کامیابی کا آفاقی آئین:واضح مقصد کا تعین و تیقن

388

(تیسرا باب)

پوری دیانت اور غیر جانب داری سے جائزہ لیا جائے تو بھری دنیا میں کوئی ایک عمل بھی بے مقصد نہیں۔ اگر کسی نے طے کرلیا ہے کہ اُسے کوئی بھی کام کسی مقصد کے تحت نہیں کرنا تو جان لیجیے کہ یہ بھی ایک مقصد ہی ہے! کسی میں کمال کا نہ پایا جانا بھی کمال ہی کی بات ہے۔ بالکل اِسی طور اگر کوئی کسی واضح مقصد کے بغیر جینے کی ٹھان چکا ہے تو یقین کیجیے کہ یہی اُس کی زندگی کا مقصد ہے۔ قصہ مختصر، مقصد کے بغیر کچھ ہے نہ کوئی ہے۔

ہم زندگی بھر جو کچھ کرتے ہیں وہ کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہوتا ہے اور ہونا ہی چاہیے۔ روز مرہ کے معمولات بھی کسی واضح مقصد کے بغیر نہیں ہوا کرتے۔ انسان جو کچھ روزانہ کرتا ہے اُس کی بھی کوئی نہ کوئی غایت ضرور ہوتی ہے۔ یہ غایت کس حد تک درست ہوتی ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لیے مقصد کے بغیر جینا تقریباً ناممکن ہے۔ ہم کہنے کو الل ٹپ زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں، کوئی نہ ازمقصد ہمارے اعمال کی بنیاد میں ضرور ہوتا ہے۔

شخصی ارتقاء اور بھرپور کامیابی کے حوالے سے لکھنے والوں نے ہمیشہ اس نکتے پر زور دیا ہے کہ انسان کو اپنے لیے چند واضح مقاصد متعین کرنے چاہئیں اور ایک بڑا مقصد تو خیر ناگزیر ہے۔ کسی بہت بڑے مقصد کا تعین کرکے جب ہم آگے بڑھتے ہیں تو بہت سے چھوٹے مقاصد کا تعین خود بخود ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ تمام مقصد اگر حاصل ہو جائیں تو ایک بڑے مقصد کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

عمومی سطح پر رونما ہونے والے واقعات پر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ کوئی بھی شخص کسی واضح مقصد کے بغیر جی سکتا ہے نہ چل سکتا ہے۔ یہ بھلا کس طور ممکن ہے کہ کوئی گاڑی میں بیٹھ کر سڑک پر آئے تو اُس کے ذہن میں کوئی واضح منزل ہی نہ ہو۔ اِس طور تو وہ بس یونہی گھومتا رہے گا اور اس کے نتیجے میں وقت، ایندھن اور محنت تینوں کا ضیاع ہوتا رہے گا۔ اگر کسی کو اپنا وقت، محنت، ایندھن اور گاڑی کی افادیت کو ضائع ہونے سے بچانا ہے تو منزل کا تعین کرنے کے بعد ہی سڑک پر آنا پڑے گا۔

ہم خواہ کسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں، کیسی ہی صلاحیتوں اور سکت کے حامل ہوں … یہ بات تو طے ہے کہ ہماری زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہونا ہی چاہیے۔ ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ کسی نہ کسی سطح پر ہر شخص کوئی نہ کوئی مقصد ضرور رکھتا ہے۔ مقصد کے حصول کے لیے کی جانے والی محنت کون کتنی کر رہا ہے یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے۔ کچھ لوگ اپنے مقصد کے حصول کے حوالے سے غیر معمولی شدت کے ساتھ محنت کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مطلوب صلاحیت بھی اپنے اندر پیدا کرتے جاتے ہیں۔ جو لوگ اپنے لیے کسی مقصد کا تعین نہیں کرتے وہ بھٹکتے ہی رہتے ہیں، گم کردۂ راہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔

مقصد کا تعین کیے بغیر آگے بڑھنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں کامیابی سے ہم کنار ہونے والوں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ہر وہ انسان بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہوتا رہا ہے جس نے کوئی بڑا مقصد متعین کیا اور پھر اُس کے حصول کے لیے بھرپور محنت کو شعار بنالیا۔

ہم میں سے کون ہے جو اپنے لیے بہتر یا اعلٰی مقام نہیں چاہتا؟ ہم سبھی یہ چاہتے ہیں کہ زندگی ڈھنگ سے گزرے، جو کچھ بہتر زندگی کے لیے درکار ہے وہ ہمیں حاصل ہو اور زندگی کا رنگ ڈھنگ کچھ ایسا ہو کہ آگے بڑھتے رہنا ممکن ہو۔ مگر یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ کچھ کرنے کی تحریک ہمیں کہیں سے بھی مل سکتی ہے۔ کوئی بھی کتاب ہمیں بیدار کرسکتی ہے۔ کوئی فلم ہمیں کچھ کرنے کی تحریک دینے کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ کوئی تقریر ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ سکتی ہے۔ کوئی ایک واقعہ ہمارے دل و دماغ میں ہلچل مچاسکتا ہے۔ کسی ایک شخصیت کی داستانِ حیات ہمیں بہت کچھ کرنے کا راستہ دکھاسکتی ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم کام کرنے، آگے بڑھنے کی تحریک پانے کی منزل ہی میں رک کر رہ جاتے ہیں۔ کام کرنے کی لگن پیدا تو ہوتی ہے مگر ہم اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی تیاری نہیں کرتے۔ انگریزی میں کہیے تو یوں ہے کہ ہم اپنے اندر پیدا ہونے والی کام کی لگن اور توانائی کو channelize کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ ناکامی دوسری بہت سی ناکامیوں کا بھی سبب بنتی ہے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اپنے اہداف کے حصول کے حوالے سے بھرپور کامیابی اور پیش رفت اُسی وقت ممکن ہے جب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کہاں جارہے ہیں اور کب کیا کرنا ہے۔ جس کی نظر منزل پر رہتی ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ راستہ کس طور بنانا ہے، راستے کی رکاوٹوں کو کس طرح دور کرنا ہے اور کس سے کب اور کتنی مدد لینی ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ کامیابی اُنہی کو ملتی ہے جو کسی خواہش کو اپنی زندگی کا اصل اور بنیادی مقصد بناکر جیتے ہیں۔ جب انسان کسی خواہش کو عملی روپ دینے کے لیے دن رات سوچتا ہے اور سوچے ہوئے پر عمل کرتا ہے تب بھرپور محنت کرنے کی لگن پیدا ہوتی ہے۔ کام کرنے کی بھرپور لگن ہی محنت کے لیے مطلوب توانائی بھی پیدا کرتی ہے۔ بھرپور لگن کے ساتھ کی جانے والی محنت انسان کی ہر معقول خواہش کو عملی شکل دیتی ہے۔ کامیابی کے حصول کے حوالے سے چاہے جتنا بھی مواد پڑھ جائیے، یہ نکتہ مشترکہ ورثے کے روپ میں ملے گا کہ محنت کرنے والوں ہی کو بھرپور کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ بھرپور محنت کے بغیر کچھ پانے کا سوچنے والوں کی سادہ لوحی پر ہنسنے کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

ہم زندگی بھر بہت کچھ دیکھتے، پڑھتے اور سنتے ہیں۔ بہت سی چیزوں سے ہم کام کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔ بہت سی شخصیات کی کامیابی کے بارے میں پڑھ کر ہمارے دل میں اُن جیسا بننے کی خواہش جاگتی ہے۔ کبھی ہم کسی گلوکار کو سن کر گانے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ کبھی کسی بڑے اداکار کی بھرپور زندگی سے متاثر ہوکر اداکاری کو زندگی کا مقصد و محور بنانے کی ٹھانتے ہیں۔ کبھی کسی بیٹسمین کا شاندار کیریئر دیکھ کر ہم بھی بیٹ تھام کر میدان میں اترنے کا ذہن بنانے لگتے ہیں۔ کوئی لکھاری بھی اپنی شاندار کارکردگی سے ہمیں لکھنے کی تحریک دینے لگتا ہے۔

ہم سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ ہمیں کیا بننا ہے اور ہم کیا بن سکتے ہیں؟ ہم میں سے ہر ایک میں بہت سے صلاحیتیں پائی جاتی ہیں مگر ہر صلاحیت کو پروان چڑھاکر کیریئر کی شکل نہیں دی جاسکتی۔ آوازیں بدلنے اور کسی کی نقل اتارنے کا ہنر بہت سوں میں فطری طور ہوتا ہے مگر اِس بنیاد پر وہ مِمکری آرٹسٹ نہیں بن جاتے۔ بذلہ سنجی بہت سوں میں ہوتی ہے مگر بذلہ سنجی سے متّصف ہر شخص کامیڈین نہیں بن جاتا۔ ہم میں سے بہت سوں نے بچپن میں ہاکی، فٹبال یا کرکٹ کھیلی ہے۔ مگر کیا ہم تھوڑا سا کھیل کر اُس کھیل کو زندگی بھر کے لیے اپنالیتے ہیں؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ ہم بہت سے معاملات میں باصلاحیت ہوتے ہیں مگر ہمارا شعبہ کوئی ایک ہی ہوتا ہے۔ اور اس شعبے میں ہماری صلاحیت پوری طرح کِھل کر، اُجاگر ہوکر سامنے آتی ہے۔

ہمیں بہت چھوٹی عمر میں طے کرنا ہوتا ہے کہ ہمیں کس طرف جانا ہے، کیا کرنا ہے۔ مثلاً ایس ایس سی یعنی میٹرک کی سطح پر ہمیں یہ طے کرلینا ہوتا ہے کہ آگے چل کر علم کے حوالے سے ہمارا شعبہ کون سا ہوگا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم چاہیں کچھ اور پڑھیں کچھ۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو مطلوبہ نتائج کبھی حاصل نہ ہوسکیں گے۔ اگر کسی میں بہت سی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں تو اُسے متعلقہ شعبوں کی کامیاب اور نمایاں شخصیات سے مل کر اپنے لیے کسی ایک یا دو تین نمایاں شعبوںکا تعین کرنے کے حوالے سے مشاورت کرنی چاہیے۔ مثلاً اگر کوئی شعر بھی کہہ سکتا ہے، نثر بھی لکھ سکتا ہے تو اُسے طے کرنا ہوگا کہ وہ کس شعبے میں اپنے آپ کو بہتر انداز سے منوانے میں کامیاب ہوسکے گا۔ اگر وہ شاعر کی حیثیت سے زیادہ نام کما سکتا ہے تو شعر گوئی پر متوجہ ہونا پڑے گا۔ مگر شعر گوئی کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی مختصر کہانیاں بھی لکھے اور ضخیم ناول بھی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ تراجم بھی کرسکتا ہے مگر اُسے بہرحال یہ تو طے کرنا ہی پڑے گا کہ اُس کے لیے کون سا شعبہ زیادہ سودمند ہے۔ یہ طے کیے بغیر وہ زیادہ توجہ سے کام نہ کرسکے گا۔

جب ہم یہ طے کرلیتے ہیں کہ ہمیں کس شعبے میں آگے بڑھنا ہے تب ہماری پوری توجہ کسی ایک نکتے پر مرکوز ہونے لگتی ہے۔ جب ہم طے کرلیں کہ کیا بننا ہے اور کیا کرنا ہے تب زندگی کا رخ متعین ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں ہم اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بجائے ایک خاص مقصد کو ذہن نشین رکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ صلاحیت اور سکت جب ایک پلیٹ فارم پر آجائے تب کام کرنے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ آسان نہیں۔ اِس کے لیے ذہن سازی کرنا پڑتی ہے۔ ذہن بنائے بغیر ہم ایسا کچھ بھی نہیں کرسکتے جسے سراہا جائے۔

کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنا اور دوسروں سے بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ یقینی بنانا اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب انسان کسی خیال کو منصوبے میں تبدیل کرے اور اُس منصوبے کو زندگی کا بنیادی ہدف بناکر کام کرے۔ جب ہم کسی مقصد کا تعین کرکے دن رات اُس کے بارے میں سوچتے ہیں تب ہماری مسلسل مساعی سے اُس مقصد کا حصول یقینی ہوتا چلا جاتا ہے۔ کسی بھی حوالے سے ہماری شدید خواہش جب لاشعور کا حصہ بنتی ہے تب دن رات اپنے کام پر غیر معمولی توجہ دینا ہمارے لیے انتہائی ممکن ہو جاتا ہے۔ جب ہم کسی نکتے پر پوری توجہ مرکوز کرتے ہیں تب ساری صلاحیت اور سکت ایک پلیٹ فارم پر لانا ممکن ہوتا ہے اور ہم پوری دل جمعی کے ساتھ کام کرتے چلے جاتے ہیں۔

کسی بھی مقصد یا ہدف کا تعین کافی نہیں۔ جب ہم طے کرلیتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے تب یہ طے کرنے کا مرحلہ آتا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے وہ کس طور کرنا ہے۔ کسی بھی مقصد یا ہدف کا حصول یقینی بنانے کے لیے ہمیں اپنی صلاحیت اور سکت کو بھرپور طور پر استعمال کرنا ہوتا ہے مگر اس حوالے سے انتہائی لازم ہے ہمارا رویہ۔ ہم زندگی بھر کیا کرتے ہیں، کیسے کرتے ہیں اس کا مدار بہت حد تک ہمارے رویے پر ہوتا ہے۔ اگر رویہ مثبت ہو تو ہم ہر کام پوری دل جمعی اور خوش دلی سے کرتے ہیں۔ رویہ منفی ہو تو کوئی بھی کام پورے من سے نہیں ہو پاتا۔ ایسے میں ہم اپنی بھرپور صلاحیتوں سے کماحقہ استفادہ نہیں کر پاتے۔ ہم کسی بھی معاملے کو کس طور لیتے ہیں یہی اس بات کا تعین بھی کرتا ہے کہ ہم کہاں تک جاسکیں گے، کیا کرسکیں گے۔ بہت سے لوگ غیر معمولی صلاحیت اور سکت کے حامل ہونے کے باوجود محض اپنے رویے کی بنیاد پر مات کھا جاتے ہیں۔ جب وہ طے کرلیتے ہیں کہ دل لگاکر کام نہیں کرنا، بھرپور محنت اور لگن سے کوئی بھی کام نہیں کرنا تب یہ بھی طے ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب نہ ہوسکیں گے۔

مثبت رویہ وہ ہے جس میں انسان ہر معاملے کو منطقی انداز سے دیکھے، اپنی صلاحیتوں اور سکت کا جائزہ لے اور پھر طے کرے کہ اُسے اپنے تمام مسائل کے حل کے لیے بھرپور محنت کرنی ہے۔ اگر وہ مثبت رویہ نہ رکھے تو کام کرنے کی بھرپور لگن بروئے کار نہیں لائی جاسکتی۔ مثبت رویہ ہی ہمیں کام کرنے کی تحریک دیتا ہے اور ہم اپنے مقصد کے حصول کی سمت تیزی سے بڑھتے ہیں۔ ماحول میں منفی جذبات اور رجحانات کو تقویت بہم پہنچانے والے بہت سے عوامل ہوتے ہیں۔ اگر انسان منفی رجحانات کو گلے لگانا شروع کردے تو اُس کے لیے کام کرنے کی گنجائش برائے نام رہ جاتی ہے۔ منفی سوچ اور منفی رجحانات سے انسان قدم قدم پر مایوس ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔ منفی سوچ رکھنے والوں کی صحبت انسان کو بھرپور لگن کے ساتھ کام کرنے کی راہ سے ہٹاکر پژمردگی اور اضمحلال کی قبر میں لِٹادیتی ہے۔ مثبت رویہ انسان کو ہر معاملے کا روشن پہلو دیکھنے پر مائل کرتا ہے۔ ایسے میں انسان زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی تحریک پاتا ہے اور کام کرتا بھی ہے۔ اس حوالے سے مثبت رویہ رکھنے والوں کی صحبت غیر معمولی کردار ادا کرتی ہے۔ جن کی سوچ مثبت ہو وہ آپ میں بھی مثبت سوچ کا بیج بوئی گے۔ اور اگر آپ پہلے ہی مثبت ہوں تو مزید تقویت پاکر زیادہ لگن کے ساتھ کام کرنے کی طرف جائیں گے۔

جب ہم منفی رویے کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں تب ہر معاملے کا تاریک پہلو دیکھتے ہیں۔ جو تھوڑے بہت امکانات ہمیں میسر ہوں وہ بھی اس رویے سے داؤ پر لگ جاتے ہیں۔ منفی رجحان اور رویہ رکھنے والوں کو کام کرنے کی تحریک نہیں ملتی اور وہ قدم قدم پر الجھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی صلاحیت اور سکت پر بھی شک کرتے ہیں۔ کسی کام کو عمدگی سے کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھنے پر بھی وہ متحرک نہیں ہوتے اور یوں اُن کی زندگی میں الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں۔ کسی بھی مقصد یا ہدف کے حصول کی خاطر ہمیں محض صلاحیت ہی کو پروان نہیں چڑھانا ہوتا اور محض سکت کا حامل ہونا بھی کافی نہیں ہوتا۔ آپ کا رویہ ہی طے کرتا ہے کہ آپ کو اپنے متعین مقصد یا ہدف کی طرف کس طور بڑھنا ہے اور بڑھنا بھی ہے یا نہیں۔ مثبت رویہ ہمیں کام کرنے پر مائل رکھتا ہے اور منفی رویہ ہماری اپنی ہی کوششوں کو بے ثمر کرنے پر تُلا رہتا ہے۔

انسان جو کچھ بھی کرنا یا حاصل کرنا چاہتا ہے اُس کا نقطۂ آغاز ہے کسی مقصد یا ہدف کا واضح تعین۔ جب تک ہم کوئی مقصد متعین نہیں کرتے تب تک اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں، ہوا میں تیر چلاتے رہتے ہیں۔ کبھی آپ نے کوئی ایسا جہاز دیکھا ہے جس کا رخ متعین کرنے والا حصہ (پتوار) نہ ہو؟ ایسے جہاز کو درست سمت میں لے جانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ یہی حال انسان کا ہے۔ اگر کوئی واضح مقصد نہ ہو تو زندگی کا بھی بے سمت جہاز کا سا حال ہو جاتا ہے۔ اگر آپ نے سوچا ہے کہ کچھ بننا ہے، کچھ کر دکھانا ہے تو لازم ہے کہ زندگی کی کوئی واضح سمت ہو۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب آپ کسی واضح مقصد اور ہدف کے حامل ہوں۔ مقصد متعین ہونے ہی پر آپ کو احساس ہوگا کہ کچھ بھی کرنا ممکن ہے اور اپنی صلاحیت و سکت کو بھرپور انداز سے بروئے کار لانا غیر معمولی حد تک سودمند ہے۔

کسی بھی واضح مقصد کے تعین کی صورت ہی میں آپ یہ بھی سمجھ پائیں گے کہ زندگی کس طور گزاری جانی ہے، کب کیا کرنا ہے اور کس طور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے۔ مقصد کے تعین سے اپنی ذات پر یقین بڑھتا ہے۔ جب انسان پورے تیقن کے ساتھ محنت کرتا ہے تب اُسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیا کیا کرسکتا ہے اور کس حد تک جاسکتا ہے۔

حصہ