ہر سال 17 اپریل کو دنیا بھر میں ہیمو فیلیا کا عالمی دن منایا جاتا ہے،اس دن کے منانے کا مقصد ہیمو فیلیا کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ہے ،امسال ورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیا کے تحت اس کی تھیمEquitable access for all: recognizing all bleeding disordersرکھی گئی ہے۔ یہ تھیم منتخب کرنے کا بنیادی مقصد مریضوں، ان کےگھر والوں، رضاکاروں اور معالجین کوآگاہی مہم میں شامل کرکے متاثرین و مشتبہ افراد کی مناسب دیکھ بھال تک رسائی یقینی بنانا ہے۔
ہیمو فیلیا کیا ہے؟:
ہیموفیلیا ایک موروثی مرض ہے، جسے عام اصطلاح میں خون بہنے کی بیماری کہاجاتا ہے۔ اس مرض میں جسم میں موجودخون جمانے والے ذرّات یعنی خاص پروٹین جو کہ جگر میں بنتے ہیں، میں اس حد تک کمی واقع ہوجاتی ہے کہ اگرکوئی چوٹ یا زخم لگ جائے ،تو خون رُکنے یا جمنے میں کافی وقت لگتا ہے اور زیادہ خون بہہ جانےکے نتیجے میں موت کے خدشات بڑھ جاتےہیں ۔ بیماری کی شدّت میں کسی حادثے کے بغیر بھی مریض کے جسم سے خون خارج ہو نے کا خدشہ ہوسکتا ہے۔اصل میں خون ، سُرخ و سفید خلیات ، پلیٹ لیٹس اور پلازمہ پر مشتمل ہوتا ہے،پلازمہ میں خون جمانے کے فیکٹر موجود ہوتے ہیں تاکہ چوٹ لگنے کی صورت میں خون جم سکے۔ جب کسی عام صحت مند فرد کو چوٹ لگتی ہے، تو قدرتی طور پرایک خاص وقت تک خون بہنے کے بعد اس پر خود بخود ایک جھلّی سی بن جاتی ہے،جس میں خون جمانے والے فیکٹر کردار ادا کرتے ہیں اوریہ خون روکنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس جھلّی کو طبّی اصطلاح میں’’کلاٹ ‘‘ کہتے ہیں،لیکن اگر جھلّی بنانے والے پروٹین (فیکٹر) کی جین متاثر ہو جائے، تو پروٹین بننے کا عمل رُک جاتا ہے اور خون جم نہیں پاتا ۔اور یہی عمل ہیموفیلیا کا سبب بن جاتاہے۔ یہ ایک موروثی مرض بھی ہے، جو والدین سے بچّوں میں منتقل ہو سکتاہے۔
پاکستان میں ہیمو فیلیا کی تعداد:
دُنیا بَھر میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی تعداد تقریباً چار لاکھ ہے ،لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ ان میں سے بڑی تعداد کی تشخیص نہیں ہوپاتی یا وہ ناکافی علاج کروا رہے ہوتے ہیں یا پھر انہیں سِرے سےعلاج کی سہولت ہی میسّر نہیں ہوتی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ پندرہ سے بیس ہزار بچّے اس مرض کا شکار ہیں۔ صرف کراچی ہی میں تین ہزار بچّے مرض سے متاثر ہیں،مگرالم ناک صُورت ِحال یہ ہے کہ مُلک بھر میں سرکاری طور پر رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سےمتاثرہ بچّوں کی درست تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔
ہیمو فیلیا کی اقسام:
ہیمو فیلیا کی تین اقسام ہیں ۔ہیموفیلیا اے، بی اور ریئرفیکٹر ڈیفیشنسیز (Rare Factor Deficiencies) ۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد ہیموفیلیا اے کی ہے،خون رُکنے یا جمنے کے عمل میں 12اجزاء حصّہ لیتے ہیں، جنہیں کلاٹنگ فیکٹرز (خون جمانے والے عناصر) کا نام دیاگیا ہے۔ اگر ان 12فیکٹرز میں سے کوئی ایک بھی کم ہوجائے، تو خون جمنے کا عمل متاثر ہو جاتا ہے۔ہیموفیلیا بی میں فیکٹر9،جب کہ ریئرفیکٹر ڈیفیشنسی میں ایک تا بارہ مختلف فیکٹرزکی کمی واقع ہوجاتی ہے۔واضح رہے کہ ایک عام صحت مند فرد میںکلاٹنگ فیکٹرز کی نارمل مقدار50تا 200انٹرنیشنل یونٹ ہوتی ہے۔ہیمو فیلیا کی شدّت کے اعتبار سے درجہ بندی کی گئی ہے، جس کے مطابق پہلا درجہ مائلڈ ہیموفیلیا (Mild Hemophillia) ہے، جس میںکلاٹنگ فیکٹرز کی تعداد5فی صد سے زائد پائی جاتی ہے۔دوسرے درجے،معتدل ہیموفیلیا (Moderate Hemophillia) میں فیکٹرز کی تعداد ایک سے 5فی صد اورشدید ہیموفیلیا (Severe Hemophillia)میں کلاٹنگ فیکٹرز کی مقدار ایک فی صد سے بھی کم پائی جاتی ہے۔عمومی طور پر مرض کی ابتدائی تشخیص اُسی وقت ہوجاتی ہے، جب پیدایش کے وقت نومولود کی ناف کاٹنے یا ختنے کے بعد خون کافی دیر تک بہتا رہتا ہے۔علاوہ ازیں بچّے کی ناک سے مسلسل خون کا بہنا،پیشاب میں خون کا اخراج،مسوڑھوں سے خون رِسنااور جوڑوں میں سوجن اس مرض کی ممکنہ علامات ہو سکتی ہیں۔ عموماً ہیموٹولوجسٹس سےشدید ہیموفیلیا سے متاثرہ مریض ہی رجوع کرتے ہیں،موڈریٹ اور مائلڈ ہیموفیلیا والوں کو علاج کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے، جب ان کی کوئی سرجری ہو،کوئی حادثہ پیش آجائے یا پھر چوٹ وغیرہ لگ جائے۔مائلڈ اور موڈریٹ ہیمو فیلیا والوں کی زندگی قدرے بہتر ہوتی ہے،لیکن اس مرض کا ایسا کوئی مستقل علاج نہیں ،جس کے نتیجے میں مکمل طور پر شفا مل سکے۔ ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ مرض میں مبتلا والدین کا علاج کر دیا جائے ،تو ان کے بچّوں میں مرض منتقل نہ ہو۔
ہیموفیلیا کی منتقلی:
ہیمو فیلیا A یعنی فیکٹر8 کی کمی اور ہیمو فیلیا Bیعنی فیکٹر9 کی کمی،ماں کے ذریعے بیٹوں میں منتقل ہوتی ہے (کیونکہ اس جینز میں xکروموسومز ہوتی ہے اور بیٹا ماں سے xکروموسومز لیتا ہے)جب کہ دیگر فیکٹرز یعنی فیکٹر 1سے 13تک اور Von WillebrandFactorsباپ اور ماں دونوں میں موجود ڈیفیکٹڈ جینز کے ذریعے بچے میں منتقل ہوتی ہے یعنی اگر باپ یا ماں سے کوئی ایک میں بھی یہ ڈیفیکٹڈ جینز موجود نہ ہوتو بچہ محفوظ رہتا ہے اور یہ بیماری ظاہرنہیں ہوتی۔
کیا ہیمو فیلیا کا علاج ممکن ہے؟:
دُنیا بھَر میں ہیمو فیلیا کے مریضوں کو اڑتالیس گھنٹے کے فرق سے تین بار فیکٹر8یا9 بذریعہ انجیکشن لگایا جاتا ہے۔یہ وہ فیکٹرز ہیں،جومریض کے خون میں قدرتی طور پر نہیں پائےجاتے۔ مگر چوں کہ یہ فیکٹر انجیکشن بہت زیادہ مہنگے ہوتےہیں اور پاکستان میںدستیاب بھی نہیں ،چناں چہ ہمارے یہاں مریضوں کوفریش فروزن پلازما (FFP: Fresh Frozen Plasma) یا منجمد پلازما دیا جاتا ہے، یعنی صاف اور صحت مند خون کا بروقت انتقال۔ صحت مند خون سے خون کے خلیے اورپلیٹ لیٹس نکالنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے، وہی فریش فروزن پلازما کہلاتاہے۔ویسے توبہترین صُورت یہی ہے کہ ہیمو فیلیا کے مریضوں کے جسم میں صرف خون جمانے والے وہی فیکٹرز داخل کیے جائیں، جن کی جسم میں کمی ہو۔بہرحال ،ایف ایف پی کا طریقۂ علاج بھی مؤثر ہے ،لیکن اس بات کا اندیشہ ہی رہتا ہےکہ خون اور پلازما محفوظ بھی ہیں یانہیں ۔ اگر محفوظ انتقالِ خون نہ ہو، تو ہیمو فیلیا کے مریض ہیپاٹائٹس بی ،سی اور ایچ آئی وی سے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔پاکستان میں ہیمو فیلیا ہی کی طرح کی ایک اور بیماریVon Willebrand Disease بھی عام ہے ۔ اس مرض میں بھی خون جمنے کا عمل متاثر ہوجاتا ہے اوریہ بھی موروثی طور پر منتقل ہو تی ہے ،مگر چوں کہ پاکستان میںاس کے ٹیسٹ کی سہولت میسر نہیں ،لہٰذا اس کا بھی ہیموفیلیا کہہ کرعلاج کر دیا جاتا ہے،حالاں کہ اس بیماری کے اپنے فیکٹرز ہیں ،جو اس بیماری میں لگائے جاتے ہیں۔
ہیمو فیلیا کے اثرات:
دیگر بیماریوں کی طرح ہیمو فیلیا کا مرض بھی مریض کے اندرنفسیاتی اثرات مرتب کرتا ہے، اس کے نتیجے میں بچّہ بے چینی، پژمردگی (ڈیپریشن)، کسی کام کو بار بار دہرانے کی نفسیاتی بیماری (Obsessive-Compulsive Disorder)، احساس کم تری کا شکار ہوسکتا ہے۔یوں ہیموفیلیا کے علاج کے ساتھ ادویہ پر بھی انحصار بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں دیگر مُمالک کے برعکس ہیموفیلیا کے مریضوں کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہےکہ قومی سطح پر اس مرض سے متاثرہ مریضوں کے لیے کسی قسم کی سہولت فراہم نہیں کی گئی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہیموفیلیا کی روک تھام کے لیے حکومت ترجیحی بنیادوں پر مریضوں کو مطلوبہ فیکٹر زمہیا کرنے کے ٹھوس قدامات کرے۔نیز، مرض کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی فراہم کی جائے، تاکہ والدین اپنے بچّوں کا بہترسے بہتر علاج کروا سکیں۔نیز پورے ملک میں یکساں محفوظ خون جوکہ ہیپاٹائٹس بی،سیHivایڈزSyphilis اور ملیریا جیسی مہلک بیماریوں سے پاک ہو کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
(ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری ملک کے معروف ماہرِ امراضِ خون ہیں اور چلڈرن اسپتال کراچی کے چیف ایگزیکٹو کے طورپر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر بھی ہیں،وہ تھیلے سیمیا کے بچوں کے علاج معالجے کے لیے عمیر ثناء فاؤنڈیشن نامی ایک این جی او بھی چلاتے ہیں)