فنونِ لطیفہ کی تمام شاخوں میں شاعری سب سے زیادہ فعال ہے۔ برصغیر ہند و پاک میں شاعری کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ قیام پاکستان کے لیے شعرائے کرام نے اپنے اشعار کے ذریعے مسلمانوں میں جذبۂ آزادی اجاگر کیا‘ سماج سے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمتی شاعری کی جا رہی ہے۔ رثائی ادب اور نعتیہ شاعری کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر ساجد رضوی نے بزم محبان ادب انٹرنیشنل کے مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ کشور عروج کے گھر منعقدہ اس مشاعرے میں انہوں نے مزید کہا کہ غزل اور نظم دونوں الگ الگ صنفِ سخن ہیں‘ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں نظم نگاری کو بہت عروج حاصل ہوا۔ غزل وہ صنفِ سخن ہے جو بہت سی مشکلات اور اعتراضات کے باوجود ترقی کر رہی ہے۔ دبستان کراچی میں بہت اچھی غزلیں سامنے آرہی ہیں۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی رونق حیات نے کہا کہ قلم کاروں کے مسائل بڑھ رہے ہیں‘ حکومتی ادارے خاموش ہیں۔ ہم نے نیاز مندانِ کراچی کے زیر اہتمام قلم کاروں کے لیے کانفرنس منعقد کی تھی جس میں حکومتِ پاکستان اور حکومت سندھ سے درخواست کی تھی کہ وہ قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے قابلِ ذکر اقدامات کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری کا تعلق زندگی سے مربوط ہے‘ زندگی کے مختلف عنوانات اور مسائل پر شعرائے کرام قلم اٹھاتے ہیں اور لوگوں کے علم و آگہی میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہر شاعر معاشرے کا سفیر ہے‘ اس کا کام ہے کہ اپنے اشعار کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کرے۔
بزم محبان ادب انٹرنیشنل کی چیئرپرسن کشور عروج نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت ہماری ذمہ داری ہے۔ مشاعروں سے شاعری ترقی کرتی ہے‘ مشاعروں سے ذہنی آسودگی ملتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی سطح پر قائم کردہ ادارے علاقائی ادب اور اردو ادب کے لیے ایمان داری کے ساتھ جینوئن قلم کاروں کو پروموٹ نہیں کر رہے بلکہ اپنے من پسند قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے اندر اختلاف بڑھ رہے ہیں۔مشاعرے کی نظامت عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کی انہوں نے کسی بھی موقع پر مشاعرے کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا۔ مشاعرے میں اقبال احمد اور فاروق قریشی سامعین میں شامل تھی جب کہ ساجد رضوی‘ رونق حیات‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ زاہد حسین جوہری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ حامد علی سید‘ رانا خالد محمود‘
شہناز رضوی‘ شجاع الزماں شادی اور کشور عروج نے اپنا کلام پیش کیا۔
فتح مکہ نے اسلام کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا‘ عابد شیروانی ایڈووکیٹ
فتح مکہ ایک تاریخ ساز واقعہ ہے جس نے دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکے میں اسلام کی تبلیغ شروع کی تو کفر و شرک کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا۔ آپؐ کو اور ساتھیوں کو مکے میں تیرہ برس تک مصائب و آلام برداشت کرنے پڑے جس کے سبب ہجرتِ مدینہ کا حکم ہوا تاہم کافروں نے مدینے میں بھی اسلام کے خلاف سازشیں کیں۔ آنحضرتؐ نے 10 رمضان کو مکے کے لیے رختِ سفر باندھا اور مختلف جنگی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مکہ فتح کیا۔ اس موقع پر آپؐ نے چند شرائط کے ساتھ عام معافی کا اعلان کیا۔ اس تاریخ ساز فیصلے سے اسلام کو قوت و استحکام حاصل ہوا۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز اسلامی ریسرچ اسکالر اور محقق ڈاکٹر عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے 17 رمضان کو افطار ڈنر نعتیہ مشاعرے کے موقع پر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دینِ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے‘ اسلام سے پہلے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام (کم و بیش) اس دنیا میں مبعوث ہوئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی ترویج و اشاعت کی‘ لوگوں کو نیک کام کی طرف راغب کیا‘ معاشرے میں امن و سکون کے لیے کچھ اصول و قواعد وضع کیے۔ اللہ تعالیٰ نے زبور‘ انجیل اور تورات نازل کیں۔ ہمارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل فرمایا دینِ اسلام مکمل کیا گیا۔ اب قیامت تک کسی بھی شکل میں کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ ختم نبوت پر ہمارا ایمان و عقیدہ ہے اس عقیدے کے منکرین اسلام سے خارج ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعت رسولؐ کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے جاری ہے۔ اب نعت نگاری بھی مکمل صنفِ سخن ہے۔ فی زمنہ نعتیہ ادب میں تحقیقی اور مطالعے کا کام جاری ہے۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ نعت سے ایمان تازہ ہوتا ہے‘ جو وگ نعتیہ محافل کا اہتمام کرتے ہیں وہ نیک کام کرتے ہیں جب تک ہم نعتیہ محفل میں شریک رہتے ہیں ہم پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ مبارک قیامت تک جاری رہے گا۔ ذکر رسولؐ ایمان کا حصہ ہے تاہم نعت کہتے وقت ہمیں بے حد محتاج رہنا ہوتا ہے نعت نگاری میں عبد اور معبود کے فرق کو واضح کرنا ہوگا۔ نعت میں حمدیہ مضامین کی آمیزش نہیں ہونی چاہیے‘ نعت نگاری میں تنقیدی رویوں کی گنجائش ہے۔ مشاعرے کے صدر اختر سعیدی نے کہا کہ رمضان کا مہینہ بڑی برکتوں والا ہے‘ آج کی انتہائی مختصر شعری نشست میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت شان دار نعتیہ کلام پیش کیا گیا۔
سلمان صدیقی نے کہا کہ نعت نگاری بھی ہمارے ذہنوں کو آسودگی عطا کرتی ہے۔ حب رسولؐ کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا اور نعت نگاری محبت رسولؐ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ نعت نگاری میں جھوٹ اور غلو کی گنجائش نہیں ہوتی۔ نعت میں حسبِ مراتبِ رسول کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس نعتیہ پروگرام میں اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ رانا خالد محمود‘ کشور عروج‘ سرور چوہان اور عبدالسلام عازم نے نعتیہ کلام پیش کیا۔