آسمانوں پہ لکھا

316

دسمبر کے اوائل سے ہی سرد ہواؤں نے ٹورنٹو میں ڈیرے ڈال لیے تھے۔ سورج کی کمزور زرد کرنیں بجھتے دیے کی نحیف لو کی طرح سہمی ہوئی ہر سمت بکھر رہی تھیں… خوب صورت درختوں کے ہرے بھرے پتوں نے برف کی دبیز چادر اُوڑھ لی تھی۔ آج صبح سے گھر کا ماحول سخت کشیدہ تھا۔ شام کی چائے پر سب خاموش بیٹھے تھے۔ مما کے ماتھے پر لکیریں کسی طوفان کا پیش خیمہ تھیں۔ پاپا ہمیشہ کی طرح اردگرد سے قدرے لاپروا اور لاتعلق تھے۔ وہ اپنے پسندیدہ مفنز کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کانٹے کی مدد سے کھانے میں مگن تھے۔

مما کی لاڈلی مناہل بھی آج کچھ نروس تھی… اس کی نظریں تو بس اپنی پلیٹ میں رکھی پینٹ بٹر کوکی پر مرکوز تھیں۔ اس وقت اُسے مما کی جانب نظر اُٹھا کر دیکھنے کی تاب نہ تھی۔ رضا‘ جو کہ اس پریشان کن صورتِ حال کا تمام تر ذمے دار تھا‘ وہ دَم سادھے مما کے جواب کا منتظر تھا۔

غضنفر یزدانی عرصہ پندرہ سال سے کینیڈا میں سکونت پذیر تھے۔ اُس زمانے میں کراچی کے کاروباری حضرات آئے دن کی ہڑتالوں اور بھتہ خوری سے پریشان تھے۔ غضنفر صاحب نے اپنا چلتا ہوا کپڑے کا کاروبار سمیٹا اور بیگم اور دو بچوں کے ساتھ کینیڈا شفٹ ہوگئے۔

شروع کے چند سال تو خاصی مالی مشکلات کا سامنا کیا۔ اسی دوران فرح نے گھر کے پکے کھانوں کا کاروبار شروع کرلیا اور حالات سنبھلنے لگے۔ ’’فرح کوکس‘‘ کے نام سے قائم یہ چھوٹا سا کاروبار شہرکے مشہور برینڈز میں نمایاں جگہ بنا چکا تھا۔ رضا گریجویشن مکمل کرکے اب ماسٹرز کے آخری سمسٹر میں تھا اور مناہل ابھی ہائر اسٹینڈرڈ میں زیر تعلیم تھی۔

غضنفر صاحب ایک باوقار انسان تھے۔ فرح اور بچوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے۔ اتنے سال بیرونِ ملک رہنے کے باوجود گھر کا ماحول خالص دیسی اور اسلامی کلچر کے مطابق تھا۔ یوں تو بچوں کو مناسب حدود میں رہتے ہوئے ہر طرح کی سوشل سرگرمیوں میں شرکت کی اجازت تھی لیکن بچوں کی شادی کے معاملے میں فرح کا ایک ہی فیصلہ تھا کہ پاکستان میں ہی بچوں کے رشتے طے کیے جائیں… وہ اس فیصلے کے خلاف کچھ سننے کو تیار نہ تھی۔

دراصل کینیڈا میں مقیم ان کی ایک بے حد عزیز سہیلی کے بیٹے بالاج کی شادی کے بعد پیش آنے والے حالات و واقعات نے انہیں خوف زدہ کردیا تھا۔ بالاج نے ایک کینیڈین مسلم گھرانے کی لڑکی سے پسند کی شادی کی اور شادی کے بعد اس کی بیوی کسی کے ساتھ گھلی ملی نہیں، اور وہ فیملی سے بالکل کٹ کر رہ گیا۔ بس اسی وجہ سے جب رضا نے اپنی کلاس فیلو کینیڈین لڑکی کا تذکرہ کیا تو فرح نے کچھ کہے سنے بغیر صاف انکار کردیا… اور سب جانتے ہیں کہ مما کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ ہوتا ہے۔ گھر کی فضا بہت دن تک کشیدہ رہی۔ ماں کی ناراضی کی فکر سے رضا نے خاموشی اختیار کرلی۔

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی سب اپنی عبادات میں مصروف ہوگئے۔ ایریا کے اسلامک سینٹر میں باقاعدہ نماز و تراویح کے ساتھ ساتھ افطار کا بھی انتظام کیا جاتا تھا۔ ان کے علاقے میں پاکستانی کمیونٹی خاصی بڑی تعداد میں موجود تھی۔

فرح بہت خوش تھی۔ اس سال 200 افراد کے لیے افطارکا آرڈر ’’فرح کوکس‘‘ کو دیا گیا تھا۔ یہ بہت بڑا آرڈر تھا۔

پہلے دن آرڈر ڈیلیوری کے لیے فرح اور مناہل اسلامک سینٹر پہنچیں تو ان کی ہیلپر کا پاؤں سلپ ہوگیا جس کی وجہ سے پیر میں موچ آگئی۔ اُسے فرسٹ ایڈ کے لیے سینٹر کے ڈسپنسری یونٹ بھجوا دیا گیا۔

فرح بہت پریشان تھی، پَر سینٹر میں موجود ایک خوب صورت ہیزل آنکھوں والی لڑکی نے آگے بڑھ کر سامان کی تقسیم میں اُس کی مدد کردی۔ افطار کا سامان بہت منظم طریقے سے تقسیم ہوا۔

وہ روشانے تھی… سامان سمیٹنا اور نماز کے لیے ہال کی صفائی بھی مناہل اور روشانے نے نفاست سے کردی۔ روشانے اپنی مما، دادی جان اور پھوپھو کے ساتھ اسلامک سینٹر آئی تھی۔

روشانے کی والدہ اسلامک سینٹر میں درس و تدریس سے بھی وابستہ تھیں۔ کچھ ہی دیر میں فرح کی روشانے کی والدہ رابعہ سے بہت اچھی دوستی ہوگئی۔ وہ ایک کنورٹی کینیڈین مسلم تھیں۔ ان کی شادی ایک پاکستانی مسلم گھرانے میں ہوئی تھی اور جوائنٹ فیملی میں سب کے ساتھ رہتی تھیں۔

فرح کی ان دونوں سے اسلامک سینٹر میں روزانہ ہی ملاقات ہونے لگی۔ فرح کو رابعہ سے علمی گفتگو میں بہت لطف آتا۔ وہ ان دونوں ماں بیٹی سے بے حد متاثر تھی۔

رمضان کے اختتام تک وہ فیصلہ کرچکی تھی کہ روشانے جیسی ملنسار لڑکی کو اپنی بہو بنائے گی۔ غضنفر صاحب تو فرح سے روشانے کی اتنی تعریفیں سن چکے تھے کہ وہ بھی اس فیصلے پر مطمئن نظر آرہے تھے، جب کہ رضا نے بھی ماں کی خواہش پر روشانے کے گھر جانے کی ہامی بھر لی۔

عید کے روز حسبِ وعدہ تحائف اور کیک کے ساتھ فرح پوری فیملی کو لے کر روشانے کے گھر پہنچی تاکہ معاملات آگے بڑھیں۔

روشانے کے والدین نے گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا۔ روشانے کے دادا، دادی اور چچا کی فیملی بھی موجود تھی۔ وطن کی پیاری ثقافت اور روایات کے مطابق سب نے مل کر شیر خورمہ اور مزیدار حلوہ پوری کا ناشتا کیا۔ سب بچوں کو عیدی دی گئی۔

فرح نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ رضا کو اس رشتے پر ضرور راضی کرے گی۔ اس کے دل کے سارے وہم دور ہوچکے تھے۔

رضا اور روشانے بے حد مسرور تھے۔ ان کی سچی محبت رنگ لانے والی تھی۔ یہ سب غضنفر صاحب کی پلاننگ تھی۔ اسلامک سینٹر میں روشانے سے بیگم کی ملاقات کروائی۔ باقی سب تو خود بہ خود ہوتا چلا گیا، کیوں کہ کہتے ہیں نا کہ جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں، زمین والے تو بس اس فیصلے کی تکمیل کرتے ہیں۔

حصہ