ان ہی کے دربار میں انہوں نے اپنے طالع چمکائے تھے۔
گھر گھر شعر اور موسیقی کا چرچا تھا۔ بادشاہ کو دوم ڈھاڑیوں نے باور کرا دیا تھا کہ آدمی تیر تلوار کا مارا بھی مرتا ہے اور تان تلوار کا بھی۔ لہٰذا ایک فوج گویوں کی بھی تیار کر لی گئی تھی۔ ان رنگ رلیوں میں تلواریں لہو چاٹنا بھول گئیں اور نیاموں میں پڑے پڑے سو گئیں۔ نادر شاہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور قہروغضب کی آندھی بن کر دلی کی طرف جھپٹا۔ پرچہ لگا کہ نادر شاہ دلی کے قریب آ پہنچا۔ گویوں کی فوج مقابلے کے لیے بھیج دی گئی۔ نادر شاہ کے جانگلو محمد شاہی فوجیوں کی بغلوں میں بڑے بڑے طنبورے دیکھ کر پہلے تو ڈرے کہ خدا جانے یہ کیا ہتھیار ہے مگر جب جاسوسوں نے بھانڈا پھوڑا کہ یہ ہتھیار نہیں، ایک ساز ہے، تو دم کے دم میں انہوں نے محمد شاہی فوج کو کھیرے ککڑی کی طرح کاٹ کر ڈال دیا۔ نادر شاہ نے دھڑی دھڑی کر کے دلی کو لوٹا اور دلی کھک ہو گئی۔ قتل عام کیا تو ایسا کہ گھوڑوں کے سم خون میں ڈوب گئے۔ آخر وزیر با تدبیر بوڑھے نظام الملک کو نادری جلال فرو کرنے کے لیے نادر شاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنا پڑا کہ
کسے نہ ماند کہ دیگر بہ تیغ ناز کشی
مگر تو زندہ کنی خلق را و باز کشی
نادر شاہ لوٹ لاٹ کا بل چلا گیا، اور اپنے ساتھ شاہجہانی تخت طاؤس بھی لے گیا۔ شاہ عالم ثانی کی آنکھیں روہیلے نے نکالیں۔ بادشاہ آنکھوں کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی اندھے ہو گئے۔ ان کے درباریوں نے انہیں یقین دلایا کہ حضور والا بیٹھے بیٹھے ایک دم سے غائب ہو جایا کرتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں دلی سے مکہ مدینہ پہنچ جاتے ہیں۔ ایلو! بادشاہ سلامت بھی یہ سمجھنے لگے کہ واقعی میں مجھ میں یہ کرامت سما گئی ہے۔ پیری مریدی کرنے لگے اور مریدوں کے وظائف مقرر ہونے لگے۔ حکومت تباہ اور خزانے ویران ہو گئے۔ مثل مشہور ہوئی کہ ’’سلطنت شاہ عالم از دہلی تا پالم۔‘‘ یعنی صرف چند میل کی بادشاہت رہ گئی۔ سودا نے اپنے شہر آشوب میں ان کے زمانے کا خاکہ اڑایا۔
اکبر شاہ ثانی جاٹوں کے حملے سے ایسے ناچار ہوئے کہ انگریزوں کے وظیفہ خوار ہو گئے۔ یہی لیل ونہار تھے کہ بہادر شاہ عالم وجود میں آئے۔ بہادر شاہ کی پوری جوانی اور ادھیڑ عمر تخت و تاج کی راہ تکتے بیت گئی۔ اکبر شاہ ثانی کی ایک بیگم تھیں ممتاز محل۔ ان بیگم کے ایک چہیتے بیٹے تھے مرزا جہانگیر۔ بادشاہ بھی انہیں بہت چاہتے تھے اور انہی کو ولی عہد مقرر کرنا چاہتے تھے مگر مرزا جہانگیر اپنی بے ہودہ حرکتوں سے باز نہ آتے۔ انگریز حاکم اعلیٰ سیٹن کو لولو کہہ دیا۔ اس کی پاداش میں مرزا نظر بند کر کے الہ آباد بھیج دیے گئے۔ یہ ایک الگ قصہ ہے۔
ہاں تو بہادر شاہ ہی ولی عہد رہے اور ایک نہ دو، پورے باسٹھ سال تک ولی عہد رہے۔ جب کسی بادشاہ کا انتقال ہو جاتا تھا تو اس کے مرنے کی خبر مشہور نہیں کرتے تھے، یہ بات کہی جانے لگی تھی کہ ’’گھی کا کپالنڈھ گیا۔‘‘ خاموشی کے ساتھ میت کو نہلا دھلا کفنا کر قلعہ کے طلاقی دروازے سے جنازہ دفن کرنے بھیج دیا جاتا۔ نوبت نقارے الٹے کر دیے جاتے اور چولہوں پر سے کڑہائیاں اتار دی جاتیں۔ اکبر شاہ ثانی کے وقت تک یہ رسم چلی آتی تھی کہ بادشاہ کے جنازے کو تخت کے آگے لاکے رکھتے تھے۔ دوسرا بادشاہ جو کوئی ہوتا تھا، مردے کے منہ پر پاؤں رکھ کر تخت پر بیٹھتا تھا۔ دوسرے بادشاہ کے تخت پر بیٹھتے ہی شادیانے بجنے لگتے۔ سلامی کی توپیں چلنے لگتیں۔ تب کہیں سب کو معلوم ہوتا کہ بادشاہ مر گیا اور دوسرا بادشاہ تخت پر بیٹھ گیا۔
باسٹھ سال کی عمر میں بہادر شاہ کو تخت نصیب ہوا تو مغلوں کا جلال رخصت ہو رہا تھا اور آفتاب اقبال لب بام آ چکا تھا۔ بہادر شاہ کہنےکو تو بادشاہ تھے لیکن بالکل بے دست وپا تھے۔ فرنگی سرکار کے نمک خوار تھے۔ انہیں اس شرط پر ایک لاکھ روپیہ ماہانہ دیا جاتا تھا کہ ان کے بعد دلی کی شاہی ختم ہو جائےگی اور دلی بھی انگریزی عملداری میں شامل ہو جائےگی۔ لال حویلی کے باہر بادشاہ کا حکم نہیں چلتا تھا اور اگر شہر والوں میں سے کوئی ان کے پاس فریاد لے کر آتا تو بادشاہ اپنی مجبوری ظاہر کر دیتے اور کہتے، ’’بھئی انگریزوں کی عدالت میں جاؤ۔‘‘
لیکن اس بے بسی کے باوجود دلی والے ہی نہیں باہر والے بھی بادشاہ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ شہر کی بیشتر آبادی لال قلعہ کے متوسلین پر مشتمل تھی۔ شہزادوں اور سلاطین زادوں کے علاوہ امیر امراء اور روسا کا خدم و حشم کیا کم تھا؟ دلی میں، لٹتے لٹتے بھی الغاروں دولت بھری پڑی تھی۔ ڈیوڑھیوں پر ہاتھی جھولتے، تخت رواں، ہوادار، پالکی، نالکی، تام جھام، ہر حویلی میں موجود۔ لاؤ لشکر کا کیا ٹھکانہ! چوب دار، عصا بردار، پیادے، مردھے، کہار، لونڈیاں، باندیاں، ودّائیں، چھوچھوئیں، مغلانیاں، ترکنیں، حبشنیں، جسولنیاں، قلماقنیاں، خواجہ سرا، دربان، پاسبان، ہرامیر کے ہاں آخور کی بھرتی کی طرح بھرے پڑے تھے۔
سستا سمے، کاروبار خوب چمکے ہوئے، نہ جانے کیسی برکت تھی کہ ہن برستا تھا۔ ایک کماتا اور دس کھاتے۔ اجلے پوشوں تک کے خرچ اجلے تھے۔ رعایا خوش حال اور فارغ البال تھی۔ رہن سہن، ادب آداب، نشست وبرخاست، بول چال، رسم و رواج، تیج تہوار، میلے ٹھیلے، سیر تماشے، ان سب میں کچھ ایسا سلیقہ اور قرینہ تھا کہ دلی کی تہذیب ایک مثالی نمونہ سمجھی جاتی تھی۔ یہاں کے ہیروں کی چمک دمک تو آنکھوں میں کبھی کبھی ہی جاتی تھی، باہر سے جو بھی کھڑ آتی یا انگھڑ جواہر پارے آتے، یہاں ان کی تراش خراش کچھ اس انداز سے ہوتی اور اس پر ایسی جلا چڑھتی کہ اس کی چھوٹ سے آنکھیں خیرہ ہونے لگتیں۔ یہاں آکر گونگوں کو زبان مل جاتی، جن کی منقار زیر پر ہوتی وہ ہزار داستاں بن جاتے، جو پر شکستہ ہوتے وہ فلک الافکاک پر پر مارنے لگتے۔ علوم و فنون کے چشمے اس سرزمین سے پھوٹتے اور حکمت و دانش یہاں کی فضا میں گھلتی رہتی۔ غرض ہندوستان کا دل ایک عجیب پر کیف مقام تھا جو بہت کچھ برباد ہو جانے پر بھی جنت بنا ہوا تھا۔
زمانہ چپکے چپکے کروٹ بدل رہا تھا۔ مشرق پر مغرب کی یلغار شروع ہو چکی تھی۔ تہذیب فرنگ کی آندھی چڑھتی چلی آ رہی تھی اور مشرقی تہذیب کے چراغ جھلملا رہے تھے۔ یہ دلی کی آخری بہار تھی جس کی گھات میں خزاں لگی ہوئی تھی۔
بہادر شاہ کی حیثیت شاہ شطرنج سے زیادہ نہیں تھی۔ تیموری دبدبہ لال قلعہ میں محصور ہو چکا تھا۔ ملک ملکہ کا تھا، حکم کمپنی بہادر کا چلتا تھا۔ بہادر شاہ کو اپنی بے بسی کا شدت سے احساس تھا مگر وہ اس کا کوئی تدارک نہیں کر سکتے تھے اور تو اور خود ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف تھے۔ گھر کے بھیدی لنکا ڈھا رہے تھے۔ ان کی چہیتی بیگم زینت محل مرزا جواں بخت کو ولی عہد بنوانا چاہتی تھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے فرنگیوں سے ساز باز کر رکھا تھا۔ بادشاہ کے سمدھی مرزا الہٰی بخش انگریزوں سے جاملے تھے۔ شاہی طبیب حکیم احسن اللہ خاں انگریزوں کے گماشتے تھے۔
جب ۵۷ء میں غدر پڑا، جو در اصل پہلی جنگ آزادی تھی جو انگریزوں سے لڑی گئی، تو دیسی فوجیں چاروں طرف سے سمٹ کر دلی آنے لگیں اور زبردستی بوڑھے بادشاہ کو اپنا فرمانروا بنا کر فرنگیوں سے لڑنے لگیں، مگر اندر خانے تو دیمک لگی ہوئی تھی۔ کالے خا ن گول انداز کو جو بارود قلعہ سے بھیجی جاتی وہ بارود نہیں رنگا ہوا باجرا ہوتا۔ پھر دیسی فوج کا کوئی سر دھرا نہیں تھا۔ سب من مانی کر رہے تھے۔ ولی عہد بہادر اپنی چلا رہے تھے۔ انہیں اپنی بادشاہی کے خواب نظر آ رہے تھے۔ جنرل بخت خان پہلے تو جی توڑ کر لڑا۔ مگر جب اس نے یہ دیکھا کہ صاحب عالم اس کی چلنے نہیں دیتے تو اپنے آدمیوں کو لے روپوش ہو گیا۔
اقتدار کی خواہش اور محلات کی ریشہ دوانیاں آخری مغل بادشاہ کو لے ڈوبیں۔ جب انگریزوں کی فوجیں دلّی پر چڑھ آئیں اور شہر کے بچنےکی کوئی امید نہ رہی تو بادشاہ لال قلعہ سے نکل کر ہمایوں کے مقبرے میں چلے گئے۔ دلی کو انگریزوں نے فتح کر لیا۔ رعایا تباہ ہو گئی۔ در بدر خاک بسر۔ جس کے جہاں سینگ سمائے نکل گیا۔ دلی کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ ہڈسن اپنی فوج کا دستہ لے کر ہمایوں کے مقبرے پہنچا۔ اس کے پہنچنے سے کچھ ہی دیر پہلے جنرل بخت خان نے مقبرے میں آکر بادشاہ کو بتایا کہ دلی ختم ہو گئی۔ بہتر ہے کہ آپ میرے ساتھ چلیں۔ ہم کسی اور مقام کو اپنا گڑھ بنا کر انگریزوں سے لڑیں گے۔ بادشاہ اس کے ساتھ چلنے پر رضا مند بھی ہو گئے مگر انگریزوں کے ہوا خواہوں نے انہیں پھر ہشکا دیا۔ یہ کہہ کر کہ اس پوربئے کا کیا اعتبار؟ یہ آپ کی آڑ میں خود بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ بادشاہ پھر ڈھسل گئے۔
انہیں باور کرایا گیا کہ انگریز آپ کی پنشن جاری رکھیں گے اور آپ کی جو نذربند کر دی گئی ہے اسے بھی کھول دیں گے، اور آپ آرام سے لال قلعہ میں رہیں گے۔ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں۔ بادشاہ نے بخت خان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ جنرل بخت خان نے بہت سمجھایا کہ یہ مشورہ نمک حراموں کا ہے۔ ان کا یا فرنگیوں کا کیا اعتبار؟ مگر بادشاہ دو دلے ہو کر رہ گئے اور ہڈسن کا دستہ جب مقبرے میں داخل ہو گیا تو جنرل بخت خاں بادشاہ کو آخری سلام کر کے مقبرے میں سے جمنا کے رخ اتر گیا۔ اس کا پھر کوئی پتہ نہیں چلا کہ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔
ہڈسن نے آکر بادشاہ سے باتیں ملائیں۔ بادشاہ نے قلعہ میں واپس چلنے کے لیے چند شرائط پیش کیں۔ اپنی اور اپنے لواحقین کی جاں بخشی چاہی۔ پنشن کا جاری رہنا اور نذر کا کھلنا چاہا۔ ہڈسن نے سارے مطالبات مان لئے۔ بادشاہ کو ہوا دار میں سوار کرایا اور چھ شہزادوں کو فینس میں۔ جب دلی کے خونی دروازے پر پہنچے تو ہڈسن نے رک کر شہزادوں کو حکم دیا کہ فینس میں سے باہر نکل آؤ۔ شاہزادوں نے حکم کی تعمیل کی۔ ہڈسن نے ان پر اپنا طمنچہ تانا۔ شہزادوں نے کہا، ’’آپ نے تو ہمیں جان کی امان دی ہے۔‘‘ زبردست مارے بھی اور رونے نہ دے۔ ایک ایک کر کے ہڈسن نے چھیئوں شہزادوں کو گولی کا نشانہ بنایا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب شہزادے خاک وخون میں تڑپ رہے تھے تو ہڈسن نے ان کا چلو چلو بھر خون پیا اور کہا، ’’آج میں نے انگریزوں کے مارنے کا بدلہ ان سے لے لیا۔‘‘
شہزادوں کے سر کاٹ لئے گئے اور ان کی لاشیں خونی دروازے پر لٹکا دی گئیں۔ بادشاہ کو لال قلعہ میں قید کر دیا گیا۔ جب بادشاہ نے دبی زبان سے شکوہ کیا کہ ’’مجھ سے میری پنشن بحال رکھنے اور نذر کھولنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔‘‘ تو ہڈسن نے کہا، ’’ہم تمہاری نذر بھی کھولےگا۔‘‘ یہ کہہ کر شہزادوں کے کٹے ہوئے سر ایک طشت میں رکھ کر بادشاہ کے سامنے پیش کر دیے۔ بوڑے بادشاہ کے دل پر چھ جان جوان بیٹوں کے سر دیکھ کر کیا گزری ہوگی؟ اس کا اندازہ صاحب اولاد کر سکتے ہیں، اور شہزادوں کے بےگور و کفن لاشیں خونی دروازے پر لٹکی سڑتی رہیں۔ بادشاہ زادیاں دلی کی ویران گلی کوچوں میں بھٹکتی پھریں۔ کوئی انہیں امان دینے پر تیار نہ تھا۔ کون اپنی جان جوکھم میں ڈالتا؟ کوتوالی چبوترے پر پھانسیاں گڑھ گئیں اور چن چن کر مسلمانوں کو دار پر چڑھایا گیا اور اس کا بھی خاص اہتمام کیا گیا کہ پھانسی دینے والا بھنگی ہی ہو۔
دیکھتے ہی دیکھتے شہر میں ہوکا عالم ہو گیا۔ ویرانوں میں کتّے لوٹنے لگے۔ وہ بازار جہاں کھوے سے کھوا چھلتا تھا اور تھالی پھینکو تو سروں ہی سروں پر جاتی تھی، مسمار کر دیے گئے۔ امیر امراء کی حویلیاں ڈھادی گئیں اور دفینوں کی تلاش میں دلّی پر گدھوں کے ہل پھروا دیے گئے۔ بادشاہ پر لال قلعہ میں مقدمہ چلا گیا اور انہیں قید کر کے رنگون بھیج دیا گیا۔ لال حویلی کی کوکھ جل گئی۔ قلعہ میں گوری فوج رہنے لگی۔ جامع مسجد میں گھوڑے باندھے جانے لگے۔
بہادر شاہ ایک فقیر منش بادشاہ تھے، پیری مریدی بھی کرتے تھے، جوان کا مرید ہوتا اس کا کچھ نہ کچھ وظیفہ مقرر ہو جاتا۔ یوں تو ان کے سیکڑوں مرید تھے جو چیلے کہلاتے تھے۔ دلی میں ایک محلہ انہی چیلوں کی رہائش کی وجہ سے چیلوں کا کوچہ کہلاتا ہے۔ شعر و شاعری تو گویا، ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ کلام الملوک ملوک الکلام، ان سے زیادہ کسی اور پر یہ مقولہ سچا نہیں اترتا۔ کلام میں سوز و گداز ہے، ان کا کلام ان کی سیرت کا آئینہ ہے، مایوسیوں نے ان کا دل گداز کر دیا تھا۔ فرماتے ہیں،
یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایا نہ بنایا ہوتا
ان کی زبان کا کیا کہنا! لال قلعہ کی زبان اردوئے معلیٰ کہلائی۔ بیان اتنا مؤثر کہ تیر کی طرح دل میں اتر جائے۔ ظفرؔ کو بچپن سے شعر کہنے کا شوق تھا۔ شروع شروع میں شاہ نصیر کو اپنا کلام دکھایا۔ مشکل زمینوں میں شعر کہنے کی صلاحیت شاہ نصیر کی بدولت پیدا ہوئی۔ جب شاہ نصیر دکن چلے گئے تو میر کاظم حسین بیقرارؔ کو اپنا استاد بنایا لیکن کچھ عرصہ بعد بیقرارؔ افغانستان چلے گئے تو استاد ذوقؔ کو ولی عہد بہادر کی غزلیں بنانے کی خدمت سونپی گئی۔ ذوقؔ جب تک جیے اس خوشگوار فرض کو انجام دیتے رہے، ذوقؔ کے انتقال کے بعد مرزا غالبؔ استاد شہ مقرر ہوئے۔ مرزا کو استادی کے پچاس روپے ملتے تھے جو انہیں پچاس ہزار سے بھی زیادہ تھے۔
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
ظفرؔ کے چار دیوان شائع ہوئے تھے۔ انہوں نے اردو کے علاوہ فارسی بھاشا اور پنجابی میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ظفرؔ کے کلام میں چونکا دینے والا انوکھاپن تو نہیں ہے لیکن وہ ایک مخصوص طرز کلام کے مالک ضرور ہیں، ان کے کلام کا ایک اہم وصف ان کا خلوص ہے جو ان کی زندگی سے ہم آہنگ ہے اور ان کی شخصی خوبیوں کا آئینہ دار بھی۔ ظفرؔ بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ صوفی اور دردمند بھی تھے۔ اس دردمندی نے آگے چل کر فریاد وزاری کی شکل اختیار کر لی۔ ان کا زمانۂ اسیری کا کلام شکست شیشۂ دل کی صدا معلوم ہوتا ہے، یہ کلام شائع نہیں ہوسکا مگر دلی کے اکثر لوگوں کو زبانی یاد تھا۔ ایک غزل جوان سے منسوب ہے، اس کے چند شعر یہ ہیں،
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں
مرا رنگ روپ بگڑ گیا مرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں
میں نہیں ہوں نغمۂ جانفزا کوئی مجھ کو سن کے کرےگا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا کسی دل جلے کی پکار ہوں
کوئی آکے دیا جلائے کیوں کوئی آکے اشک بہائے کیوں
کوئی آکے پھول چڑھائے کیوں میں تو بیکسی کا مزار ہوں
۳۵۔ ۴۰ سال پہلے تک دلی میں ایک بڑے میاں تھے جن کی صورت شکل بہادر شاہ سے بہت کچھ ملتی جلتی تھی۔ وہ رباب بجا کر صرف بہادر شاہ ہی کی غزلیں گایا کرتے تھے۔ لوگ ان کی غمناک دھنوں میں مظلوم بادشاہ کی غزلیں سن کر بےحد متاثر ہوتے تھے اور انہیں روپے دو روپے دے کر رخصت کرتے تھے۔ ایک اور غزل وہ گایا کرتے تھے جس کے دو شعر یہ ہیں۔
پس مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
اسے آہ دامن باد نے سرشام ہی سے بجھا دیا
مجھے دفن کر چکو جس گھڑی تو یہ اس سے کہنا کہ اے پری
وہ جو تیرا عاشق زار تھا تہہ خاک اس کو دبا دیا
پیلو کی دھن میں رباب کے زخموں کے ساتھ جب بڑے میاں ایک اور غزل سناتے تو سننے والوں کے ساتھ خود ان کے بھی آنسو نکل پڑتے۔
گئی یک بیک جو ہوا پلٹ نہیں دل کو میرے قرار ہے
کروں غم ستم کا میں کیا بیاں مرا غم سے سینہ فگار ہے
یہ رعایا ہند تباہ ہوئی کہو کیسی ان پہ جفا ہوئی
جسے دیکھا حاکم وقت نے کہا یہ بھی قابل دار ہے
یہ کسی نے ظلم کبھی ہے سنا کہ دی پھانسی لوگوں کو بے گنہ
ولے کلمہ گویوں کی سمت سے ابھی دل میں ان کے بخار ہے
نہ تھا شہر دہلی یہ تھا اک چمن کہو کس طرح کا تھا یاں امن
جو خطاب تھا وہ مٹا دیا فقط اب تو اجڑا دیار ہے
یہی تنگ حال جو سب کا ہے یہ کرشمہ قدرت رب کا ہے
جو بہار تھی سو خزاں ہوئی جو خزاں تھی اب وہ بہار ہے
شب وروز پھولوں میں جو تلے کہو خار غم کو وہ کیا سہے
ملے طوق قید میں جب انہیں کہا گل کے بدلے یہ ہار ہے
سبھی جادہ ماتمِ سخت ہے کہو کیسی گردش ِبخت ہے
نہ وہ تاج ہے نہ وہ تخت ہے نہ وہ شاہ ہے نہ دیار ہے
جو سلوک کرتے تھے اور سے وہ ہیں زندہ اب کسی طور سے
وہ ہیں تنگ چرخ کے دور سے رہا تن پہ ان کے نہ تار ہے
نہ رہے جو تن پہ ہے سر مرا نہیں جان جانے کا ڈر ذرا
کٹے غم ہی نکلے جو دم مرا مجھے اپنی زندگی ہی بار ہے
ان اشعار میں بہت کچھ تحریف ہو گئی ہے۔ کیونکہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں۔ تاہم ان اشعار سے ظفرؔ کی دردناک زندگی کا نقشہ آنکھوں کے آگے آ جاتا ہے، رنگون میں خود بادشاہ کی حالت بہت زبوں ہو گئی تھی۔ ایک انگریز سیاح نے بادشاہ کو آخری وقت دیکھا تھا تو وہ ایک جھلنگے میں بے سدھ پڑے ہوئے تھے۔ کمرے کے ایک کونے میں پانی کا جو گھڑا رکھا ہوا تھا، اس میں کیڑے کلبلا رہے تھے۔
ظفرؔ کو اپنے جذبات و احساسات کے اظہار پر بڑی قدرت تھی۔ کسی واقعہ یا تاثر کو پوری شدت کے ساتھ شعر کے قالب میں ڈھال دیتے تھے۔ طویل بحریں انہیں زیادہ مرغوب تھیں، مشکل زمینیں پیدا کرنے میں بھی انہیں خاص ملکہ تھا۔ مشکل سے مشکل ردیف قافیہ بےساختگی سے نباہ جاتے تھے۔
ہو چکی گرمی گلابی بادۂ گلگوں سے بھر
اب تو جاڑا اے پری پیکر گلابی ہو گیا
مری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نظر میں نور جمال تھا
کھلی آنکھ تو نہ خبر رہی کہ وہ خواب تھا کہ خیال تھا
تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
زبان کا چٹخارہ اس شعر میں دیکھئے،
آج دیتے ہیں وہی توڑ کے ٹکڑا سا جواب
اے ظفرؔ کھا کے پلے جو مرے گھر کے ٹکڑے
شاعری کے ساتھ ساتھ بہادر شاہ موسیقی اور خطاطی کے بھی استاد تھے۔ انہوں نے گلستاں کی ایک شرح بھی لکھی تھی۔ جس طرح شاہ نصیرؔ، ذوقؔ اور غالبؔ جیسے استاد ان کے دربار سے وابستہ رہے، اسی طرح شاہ بھیکن، میاں اچپل اور تان رس خاں جیسے نامی گرامی موسیقار بھی ان کے دربار میں موجود تھے۔ بہادر شاہ بذات خود موسیقی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ ان کے بنائے ہوئے خیال، ٹھمریاں، ملہاریں اور ہولیاں آج بھی گائی جاتی ہیں۔ اس قسم کی چیزوں میں بہادر شاہ شوق رنگ تخلص کرتے تھے۔ اس کا نمونہ باگسیری بہار کا یہ خیال ہے،
رُت بسنت میں اپنی امنگ سوں
پی ڈھونڈن میں نکسی گھر سوں
ملے تو لال گروا لگا لوں
پاگ بندھاؤں پیلی سرسوں
رُت بسنت میں اپنی امنگ سوں
رنگ ہے سبزہ نرگس یاں کا
کہے شوق رنگ، رنگ ہے وا کا
ان بھیدن کو کوئی نہ جانے
واقف ہوں میں واکی جرسوں
رت بسنت میں اپنی اُمنگ سوں
۱۸۵۸ء میں بادشاہ کو قید کر کے رنگون بھیج دیا گیا۔ چار سال قید و بند میں رہ کر آخری مغل تاجدار نے دیار غیر میں انتقال کیا۔ اس طرح ۱۸۶۲ء میں تیموری عظمت کا چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گل ہو گیا۔
پردہ داری می کند بر طاق کسریٰ عنکبوت
چغد نوبت می زند بر گنبد افراسیاب