وراثت

273

وراثت کا نام سنتے ہی ذہن میں والدین کی وفات کے بعد جائداد پہ لڑائی جھگڑا یا کورٹ کچہری آجاتی ہے۔ حالانکہ جس وراثت (جائداد) پر جھگڑ رہے ہوتے ہیں وہ سدا رہنے والی چیز بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ پیچھے چھوڑی جانے والی مادی اشیا یا جائداد کی تقسیم کو وراثت کہتے ہیں۔ جب کہ وراثت ورثہ سے ہے، اور ورثہ کا مطلب ترکہ، میراث یا خصوصیات کا ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہونا ہے۔

ترمذی کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا’’باپ اپنے بیٹے کو نیک آداب سکھانے سے بہتر کوئی چیز نہیں دیتا۔‘‘

اس پر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ وراثت کی منتقلی کے دو ادوار ہیں، ایک وہ جو زندگی میں منتقل کی جاتی ہے یعنی تربیتِ اولاد کی صورت میں، اور دوسرا وہ جو جائداد کی صورت میں ہوتی ہے جو مرنے کے بعد ورثا میں منتقل ہوتی ہے۔

غور فرمائیں تو وراثت تو ہم والدین ہر لمحہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اپنے بچوں کو منتقل کررہے ہوتے ہیں۔ والدین کا اندازِ گفتگو، معاملہ فہمی، معاملات کو سلجھانا، اٹھنے بیٹھنے کے طریقے، مہمان کے جاتے ہی ان پہ تبصرے ہوں یا تیسرے فرد سے کال بند کرنے کے بعد کی باتیں، تحفے کے لین دین سے لے کر گھریلو معاملات میں میاں بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ رویہ ہو یا والد صاحب کا گاڑی چلانے کے دوران ٹریفک پہ مخصوص الفاظ کا استعمال… غرض یہ کہ ہر لمحہ چاہے وہ عملاً ہو یا فکری، والدین اپنے بچوں کو ورثہ منتقل کررہے ہوتے ہیں۔ منتقلی اگر مثبت ہوگی تو یقیناً یہ اولاد آپ کے لیے دنیا میں بھی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گی اور بعد میں بھی صدقۂ جاریہ ہوگی۔ اس کے برعکس اگر منفی ہوئی تو یقین جانیے مکان کی صرف چھت، دیواریں اور کھڑکیاں اولاد کے کام آئیں گی، اسے گھر وہ نہ بنا سکیں گے۔

سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’کیوں کہ ان کا باپ نیک تھا اس لیے یتیم بچوں کو خزانہ ملا۔‘‘ یعنی اصل چیز والدین کی نیکیاں ہی ہوں گی جو بچوں کے کام آئیں گی۔

نہ صرف تاریخ میں بلکہ ہر زمانے میں ہم نے یہ دیکھا ہے کہ بڑی شان دار حویلیاں جو وراثت میں ملیں، ان کی دیکھ بھال بھی اولاد نہیں کرسکی۔ بڑے بڑے کاروبار کو ہم نے نالائق اولاد کے ہاتھوں ڈوبتے دیکھا ہے۔ مادّی آسائشوں سے انکار نہیں، لیکن بچے کو اس قابل بنائیں کہ وہ خود اپنا گھر بنائے، جیسے چڑیا اپنے بچے کو گھونسلہ بنانا نہیں سکھاتی بلکہ اُڑنا سکھاتی ہے۔ تو اصل محنت، توجہ، وقت بچے کی کردار سازی اور اندازِ فکر کو درست کرنے میں صرف کریں۔ کہا جاتا ہے کہ بھلے ایک پلیٹ میں کھائیں، محبت سے کھائیں۔ کم ہو، لیکن باعثِ سکون ہو۔

آئیے سوچیے! ہم کس کس طرح اور کہاں کہاں اپنے بچوں کی کردار سازی کررہے ہیں۔ خاندان جیسا بھی ہو، انسان کی چھاؤں ہوتا ہے چاہے وہ میکے سے ہو یا سسرال سے۔ مائیں سسرال کی معمولی لغزش بھی بچوں کے کان میں نہ ڈالیں کیوں کہ ددھیال ہی اب اس کا خاندان ہے۔ اسی طرح والد صاحب بھی بچوں کے ننھیال کی عزت کریں۔ خوشی غمی کا اظہار بھی دل کھول کر کریں اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں شریک ہوں، آپ کا بچہ ان باتوں کے ساتھ اپنے خاندان سے مضبوطی سے جڑ جائے گا۔ جو دوستی، پیار اسے اپنے کزنز سے گھر کے اندر مل گیا اب وہ باہر نہیں ڈھونڈے گا۔ جیسے آج کی نئی تفریح دوستوں کے گھر رات کو رکنا ہے، جبکہ پہلے ہم چھٹیاں ہوتے ہی اپنا تھیلا تیار کرکے تایا، چچا، پھوپھی، نانا، ماموں، خالہ کے گھر چند دن رہنے کے لیے چلے جاتے تھے، مائیں بھی بے فکر ہوتی تھیں کہ خیر ہے بچہ اپنوں کے گھر ہی رات گزارے گا۔

اپنا جائزہ خود لیجیے کہ خاندان یا آس پڑوس کے بچے کے زیادہ نمبر آپ کو متاثر کرتے ہیں یا وہ بچہ جو بااخلاق ہو، نمازی ہو۔

یہ کہاوت تو آپ نے سنی ہی ہوگی ’’باادب بانصیب‘‘۔ یہ سنہری بات اپنے آپ میں مکمل کامیاب زندگی کی ضمانت ہے۔ دوسری طرف والد صاحب کا معاملہ محلے والوں کے لیے کتنے سکون کا باعث ہے، یا خاندانی معاملات میں والد صاحب کا اندازِ بیان حلم و بردباری والا ہوتا ہے یا نہیں! اولاد کے جوان ہونے پر ہم خاندانی رشتے تو ضرور ڈھونڈتے ہیں لیکن کیا اپنے بچے کو خاندان بنانے کے لیے تیار کرتے ہیں؟

تو اصل وراثت جائداد، روپیہ پیسا نہیں بلکہ فکرِ آخرت کے اصولوں پہ چلتے ہوئے زندگی کے روز مرہ کے معاملات نمٹانا ہے جس کو دیکھتے ہوئے ہمارے بچے اپنی زندگی بسر کریں گے۔ صرف ڈگری یا نوّے فیصد نمبر پہ بھروسا نہ کریں، بلکہ یقین جانیے اولاد تہذیب یافتہ، با ادب اور معاملہ فہم ہوگی تو دنیا میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی، اِن شاء اللہ۔

حصہ