جال

176

گھر والے ٹی وی کے آگے بت بنے، منہ اور آنکھیں کھولے، سسرال والوں کی سازشوں کو جو وہ اپنی نام نہاد بہو کے خلاف کررہے تھے، بڑے غور و توجہ سے دیکھ رہے تھے۔

عرشی نے کمرے میں داخل ہوکر ایک نظر ہونق بنے اپنے اہلِ خانہ پر ڈالی، جنہیں اُس کی کمرے میں آمد کی خبر بھی نہ ہوئی تھی۔ دادی سے لے کر چھوٹی ببلی تک سب کے سب ڈرامے میں پل پل بدلتی صورتِ حال میں گم تھے۔

’’توبہ، استغفراللہ، یہ کیا آپ سب ایک ہی طرح کے ڈرامے روز دیکھتے ہیں؟‘‘

’’ارے آپی! آج کی قسط میں تو ساس نے بہو کو گھر سے ہی نکال باہر کیا۔ گھر والوں کے سامنے ایسے ایسے الزامات لگائے کہ…‘‘

’’تو گھر والے کیا کوے کا گوشت کھاتے ہیں یا گھاس؟ کیا اتنے سارے افراد کی عقل ایک ساتھ گھاس چرنے چلی جاتی ہے؟ اور بہو صاحبہ کس زمانے کی ہیں، منہ میں زبان نہیں رکھتیں ؟‘‘ وہ طیش میں آگئی۔

’‘نہیں نہیں، اصل میں…‘‘ بہن نے ڈرامے کے حق میں وضاحت دینے کے لیے منہ کھولا، باقی گھر والے بھی ناگواری سے اس کی اس دخل درمعقولات کو دیکھ رہے تھے۔

’’ارے چھوڑو، اصل یا نقل، سوائے سازشوں کے انہیں کوئی موضوع میسر نہیں۔ ارے کچھ اچھا دکھاؤ، ایسا آخر کہاں ہوتا ہے؟‘‘ بات کاٹ کر عرشیہ نے طنزاً کہا۔

’’ہوتا کیوں نہیں، بالکل ہوتا ہے… یاد نہیں وہ آپا نغمہ کی بہن۔‘‘ امی نے کسی دور کی رشتے دار کی یاد دلائی۔

’’بس خال خال امی، ورنہ ایسے رکیک الزام کون لگاتا ہے! اور اگر ہے بھی تو ضروری نہیں کہ اسے منظرعام پر لایا جائے۔ ان سازشوں کے بجائے اگر خلوص و یک جہتی کا پیغام ذہنوں میں انڈیلیں تو برا ہے؟‘‘

’’معاشرے کے بگاڑ میں سب آگے ہیں، بھلا سدھار و سلامتی سے کس کو مطلب؟‘‘ یہ کہنے والی باجی جان تھیں جو کم بولتی تھیں لیکن سولہ آنے بولتیں۔

’’سلامتی؟‘‘ عرشی چونکی تھی۔

سلام و سلامتی، اسلام کا وہ عظیم پیغام ہے جسے ہر پیغام بر کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا، لیکن انسان نے امن کے ہر اعلیٰ حکم کو سمجھنے کی کوشش نہ کی اور اسے لپیٹ کر رکھ دیا۔

یہ سازشیں گھریلو سطح کی ہوں یا بیرونی سطح کی… دفاتر میں ہوں، اداروں یا حکومتی سطح پر، ٹانگ کھینچ کر اپنے من پسند کو آگے کرنا یا ناپسند کے خلاف جال بُننا کہ وہ منظر سے ہی غائب کردیا جائے، انتہائی پست عمل ہے جو ہر سطح پر خرابی کی بنیاد بنتا ہے۔

اللہ اپنی زمین پر امن و خوش حالی چاہتے ہیں، وہ گھروں میں بھی اور گھر سے باہر ہر نظام میں سلامتی و استحکام چاہتے ہیں۔

سلام کے رواج کو عام کرنے پر کیوں زور دیا گیا، تاکہ ہر کوئی دوسرے سے محفوظ و مامون ہوجائے۔ سلامتی دینے کے بعد، دوسرے کو یہ پیغام پہنچانے کے بعد کہ میں آپ کے لیے خیر کا باعث ہوں، مجھ سے آپ کو کسی بھی قسم کے شر کا اندیشہ نہیں، اس ذریعے سے سلامتی پہنچاکر پھر ذہنی رو کیسے بہک سکتی ہے؟

سوال غور طلب ہے، لیکن غور کیا نہیں جاتا۔ ہم نے سلام کو بالکل ایک عام جملے کی طرح لیا ہے، حالانکہ اس میں چھپا پیغام دلوں کو جوڑنے اور وسعت دینے کا ہے۔ یہ دعا جو ایک دوسرے سے ملاقات، اجنبیت میں غیر محسوس کمی کرکے دل کے دروازے وا کرنے والی ہے۔ تو ہم کیوں پھر اس دُعا کے بے شمار استعمال کے باوجود دل و دماغ میں دوریوں و غلط فہمیوں کی دیواریں کھڑی رکھتے ہیں؟ ہم بے دریغ سلامتی بھیج کر بھی سلامتی سے گریزاں رہتے ہیں!

اپنی ذہنی، جسمانی صلاحیتوں کو ہم ان منفی پروپیگنڈوں کے ذریعے کتنی مشقت میں ڈالتے ہیں۔ جو قابلیت درست سمت میں لگاکر کامیابی و اطمینان کی سیڑھی بن سکتی تھی، ہم نے گٹھ جوڑ کرکے اس سے گھروں میں تلخیاں بھی پیدا کیں اور ناحق فاصلے بھی، اور گھروں کی توڑ پھوڑ کے ساتھ دلوں کی ٹوٹ پھوٹ کا راستہ بھی کھول دیا۔ ہم اپنے گھریلو نظام کے خاتمے کے خود مجرم ہیں۔ نہ خود خوشی محسوس کی اور نہ دوسروں کے ہی خوش رہنے کا باعث بنے۔ یہ سازشوں میں ملوث خاندان، اپنی حقیقی مسرتوں سے محرومی کی بنیاد ڈالنے والے،دوسروں کی ناخوشی کے منصوبہ ساز اس پہلو سے ناآشنا ہی رہتے ہیں۔ دن رات پنپتے خیالات کا ہجوم، اپنی توانائی بگاڑ پیدا کرنے میں صرف کرتے خواتین و حضرات کاش درگزر اور افہام و تفہیم کے رستے سے بھی آشنا ہوجائیں تو مثالی گھرانوں کا قیام ممکن ہوسکتا ہے۔

لیکن اس کے لیے کوشش نہیں جدوجہد درکار ہے، کیوں کہ بھٹکانے کے لیے ہمارے ذرائع ابلاغ بڑی تندہی سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ کیا برقی آلات اور کیا ورقی ذرائع ابلاغ، دونوں ہی متحرک ہیں، دونوں ہی سوچ و فکر کے زاویے اس رُخ پر موڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں جہاں کوئی بھی گھر بچ نہ پائے۔ سازشوں اور نفرت سے بھرا سیّال سرنج میں لیے بازو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔

انہیں جال بُننے سے روکنا ہے، سلامتی کا پیغام عام کرنا ہے۔ سچی راہ بڑی سادہ، کشادہ اور آسان و سہل ہے۔ اس پر چلنا دشوار نہیں، لیکن پہلا قدم رکھنا ضرور مشکل ہے۔ بس وہ پہلا قدم ہی اٹھانا ہے۔

حصہ