آخر شب کے ہم سفر

297

قسط:19

’’مرغ مسلم اور پلائو۔ یا جو کچھ بھی آپ مسلمان لوگ کھاتے ہیں صبح کو‘‘۔
’’اری بیوقوف۔ مسلمان ناشتے میں مرغ مسلم نہیں کھاتے‘‘۔
’’واہ۔ جہاں آراء کے ہاں، میں نے ایک مرتبہ مرغ مسلم اور پراٹھے کھائے تو اس نے کہا کہ صبح پکے تھے‘‘۔

’’جہاں آراء کون؟‘‘ وہ دونوں ٹہلتے ہوئے اب جھونپڑے کی طرف لوٹ رہے تھے۔

’’میری دوست ہے۔ نواب قمرالزماں چودھری کی لڑکی۔ سخت فیوڈل، لیکن بے حد سوئیٹ‘‘۔
’’اوہ‘‘۔

وہ جھونپڑے میں داخل ہوگئے۔ زینب بی بی نے رات کا پکایا ہوا پنتھا بھات سامنے رکھا۔

’’میں آج ہاٹ جا کر آپ کے لئے کھانے پینے کا سامان خرید لائوں گی‘‘۔ دیپالی نے ریحان سے انگریزی میں کہا۔

’’دیپالی تم چند روز یہاں رہ کر میرے لئے بہتر کھانا پکا دو گی۔ مگر ان دونوں کو تو ساری زندگی اس کے علاوہ کچھ میسر نہیں ہوا‘‘۔

’’…‘‘دیپالی نادم ہو کر المونیم کی رکابی پر جھک گئی۔ زینب بی بی چولہے پر چائے اونٹنے میں مصروف تھیں۔ چائے پینے کے بعد وہ دونوں دوسرے کمرے میں گئے۔ جس میں ریحان کی چار پائی بچھی تھی۔ فرش پر کاغذات کا ڈھیر لگا تھا۔ ایک کونے میں اس کے ٹرنک کے اوپر بیٹری کا ریڈیو رکھا تھا۔ ریحان نے صبح کی خبروں کے لئے ریڈیو اَون کیا۔ اے آئی آر دہلی سے میلون ڈی میلو کی آواز گونجی۔

خبریں سننے کے بعد ریحان نے کہا۔ چلو باہر چلیں۔ وہ دونوں باہر نکلے۔ جھونپڑے کے نیچے گھاٹ پر مولوی کی نائو بندھی ہوئی تھی۔ مولوی صاحب دن بھر کے لئے کسی کام سے گائوں جا چکے تھے اور پانی کی سطح پر بحری عقاب مچھلیوں پر جھپٹا مار رہے تھے۔

’’میں وہ چتکبرے ہرن دیکھنا چاہتی ہوں، جو صبح اتنی تیزی سے بھاگ گئے۔ آگے جا کر جنگل زیادہ خوب صورت ہوجاتا ہے؟‘‘

’’زیادہ خوب صورت اور زیادہ خطرناک‘‘۔

’’مگر میں وہ ہرن ضرور دیکھوں گی۔ اتنے حسین ہرن میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے‘‘۔

’’ٹھیک ہے… مگر سیتا کے انجام سے واقف ہو؟‘‘

وہ ہنستی ہوئی اُتر کر کشتی میں بیٹھ گئی… ریحان نے کشتی کھول کر دھارے پر چھوڑ دی۔ وہ اس ندی اور اس منطر اور اس ماحول کا ایک لازمی اور فطری جزو معلوم ہورہا تھا۔ دیپالی کو ایک بیک خیال آیا کہ وہ اس کی زندگی کے پس منظر سے بالکل واقف نہیں۔

نائو پانی کی سطح پر روانی سے بہہ رہی تھی۔ ریحان نے آہستہ آہستہ ایک ساری گانا گنگنانا شروع کردیا۔ پھر چپ ہوگیا۔

کنارے پر جھکے سندری درختوں پر رنگ برنگے پرندے چکر کاٹ تھے۔

’’تم کو احساس ہوا شوکتی کہ ان دریائوں اور اس دھرتی نے کیسے کیسے دُکھ دیکھے ہیں؟ میں ان دُکھوں کا ایک حصہ ہوں‘‘۔

’’آپ بھی گائوں کے رہنے والے ہیں؟‘‘

’’تم نے مولوی ابوالہاشم کو دیکھا… میرے بابا مولوی ابوالہاشم کا نمونہ ہیں۔ ایسے ہی صابر، نیک اور بھولے‘‘۔

’’اوہ۔‘‘وہ چپ ہوگئی۔ وہ یہ کرید نہ کرنا چاہتی تھی کہ ایک غریب کسان کا لڑکا لندن اسکول آف اکنامکس کیسے پہنچ گیا۔ یقیناً وہ اس کے متعلق کچھ بھی نہ جانتی تھی۔

چند لمحوں بعد اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’آپ لندن کیسے گئے تھے؟‘‘

’’لندن…؟‘‘ ریحان نے چونک کر دہرایا۔ ’’لندن کا یہاں کیا ذکر ہے؟ یہ اپنا ملک دیکھو اور دیکھو کہ لندن نے اس کے ساتھ کیا کیا؟‘‘ وہ خاموش ہوگیا۔ ’’میں 1935ء میں لندن گیا تھا۔ تم میرے حالاتِ زندگی جاننا چاہتی ہو؟ میں نے علی گڑھ سے ہائی اسکول اور ایف اے کیا تھا‘‘

’’علی گڑھ‘‘۔

’’ہاں یہ تمہارے لئے تقریباً اجنبی نام ہے، مگر یہ ملک اور قوم کی ایک بے حد اہم داستان کا ایک حصہ ہے اور اس داستان سے تم کو واقف ہونا چاہیے۔ پھر میں نے ڈھاکے لوٹ کر بی اے اور کلکتہ سے ایم اے کیا۔ اسی زمانے میں تمہارے چچا کی کتاب ’’بنگال کی اقتصادی تاریخ‘‘ پڑھی تھی۔ وہ رُک کر کسی سوچ میں کھو گیا۔ اور پھر چپو چلانے شروع کئے اور کہنے لگا۔ ’’اس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ ان کی بھتیجی… کوئی سڑیلی سی لونڈیا کسی اسکول میں پڑھ رہی ہے اور ایک دن میری زندگی میں سائیکلون کی طرح داخل ہوگی… دیکھو کھُلنا کی مناسبت سے کیسی برمحلہ تشبیہ دی ہے‘‘۔ وہ اُداسی سے ہنسا۔

’’بہت خوب! آگے چلئے!!‘‘

’’اس کے بعد… ایک… ایک وظیفے پر لندن چلا گیا۔ وہاں میں اور اُدما اور اکشے اور بہت سے لوگ اکٹھے ہوگئے۔ ہمارا بڑا ہی تاریخی قسم کا گروہ تھا وہ!‘‘

’’اور واپس آتے ہی کود پڑے انقلاب کے شعلوں میں!‘‘ دیپالی نے کہا۔

وہ کھلکھلا کر ہنسا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’کلکتہ میں چند سال ہوئے پروگریسور ایکٹرز کی دوسری کانفرنس ہوئی تھی۔ اس میں تمہیں آنا چاہیے تھا۔ بڑا ولولہ خیز تجزبہ تھا‘‘۔

’’آپ بھی لکھتے ہیں؟‘‘

ریحان نے اسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ ’’ارے تم کتنی جاہل ہو۔ یہ رائلٹی مجھے ابھی کس لیے ملی ہے اور وہ جو میں نورالرحمٰن کا بنا رسالہ ایڈیٹ کررہا تھا تو کیا گھاس کھود رہا تھا؟ دیپالی کیا تم نے واقعی میری کتاب نہیں پڑھی؟ اُدما نے تم کو نہیں دی پڑھنے کو؟‘‘

’’کیا افسانے لکھتے ہیں؟‘‘

ریحان نے چپو چھوڑ کر آسمان کی طرف احتجاجاً ہاتھ پھیلائے۔ ’’اوہ لڑکیاں، لڑکیاں…‘‘ اس نے فریاد کی۔

’’نہیں سچ بتائیے‘‘۔

’’میں افسانے نہیں لکھتا ہوں نہ شاعری کرتا ہوں۔ ٹھوس کام کرتا ہوں‘‘۔

’’تھوڑا سا انکسار آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائے گا‘‘۔ دیپالی نے ہنس کر کہا۔ ’’آپ کی کتاب کا کیا نام ہے؟‘‘

’’انیسویں صدی میں بنگال کی زرعی حالت‘‘۔ ریحان نے منہ لٹکا کر کہا۔ ’’ارے دیپالی تم بڑی جاہل نکلیں…‘‘

’’اور یہ پروگریسیو رائٹرز کیا ہوتے ہیں؟‘‘

ریحان نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے اور کراہا۔

’’نہیں پلیز۔ بتائیے نا‘‘۔

’’ابھی جب کالج واپس جائو گی تو گرو دیو نے جو پیغام کانفرنس کے نام بھیجا تھا وہ پڑھ لینا، سمجھ میں آجائے گا‘‘۔

’’گرو دیو نے کیا کہا تھا…؟‘‘

’’انہوں نے کہا تھا کہ میری طرح گوشہ نشیں بن کر کام نہیں چل سکتا۔ اُدما دیبی کو چاہئے تھا کہ تمہیں یہ سب باتیں بتاتیں‘‘۔

’’اُدما دیبی۔ اُدما دیبی۔

’’آپ نے بہت سے لوگوں کو آئیڈیلائز کر رکھا ہے‘‘۔

’’ہاں‘‘

’’کون کون‘‘۔

’’بہت سارے ہیں۔ ان میں سے ایک تم بھی ہو۔ دیپالی تم کلچرل فرنٹ پر کام کرو گی؟‘‘

’’آپ جو کہیں گے کروں گی‘‘۔

کشتی اب درختوں کی سُرنگ میں سے گزر رہی تھی۔

’’مغرب میں بھی یہی سب ہورہا ہے؟ جدوجہد؟‘‘ دیپالی نے پوچھا۔

’’مغرب میں… اسپین میں ایک خونریز جنگ لڑی جاچکی ہے دیپالی‘‘۔

’’مجھے اور بتائیے… لندن کے متعلق جب آپ وہاں طالب علم تھے‘‘۔

’’جب ہم وہاں طالب علم تھے‘‘۔ ریحان چپو ایک طرف رکھ کر نیم دراز ہوگیا… وہ واقعی ’’ری لیکس‘‘ کررہا تھا۔ ’’اس زمانے میں وہاں بڑے معقول لوگ جمع تھے۔ ملک راج آنند اور سجاد ظہیر اور جیوتی گھوش نے مل کر پی ڈبلیو اے قائم کی تھی‘‘۔

’’آپ انگلینڈ ہی میں تحریک میں شامل ہوگئے تھے‘‘۔ دیپالی نے بات کاٹی۔

’’ہاں۔ اور واپس آکر دیکھا کہ ہمارے ساتھی… علی گڑھ اور لکھنؤ اور جامعہ ملیہ اور کلکتہ اور سب جگہوں کے نوجوان ہمارا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوچکے ہیں۔ پرانے دہشت پسند بھی اب ہماری طرف آچکے تھے۔ شوکتی۔ ہم لوگ خوش قسمت ہیں جو اس زمانے میں پیدا ہوئے اور ملک کے لیے کچھ کرسکنے کے اہل ہیں‘‘۔

سُرنگ کے اختتام پر پہنچ کر ریحان نے کشتی موڑ لی۔ ’’آگے گھڑیالوں کی راجدھانی ہے۔ اب واپس چلتے ہیں‘‘۔ اس نے کہا۔

واپسی میں ریحان خاموشی سے پتوار چلانے میں مصروف رہا۔ بادل گھر آئے تھے اور سورج کبھی کبھی بادلوں میں سے نمودار ہو کر چمکنے لگتا تھا۔ لقلق اور رام چڑیاں سارے میں اُڑتی پھر رہی تھیں۔

گھر پہنچ کر انہوں نے کھانا کھایا اور اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے کے لیے چلے گئے۔ تیسرے پہر کو ریحان نے دیپالی کے دروازے پر آن کر آواز دی۔ ’’شوکتی۔ یہاں آنا تو…‘‘ دیپالی کھاٹ پر ساری بچھا کر اور اپنے تھیلے کا تکیہ بنائے بے خبر سو رہی تھی۔ زینب بی بی گھڑا لے کر شام کے پکانے، ریندھنے کے لئے پانی لینے ندی پر گئی ہوئی تھیں۔ ریحان ذرا جھجکتا ہوا اندر آگیا اور کواڑ سے لگ کر خوابیدہ دیپالی کو دیکھنے لگا۔ ’’شوکتی‘‘! اس نے چند منٹ بعد پھر آہستہ سے آواز دی۔ وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی۔

’’ وہ رسالے کہاں ہیں؟‘‘ریحان نے یونہی بے مقصد سوال کیا۔

’’ابھی لاتی ہوں‘‘۔

ریحان ذرا احمقوں کی طرح کھڑا سر کھجاتا رہا۔ پھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ دیپالی اخبار اور رسالے اُس کے پاس لے گئی۔

’’آئو باہر روشنی میں بیٹھ کر پڑھتے ہیں‘‘۔ ریحان نے کہا۔ وہ یہ رسالے حاصل کرکے واقعی بے حد خوش نظر آرہا تھا۔ جیسے سوکھے دھانوں میں پانی پڑ گیا ہو۔

برآمدے میں چٹائی بچھا کر وہ سورج ڈوبنے تک رسالوں کا مطالعہ کرتے رہے۔ ریحان دیپالی کو مختلف مضامین کے نکات سمجھاتا گیا۔

سامنے گھاٹ پر نائو آکر رُکی۔ مولوی صاحب اُترے۔

زینب بی بی نے اندر سے آواز دی۔ ’’کھانا تیار ہے‘‘۔

کھانے کے بعد دیپالی پھر برآمدے میں جا کھڑی ہوئی۔ اور اُفق پر تیرتے ہوئے چاند کو دیکھنے لگی۔ ریحان نزدیک کے کھمبے سے ٹِک کر کھڑا ہوگیا۔ رات کا اندھیرا سیلاب کی طرح بڑھتا آرہا تھا۔

زندگی کا… ایک اور دن ختم ہوگیا ایک انمول دن گزر گیا۔ ایک شعر پڑھا جاچکا۔ ریحان نے کہا۔ پھر اس نے مڑ کر دیپالی کو آواز دی۔

’’گڈ نائٹ… دیپالی‘‘۔ وہ اپنے کمرے میں گھس گیا۔

دوسرے دن وہ پگڈنڈیوں پر سے گزر کر گائوں میں گئے۔ کسانوں اور مچھیروں سے باتیں کرتے رہے۔ اور رات گئے واپس آئے۔ راستے میں دیپالی کی ساری ایک جھاڑی میں اُلجھ گئی۔ ریحان اس کی مدد کرنے کے لئے زمین پر دو رانوں بیٹھ گیا۔ کانٹے نکالتے ہوئے اس نے سر اُٹھا کر دفعتاً پوچھا۔ ’’ساری پر یاد آیا۔ تمہاری چوری کا پتہ چل گیا؟‘‘

’’جی ہاں‘‘۔ وہ ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔ اور چاند کی روشنی میں ساری کے چاک میں گرہ لگانے کی کوشش کرنے لگی۔

’’مجھے ان ساریوں کے بکنے کا بڑا رنج ہوا تھا‘‘۔ ریحان نے کہا۔ ’’میں نے سوچا تھا، جو لڑکی اتنی بڑی قربانی دے سکتی ہے‘‘۔

’’میں نے کیا قربانی دی ہے‘‘۔ دیپالی نے جھنجھلا کر بات کاٹی۔

’’کیوں۔ کیا میں جانتا نہیں کہ لڑکیوں کو اپنی ساریوں اور گہنوں سے کتنی وابستگی ہوتی ہے‘‘۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’امی کے پاس بھی دو بالوچر ساریاں تھیں۔ جب وہ بیاہ کر آئی تھیں تو میری دادی اماں نے ان کو دی تھیں۔ وہ ساریاں میں تم کو دوں گا دیپالی‘‘۔

دیپالی سکتے میں رہ گئی۔ اس کے ہاتھ پائوں ٹھنڈے پڑ گئے۔ وہ گھبرا کر پتھر پر سے اُٹھی۔

’’کیوں۔ کیا ہوا؟ کیا بات ہے؟‘‘ ریحان نے پریشانی سے دریافت کیا۔

’’کچھ بھی تو نہیں۔ گھر چلئے‘‘۔

وہ اُونچے نیچے ٹیلوں اور جھاڑیوں کو پھلانگتے جھونپڑے کی طرف روانہ ہوگئے۔ دیپالی نے اب پھر ایک دم چپ سادھ لی تھی۔

تیسرے روز وہ دونوں ٹہلتے ہوئے ندی کے ساحل پر کافی دور نکل گئے۔ جب، اچانک دور سے ایک لانچ نظر آئی۔ دیپالیؔ سہم کر ایک درخت کی اوٹ میں چھپ گئی۔ یہ سرکاری لانچ تھی۔ غالباً معمول کے دورے پر اس طرف سے گزر رہی تھی یا شاید کچھ سرکاری افسر شکار کے ارادے سے ادھر آئے تھے۔ لانچ شور مچاتی پانی پر سے گزر کر درختوں کی سرنگ میں غائب ہوگئی۔ دیپالی کا رنگ فق ہوچکا تھا۔

(جاری ہے)

حصہ