انسانی نسل کی بقا اور فروغ کا دار و مدار مرد و زن کے باہم رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے سے ہے۔
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
اللہ نے مرد و زن کو ایک دوسرے کے لیے باہم راحتِ جاں بنایا ہے اور انہیں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔
’’یاد کرو جب اللہ نے ملائیکہ سے فرمایا کہ میں زمین پر آدمؑ کو اپنا نائب بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے یہ کہا کہ باری تعالیٰ آپ ایک ایسی مخلوق کو پیدا کریں گے جو زمین پر فساد برپا کرے گی اور ایک دوسرے کو قتل کرے گی، ہم تو تیری حمد و ثنا اور عبادت کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا: میں جو جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔‘‘(البقرہ 30)
اس آیت میں یہ دلیل موجود ہے کہ انسان نائب اور اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود زمین پر فساد اور قتل و غارت گری کا مرتکب ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔
پہلے انسان ہابیل کا قتل اُس کے بھائی قابیل نے کیا، وہ بھی ایک عورت کی خاطر، جس کا ذکر سورۃ المائدہ آیت 27 تا 29 میں آیا۔ فی زمانہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ زمین پر فساد کی تین وجوہات ہیں: زن، زر اور زمین۔ یہ تینوں چیزیں انسان کی نفسانی خواہشات کے کمزور ترین پہلو ہیں اور شیطان آسانی سے اس کو اپنا نشانہ بنا لیتا ہے۔ موضوعِ تحریر اسلام میں کثرتِ ازواج ہے، لہٰذا اللہ نے یہ اجازت کیوں دی ہے، اس کی افادیت کیا ہے اور فی زمانہ اس کی ضرورت کیوں ہے؟ اس پر بات ہوگی۔
مرد و زن کی آبادی میں تنوع، کثرت و قلت کا ہونا لازمی ہے۔ انسان جب سے اِس دنیا میں آباد ہے جنگ و جدل اور ایک دوسرے کو قتل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ کبھی چھوٹے اور کبھی بڑے پیمانے پر یہ قتل و غارت گری جاری تھی اور اب تک جاری ہے۔ اس جنگ و جدل میں مقتولین کی زیادہ تعداد مردوں کی ہوتی ہے، لہٰذا جب کوئی خطہ شدید جنگ اور فسادات سے دوچار ہوتا ہے تو مردوں کی بڑی تعداد قتل ہوتی ہے اور عورتوں کی بڑی تعداد لاوارث اور بیوہ ہوجاتی ہے، بچے یتیم اور بے سہارا ہوجاتے ہیں۔
مرد کو اللہ نے قوام بنایا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد نہ صرف عورت کا محافظ ہے بلکہ اس کی تمام تر ضروریاتِ زندگی کو بہم پہنچانے والا، اس کی اولاد کی پرورش کرنے والا اور اس کو پُرسکون زندگی فراہم کرنے والا ہے۔
عورت صنفِ نازک ہے، لہٰذا اس کے ساتھ بہترین سلوک کرنا مرد کی ذمے داری ہے۔
دنیا جب سے منظم انداز میں انسانی سہولیات کے ساتھ چلنا شروع ہوئی ہے اُس وقت سے انسان زن، زر اور زمین کی ہوس میں مبتلا ہوکر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور دوسرے کی زمین اور وسائل کے ساتھ ساتھ اس کی عورتوں پر بھی قبضہ کرنے کے لیے جنگ مسلط کرتا رہا ہے۔ مرد قتل ہوتے ہیں اور عورتیں بیوہ اور بے سہارا ہوتی ہیں۔ قبضہ شدہ عورتیں مالِ غنیمت کے طور پر لونڈی یا باندی بنا لی جاتی تھیں یا پھر بازاروں میں فروخت کردی جاتی تھیں۔ جنگوں کا لامتناہی سلسلہ کبھی بھی نہیں رکا ہے، یہ ہمیشہ جاری رہتا ہے اور ابھی بھی جاری ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں یورپ، جاپان اور روس سب سے زیادہ متاثر ہوئے، ان جنگوں میں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، نتیجہ یہ ہوا کہ صرف جرمنی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 70 تا 80 لاکھ عورتیں اپنا اور اپنی اولاد کا پیٹ پالنے کے لیے جسم فروشی کرنے پر مجبور ہوگئیں۔
دوسری عالمی جنگ میں ایٹمی تباہی اور شکست کے بعد جاپان کی جفاکش قوم نے پھر سے انگڑائی لی اور آج دنیا بھر میں وہ ترقی میں صفِ اوّل میں ہے، خوش حالی ان کی دہلیز کی لونڈی ہے۔ لیکن تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے ماہر اور صارف ہونے کے باوجود پوری دنیا کے مقابلے میں جاپان میں جسم فروشی کا دھندا سب سے زیادہ عروج پر ہے۔ اب تو ازدواجی زندگی سے خود کو آزاد کرکے جاپانی مردوں نے امردگی کو اپنا لیا ہے۔ انہوں نے دل کی تسلی کے لیے Visual wife رکھ لی ہے۔ یورپ، امریکا اور مشرقِ بعید کے ممالک میں جنسی آزادی کا عالم یہ ہے کہ حیوان بھی شرما جائیں۔ اس قبیح بے راہ روی کا نتیجہ لاعلاج بیماریاں اور جرائم ہیں جن کی وجہ سے انسانی حقوق کے نام پر مادر پدر آزاد معاشرہ بنانے والے خود شرمندہ ہیں اور اس سے نکلنے کی راہ تلاش کررہے ہیں۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے عین فطرت کے مطابق تخلیق کیا اور اس کو متوازن رکھنے کے لیے اس کی تمام تر فطری خواہشات اور ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لیے درمیانے راستے کا تعین کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’مجھے اس نفس کی قسم جس کو میں نے پیدا کیا اور اسے ہموار کیا، اس پر نیکی اور بدی واضح کردی۔ پس جس نے تقویٰ اختیار کیا، کامیاب ہوا، اور جس نے نیکی کے جذبے کو دبا دیا، نا مراد ہوا۔‘‘ (سورۃ الشمس)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’شیطان تم کو بھوک اور موت سے ڈراتا ہے اور فحاشی اور عریانی کی ترغیب دیتا ہے۔‘‘
آج بھی مسلم ممالک کے عام مسلمانوں میں وہ جنسی بے اعتدالی پیدا نہیں ہوئی ہے، اس کی وجہ نکاح کا پاکیزہ رشتہ اور خاندانی نظام کا قائم رہنا ہے۔ دنیا کے تمام مسلم ممالک میں کثرتِ ازواج عام ہے سوائے ہندوستان اور پاکستان کے چند علاقوں کے۔ بہار، یوپی اور مشرقی پنجاب میں ایک سے زائد بیوی رکھنا مردوں کے لیے سوہانِِ روح بن جاتا ہے۔ بیوی اگر فوت ہوجائے تو نوجوان اولاد باپ کے خلاف ہوکر اس کی بقیہ زندگی اجیرن بنادیتی ہے۔ نکاح کی آسانی معاشرے کو پاکیزگی بہم پہنچاتی ہے۔
برصغیر کے ان خطوں میں ہندوانہ اثرات کی وجہ سے کثرتِ ازواج ایک مجرمانہ فعل سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ ہندو، عیسائی، سکھ اور دیگر مذاہب میں ایک سے زائد شادی ممنوع ہے مگر کھلے عام بدکاری اور لاتعداد عورتوں سے جنسی تعلق کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ اس ضمن میں جو لاعلاج جنسی بیماریاں پائی جاتی ہیں وہ مسلم دنیا میں دیگر اقوام کے مقابلے میں کم ہیں۔
یہ بات دنیا کا ہر شخص جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جغرافیائی تغیرات کے مطابق انسانی جسم کو بنایا ہے۔ پہاڑی، صحرائی، جنگلی، برفانی، ساحلی اور میدانی علاقوں کے مرد و خواتین مختلف جسمانی ساخت رکھتے ہیں اور ان کے اندر علاقائی اعتبار سے ہر طرح کی جسمانی قوت ہوتی ہے۔ لہٰذا یہاں ازدواجی تعلقات اور خواہشات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ گرم اور مرطوب علاقوں میں لڑکے لڑکیاں سنِ بلوغت کو جلد پہنچ جاتے ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس عدم توازن کو یک زوجگی کے ذریعے اعتدال پر رکھا جاسکے! صاحبِ اولاد ہونے کے بعد خواتین ایک خاص عمر یعنی چالیس، پینتالیس سال کی عمر میں ازدواجی اعتبار سے قنوطیت کا شکار ہونے لگتی ہیں، لیکن یہ کیفیت مردوں میں نہیں ہوتی۔ پہلے کے بزرگ تو ساٹھ سال میں پاٹھے ہوا کرتے تھے، اور آج بھی پورے افریقہ اور ایشیائی باشندوں کی صحت اور توانائی مثالی ہے۔ گرم اور مرطوب علاقوں میں لڑکیوں کی پیدائش کی شرح لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی امریکا کے ممالک، جنوب مشرقی ایشیا… اور اب تو وسط ایشیا میں بھی خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہوچکی ہے۔
اسلام پوری دنیا کے انسانوں کے لیے آیا ہے اور ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے رہبر و ہادی ہیں۔ لہٰذا اسلامی شریعت کوئی وقتی نظامِ زندگی نہیں بلکہ یہ فی زمانہ بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر رہنما شریعت ہے۔
ہم رسولوں، نبیوں، صحابہ اور اللہ کے ولیوں، تمام ادیان کی محترم شخصیات اور ہندو دھرم کے تمام دیوتاؤں کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سوا سب کثرتِ ازواج کے حامل تھے۔ جب ہر مذہب کے رہنما اس شریعت پر عمل پیرا تھے تو اُن کے ماننے والوں بالخصوص بہار، یوپی اور مشرقی پنجاب کے مسلمانوں نے کیوں اپنے آپ کو اس شریعت کا مخالف بنا لیا ہے؟ ہماری خواتین کیوں اسے ’’اپنے حقوق پر ڈاکہ‘‘ سمجھتی ہیں؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور تمہیں ڈر ہو کہ تم یتیم لڑکیوں سے انصاف نہ کرسکو گے تو اپنی پسند کی دو دو، تین تین یا چار چار سے شادیاں کرلو، مگر انصاف نہ کرسکو تو ایک پر اکتفا کرو یا پھر اپنے ملک کی لونڈیوں سے رجوع کرو تاکہ ایک طرف جھکنے سے بچ جاؤ۔‘‘ (سورۃ النساء، آیت3)
یہ واضح ہدایت معاشرے کو ہر حال میں متوازن، باوقار اور پاکیزہ رکھنے والی ہے۔ مگر آج ہم اس کی مخالفت کا نتیجہ یہ دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا بالخصوص امریکا، یورپ، مشرقِ بعید کے ممالک، وسط ایشیا، ہندوستان جنہوں نے اپنے یہاں ایک سے زائد شادی پر پابندی لگا دی ہے، وہاں جنس پرستی اور مرد و زن کی مادر پدر آزادی نے لوگوں کو اسفل السافلین بنا کر رکھ دیا ہے۔
ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں ہندو ایک سے زائد شادی تو نہیں کرتے مگر آدھا درجن اور کبھی حیثیت کے مطابق درجنوں باندیاں رکھ کر ان سے اپنی ہوس پوری کرتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ کمائی دینے والا کاروبار طوائفوں کا ہے جہاں راضی خوشی کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں اغوا شدہ مجبور لڑکیوں سے یہ انسانیت سوز پیشہ کروایا جاتا ہے، اور اب تو ان کا نام Sex worker رکھ دیا گیا ہے۔ غلیظ ترین بدکاری کا مظاہرہ کرنے والیوں کو Porn Star کا نام دے کر انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ وہ کام کرتی ہیں جو جانور بھی نہیں کرتے۔
ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 75 کروڑ ہے جو پوری دنیا کی مسلم آبادی کا نصف ہے۔ اس میں بنگلہ دیش کو چھوڑ کر ہندوستان، پاکستان کی مسلم آبادی کا بڑا حصہ یک زوجگی کا شکار ہے جس کی وجہ ہندو مذہب اور ثقافت کے گہرے اثرات ہیں۔ جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ ’’اسلام جہاں جہاں گیا وہاں کے مذہب، تہذیب و ثقافت کو اپنے اندر جذب کرلیا مگر بھارت میں آکر بھارتی تہذیب و ثقافت کے اندر ضم ہوگیا۔‘‘ یہ امر ہمیں مختلف رسوم و رواج میں نظر آتا ہے۔ یک زوجگی بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ ہندوستان میں جنوبی ہند کے مسلمان… بہار، یوپی، سی پی، مہاراشٹر، گجرات کی میمن برادری، راجستھان کے مسلمان یہ سب یک زوجگی کی ہندوانہ تہذیب کے زیر اثر زندگی گزار رہے ہیں۔ آریائی مذہب اور اس کی ذات برادری کی تقسیم کے مسلمانوں پر شدید اثرات مرتب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں سید، پٹھان، انصاری اور دیگر شناخت رکھنے والی برادریاں تعصبات کے زیر اثر دوسری برادریوں میں شادی بیاہ سے گریزاں ہیں۔ جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’شادی کے لیے خوب صورتی، دولت اور تقویٰ معیار ہے، مگر تم تقویٰ کو ترجیح دو۔‘‘
اس قولِ رسولِ ہاشمیؐ سے انحراف کا نتیجہ ہے کہ آج لاکھوں کنواری لڑکیاں اپنی عمر کے تیسرے حصے میں داخل ہوکر گھروں میں بیٹھی ہیں۔
جہیز کی لعنت نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور نکاح سوہانِ روح بن چکا ہے۔ پھر جدیدیت نے میاں بیوی کے رشتوں کو کچے دھاگے کی طرح بنادیا ہے، شادی کے چند مہینوں یا دو چار سال میں طلاق اور خلع کی نوبت آجاتی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں مطلقہ اور خلع یافتہ عورتیں مجرد زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ نتیجتاً بیماری، معاشرتی انتشار اور اخلاقی برائیاں عام بات ہے۔ عرب دنیا اور قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی شادی بھاری اخراجات چاہتی ہے لہٰذا ان علاقوں میں لڑکیوں کی بڑی تعداد گھروں میں بیٹھی ہوئی ہے۔ علما و فقہا نے عرب اور افرو عرب دنیا میں نکاحِ مسیار کی اجازت دی ہے۔ یہ مردوں کو عورتوں کی مالی ذمہ داریوں سے بہت حد تک آزاد کرتا ہے اور مال دار عورتیں اور کمزور معیشت کے حامل مردوں کو آسانیاں مل رہی ہیں، نکاح ِمسیار ایک معتدل اور پاکیزہ معاشرہ قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔
بہرحال یک زوجگی عورتوں کے حقوق پر عورتوں کا ہی ڈاکا کہا جا سکتا ہے جس سے معاشرے میں بے راہ روی کے ساتھ ساتھ اخلاقی برائیاں پھیل رہی ہیں۔اس سب کے سد باب کے لیے ہی اسلام میں کثرتِ ازواج کی اجازت ہے۔
تنہا پھول گلے کا ہار بن سکتا نہیں
ایک زوجہ سے گھر کا آنگن کیسے مہکے