قائداعظم کا نام دنیا کی ان تاریخی شخصیتوں میں لیا جاسکتا ہے جو باوجود ترغیب و تحریض کے مناسب وقت آنے تک خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
نوجوان قارئین کی دلچسپی کے لیے میں ایک معروف و مشہور اور دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتا ہوں جو قائداعظمؒ کی شخصیت‘ عظمت کو ظاہر کرتاہے ۔ اس سے میرے ا س دعویٰ کی تصدیق ہوجائے گی کہ قائداعظم نے پاکستان کی معاشی حالت کے قابل عمل ہونے پردرست غور وفکر کیا تھا۔ اس کے باوجود آپ نے مناسب وقت آنے تک اس پہلو پر خاموشی اختیار کرلی۔ یہ یا د رہے کہ ملک کے نامور ماہر مالیات زاہدین حسین‘ غلام محمد اور چودھری محمد علی سے قائداعظمؒ اکثر اس پہلو پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔
دوسری جنگ عظیم کے ابتدائی سالوں میں ہندوستان کی برطانوی حکومت جنگ میں ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں کا تعاون حاصل کرنے کے لیے بہت بے قرارتھی۔ بنگال اور پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت تھی لیکن اسے قطعی اکثریت حاصل نہ تھی۔ پنجاب میں ایک مشکل مسئلہ درپیش تھا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ جو مشترکہ یونینیسٹ پارٹی کے لیڈر تھے انھوں نے مسلم لیگ کے مسلمان ممبروں کی اطاعت کا یقین دلایا تھا۔
حکومت ہند پنجاب کے صوبہ کو جنگی مقاصد کے لیے نہایت اہم خیال کرتی تھی کیونکہ ہندوستانی فوج میں پنجابیوں کی اکثریت تھی۔ قائداعظم ؒ اس وقت کے وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ لنگتھو کو یہ اجازت دینے پر رضامند ہوگئے تھے کہ وہ ان دوصوبوں کے وزراء اعلیٰ کی خدمات اور تعاون حاصل کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ یہ دونوں وزراء اعلیٰ مسلم لیگ کے نمائندے سمجھے جائیں۔ اس پروگرام کی تکمیل میں کچھ وقت صرف ہوگیا لیکن اسی دوران میں مسلم لیگ اور حکومت ہند کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے جس کے نتیجے میں قائداعظمؒ نے تعاون کی اس پیش کش کو واپس لے لیا لیکن جب جنگی کونسل کے ممبروں کی فہرست شائع ہوئی تو اس میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ سرسکندر حیات کا اور بنگال کے وزیراعلیٰ مسٹر فضل الحق کا نام بھی شامل تھا۔
مسلم لیگ کی طرف سے پیش کش کی واپسی کی بنا پر ان دونوں حضرات سے کہا گیا کہ وہ جنگی کونسل سے مستعفی ہوجائیں۔ تو انھوں نے یہ کہہ کر استعفے ٰ دینے سے انکار کردیا کہ وہ اس کونسل میں مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے شامل نہیں ہوئے بلکہ اپنے اپنے صوبوں کے وزراء اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے لیے گئے ہیں۔ گورنر جرنل نے بھی مسٹر سکندر حیات خان اور فضل الحق کی اس بات کی حمایت کی یہ مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے جنگی کونسل میں شریک نہیں ہوئے قائد اعظم نے اس بات کو ماننے سے نکار کر دیا۔ جب اس تنازع میں شدت پیدا ہوئی تو سیکرٹری آف اسٹیٹ فار انڈیا نے پارلیمینٹ کے سامنے گورنر جنرل کے مؤقف کی حمایت میں ایک بیان دیا۔ اس سے بظاہر قائداعظم کی پوزیشن کمزور ہوگئی ۔ ان دو اہم شخصیت کے بیانات کی روشنی میں قائداعظم کے بیان کو کمزور سمجھ کر اس معاملے کو ختم سمجھا گیا لیکن قائدعظم اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے اس مؤقف سے ذرا بھر انحراف نہ کیاکہ یہ دونوں مسلم لیگ کے نمائندے وزرااعلیٰ مستعفی ہوجائیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کا اجلاس بمبئی میں بلا یا گیا۔ اسی موقع پر غیر مسلم اخبارات نے قائداعظم کو بدنام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ انھوں نے کہا کہ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ قائداعظم کتنے ضدی اور غیر دانش مند ہیں کیونکہ وہ باوجود گورنر جنرل اور سیکریٹری آف اسٹیٹ کے بیانات کے اپنی نامعقول ضد پر اڑے ہوئے ہیں یہ ایک انتہائی نازک لمحہ تھا۔ قائداعظم کے معتقد بھی ان کے مؤقف کی معقولیت پر شک کرنے لگے۔ مسلم لیگ کے مذکورہ بالا صبح کے اجلاس میں یہ موقعہ بھی آیا کہ یقین ہونے لگا کہ قائداعظم کو زندگی میں پہلی بار اپنے مؤقف کو منوانے میں ناکامی ہوگی۔ قائداعظم جلسہ کے تمام عرصہ کے دوران مسلسل خاموش رہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ قائداعظم کے دماغ میں کیا خیالات گونج رہے ہیں اور وہ اپنے اس کمزور مؤقف پر کیسے جمے رہیں گے۔ دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہونے سے پہلے قائداعظمؒ خاموشی سے اٹھے اور آپ نے فرمایا کہ ظہرانہ کے بعد جب اجلا س دوبارہ ہوگا تو میں اپنے مؤقف کے حق میں دلائل دوں گا لیکن اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ دونوں وزراء مسلم لیگ کے نمائندہ کی حیثیت سے جنگی کونسل کے ممبر بنے اور وزرائے اعلیٰ کی حیثیت سے نہیں تو کیا یہ دونوں حضرات استعفیٰ دے دیں گے؟ اس بات پر دونوں حضرات راضی ہوگئے اور لنچ کے لیے اجلاس ملتوی ہوگیا۔ ہر شخص حیران تھا کہ قائداعظم کیا دلائل پیش کریں گے۔
جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو قائداعظم خطاب کے لیے اٹھے۔ آپ نے آہستہ سے اپنا بٹوہ نکالا اور اس میں سے ایک تہہ شدہ کا غذ نکال کر سیکریٹری کو دیا کہ وہ اونچی آواز سے پڑھ کر حاضرین کو سنائے۔ یہ مختصر کاغذ ایک بم کی طرح ثابت ہوا۔ اس سے دونوں وزرائے اعلیٰ ششدر رہ گئے سیکریٹری آف اسٹیٹ فار انڈیا اور گورنر جنرل کا وقار خاک میں مل گیا۔ یہ کاغذ بمبئی کے گورنر کی طرف سے قائداعظم کے نام ایک خط تھا جس میں قائداعظم کی خیریت دریافت کرنے کے بعد گورنر جنرل کی طرف سے صاف طور پر تسلیم کیا گیا تھا کہ گورنر جنرل نے قائداعظم کا یہ مطالبہ منظور کر لیا ہے کہ سکندر حیات اور فضل الحق کو مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے جنگی کونسل میں شامل کیا جائے گا۔ یہ دستاویز سرکاری کاغذ پر لکھی ہوئی تھی جس کے نیچے بمبئی کے گورنر کے دستخط ثبت تھے۔ اصل واقعات یہ ہیں۔
وائسرائے ہند نے اپنے بمبئی کے دورے کے دوران قائداعظم سے اصرار کیا تھا کہ مسلم لیگ جنگ کے سلسلہ میں حکومت کے ساتھ تعاون کرے ہم جانتے ہیں کہ قائداعظم ایک صاف گو انسان تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی پوزیشن مستحکم کریں اور یہ منوائیں کہ ہندوستان میں صرف مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے جس کی مخالفت میں انڈین کانگریس ایڑی چوٹی کا زور لگارہی تھی کیونکہ اس مطالبے سے کانگریس کا یہ دعویٰ باطل ہوجاتا تھا کہ صرف کانگریس ہی ہندوستانیوں کی نمائندہ جماعت ہے جنگ کے سلسلہ میں کانگریس کے معاندانہ رویے کے پیش نظر حکومت ہند مسلم لیگ اور قائداعظم کی حمایت حاصل کرنے پر مجبور تھی۔ قائداعظم ایک بیدار مغز سیاستدان تھے۔ انھوں نے بھانپ لیا تھاکہ ہندوستان میں مسلم لیگ کی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس موقعے سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ وائسرائے ہند کے ساتھ قائداعظم کی ابتدائی میٹنگ اسی فیصلے پر ختم ہوگئی کہ آخری فیصلہ بعد کی میٹنگ میں کیا جانا تھا جو شملہ میں ہوئی تھی۔ جب اس میٹنگ کا وقت آیا تو قائداعظم نے بمبئی کے گورنر کے ذریعے گورنر جنرل کو شملہ آنے سے اپنی علالت کی وجہ سے معذرت کا اظہار کردیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ وہ جنگ میں اپنی پیش کردہ شرائط کے ساتھ تعاون کرنے کی پیش کش پر قائم ہیں اور حکومت انہیں مطلع کرے کہ آیا وہ شرائط حکومت کو منظور ہیں یا نہیں’’ قائداعظمؒ ایک تو ویسے ہی کچھ علیل تھے۔ دوسری وجہ شملہ نہ جانے کی اصل میں قائداعظم کی سیاسی بصیرت تھی۔ وہ ایک تجربہ کار سیاستدان تھے اور سیاست کے نشیب و فراز سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اگر قائداعظم شملہ چلے جاتے تو وائسرائے سے تمام گفتگو زبانی ہوتی۔ اس کا کوئی ایسا ثبوت تحریری طور پر قائداعظم کے ہاتھ نہ آتا جو بوقت ضرورت کام آسکتا۔ بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ قائداعظم ؒ کس قدر دور اندیش اور عقلمند تھے اور انھوں نے کس ہوشیاری کے ساتھ وائسرائے سے شرائط تحریری طور پر منوالیں۔ وائسرائے اس جال میں آگیا اور بعد میں اس جال کو بھول کر اس نے اپنا اور اپنی حکومت کا ساری دنیا میںمضحکہ اڑایا۔ (ڈاکٹر انور اقبال قریشی)