’’ستائش ایک طرف آزمائش تو دوسری طرف مطلوب امر ہے۔‘‘
پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘
بولیں ’’دیکھیں دو پہلو ہیں۔ کوئی آپ کی ستائش کرے تو یہ آزمائش ہے کہ وہ کام جو آپ نے خالص رب کی رضا کے لیے کیا تھا، یہ ستائش امتحان بن کر آپ کو پرکھنے لگی۔ اگر آپ نے اس پر خوش ہوکر اسے اپنا حق سمجھا، کالر کھڑے کیے تو گویا آپ کا کام پائیدار اور آخرت کے لیے ذخیرہ نہ رہا۔ صرف اللہ کے لیے کرنے کی صورت میں آپ اللہ کے قریب ہوجاتے، مگر آپ فیل ہوگئے۔ وہ خاص کام عام سا کام ہوگیا کہ اس کا نتیجہ ستائش کی صورت آپ کو یہیں مل گیا۔ آخرت کے لیے ذخیرہ نہیں رہا۔‘‘
’’دوسری صورت‘ تعریف نے آپ کو پھلانے کے بجائے پریشان کیا، آپ اس کے شر سے اللہ کی پناہ کے طلب گار ہوئے، اسے آزمائش سمجھا، خود پر پہرے بٹھائے تو جلد اللہ نے آپ کو لوگوں کی ستائش سے بے نیاز کردیا، آپ اپنے رب سے کہنے لگے ’’یارب یہ لوگ میری حقیقت نہیں جانتے، میں تیرا عاجز اور کمزور بندہ کسی قابل نہیں ہوں، یہ تو تُو ہے جو کسی کام کی توفیق اور طاقت دیتا ہے۔ میرے رب اس ستائش پر مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کیجیے۔‘‘
ایسے وقت اسلاف کا اسلوب ہے اللہ کے قرب کے مقصد کو دہرا لیا کرتے، نیت کا قبلہ درست کرنے کا بندوبست کرتے، ستائش سے بچنے کو نیک اعمال چھپ کر کیا کرتے۔
ہماری ایک رشتے دار خاتون نے اس کام کے لیے ایک منفرد انداز اپنایا۔ وہ کسی کی خدمت، معاونت کرتے، خیال رکھتے واضح کردیا کرتیں کہ دیکھیں آپ بوجھل نہ ہوں، میں نے یہ کام صرف اپنے رب کے قریب ہونے کے لیے کیا ہے۔ مجھے آپ سے ستائش یا کسی بھی بدلے کی چاہت نہیں ہے۔ میں نے اپنا کھاتا اپنے رب کے پاس کھول رکھا ہے۔
دوسرا پہلو دوسروں کی ستائش یعنی قدردانی کرنا ہے کہ آپ کا رب قدردان ہے، وہ چاہتا ہے کہ اُس کے بندے آپس میں قدردانی کا معاملہ کریں۔ کسی کی معمولی سی معاونت پر احسان مند ہونا، شکر گزار ہونا، حوصلہ افزائی کرنا، خوبی کو پروموٹ کرنا سب بڑے کام ہیں۔ یہ کہنے کو معمولی الفاظ ہیں مگر وزن میں بہت بھاری ہیں، کسی کا بوجھ کم کرکے اسے ہلکا پھلکا کردیتے ہیں۔
اللہ پسند فرماتا ہے کہ آپ اس کے بندوں کے لیے ویسا ہی چاہیں، رویہ رکھیں، سوچیں جو رویہ اور سلوک آپ اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔
مثلاً مجھے اچھا لگتا ہے کہ دوسرے میری عزت کریں، قدر کریں، بوجھ ہلکا کریں، مجھ سے منہ نہ موڑیں، مسکراتے ہوئے ملیں، اپنائیت دیں، خیر خواہی کریں، معاونت کریں، مشکل میں سہارا بنیں، غیبت نہ کریں، شفقت، محبت کا معاملہ کریں۔
میرا رب مجھ سے یہ نہیں چاہتا کہ میں یہ چیزیں اپنے لیے حاصل کرنے کی تگ و دو شروع کردوں۔ وہ چاہتا ہے کہ میں یہ سب جو اپنے لیے چاہتا ہوں‘ اُس کے بندوں کے ساتھ کرنا شروع کروں۔ عزت، قدردانی، حوصلہ افزائی، معاونت، ستائش سے اس کے بندوں کا دل جیتوں۔
رب قدردان ہے، ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اُس کے بندوں میں یہ سب بانٹ رہے ہوں اور وہ ہمیں محروم کردے! حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب قدردانوں سے بڑھ کر قدردان ہے۔