جان، دادا جان آپ بتائیں آپ عید پہ کون سے کلر کے کپڑے سلوائیں گے؟ میں تو اس دفعہ براؤن کلر کی شلوار قمیص بنواؤں گا اور ریڈ کلر کی شرٹ کے ساتھ بلو کلر کی پینٹ بنواؤں گا۔ آج اشر میاں بڑے جوش کے ساتھ دادا جان سے مخاطب تھے دادا جان جو کسی گہری سوچ میں گم تھے اچانک اشر میاں کی بات سن کر کسی نیند سے بیدار ہو گئے۔
اشر میاں سے بولے،’’کیوں بیٹا کیوں کپڑے بنوانا چاہ رہے ہو ؟‘‘ اشر میاں بولے ،’’ارے دادا جان عید آنے والی ہے عید پہ تو سب نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ عید تو خوشیوں کا دن ہوتا ہے نا! آپ ہی نے تو بتایا تھا مجھے، آپ بھول گئے شاید۔۔۔‘‘ دادے جان بولے، ’’نہیں اشر میاں مجھے سب کچھ اچھی طرح یاد ہے۔ اور بتائیے میں نے آپ سے کیا کیا بتایاتھا؟‘‘ اس پر اشر میاں کسی رٹو طوطے کی طرح کہنے لگے ،’’عید مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے ۔عید امت مسلمہ کی یکجہتی کو ظاہر کرتا ہے۔ عید میں سب خوش ہوتے ہیں۔ عید میں محبت خوبصورتی خوشیوں کے ساتھ رہنا چاہیے۔ غریبوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ غریبوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنا چاہیے۔ عید پر مستحق، نادار ،یتیم، مسکین اور غریبوں کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کو آپنے ساتھ خوشیوں میں کھانے اور اچھے اچھے کپڑوں کو ان کے ساتھ شیئر کرنا چاہیے۔ دادا جان یہی باتیں بتائی تھی نا آپ نے؟‘‘ دادا جان نے کہا جی اشر میاں یہی باتیں بتائی تھی اب آپ بتائیے اس کو ہمارے ہاں کون غریب اور مستحق نظر آتا ہے اشر میاں کہنے لگے دادا جان اس دفعہ امی نے مالی کو بھی عید کے جوڑے دیے ہیں اور ہم کچی بستی میں بھی گئے تھے وہاں بھی ہم نے بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے گفٹ پنسل ربڑ چیزیں چھوٹی چھوٹی ٹافیوں کے پیکٹ بسکٹ کے پیکٹ تقسیم کیے ہیں تاکہ وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک رہیں۔’’ بہت اچھا کام کیا آپ نے‘‘ دادا جان خوشی سے کہنے لگے۔ ’’بیٹا اس دفعہ میں عید اپنی فلسطین کے بچوں کے نام کرنا چاہتا ہوں اس پر اشر میاں بولے دادا جان وہ کیوں؟ دادا جان نے کہا؟‘‘بیٹا میں اس عید پر اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ان کے غم میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔ میں اس عید پر آپنے نئے کپڑے نہیں بنواؤں گا بلکہ فلسطینی رومال اور فلسطینی پٹی پہن کر عید کے دن نماز پڑھنے جاؤں گا۔ تاکہ میں فلسطین پر ہونے والے ظلم پر اپنا احتجاج پوری دنیا کو بتا سکوں ۔اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرا سکوں۔ آپ کو پتا ہے نا وہاں کیا حالات چل رہے ہیں؟اس پر اشر میاں بولے ،’’جی دادا جان میں نے امی کے موبائل پہ ویڈیوز دیکھی تھی، وہاں پہ گندے ظالم لوگ گھروں پر بمباری کر رہے ہیں، وہاں پر گھروں پر خطرناک بم پھینک رہے ہیں، معصوم بچوں کو شہید کر رہے ہیں ،چھوٹی چھوٹی بچیوں کو شہید کر رہے ہیں، اور ان کے ہاسپٹلز میں حملے کیے جا رہے ہیں ،ان کے گھروں کو تباہ کیا جا رہا ہے ،ان پر بہت ظلم ہو رہا ہے۔‘‘ دادا جان یہ سن کر آب دیدہ ہوگئے، کہنے لگے ،’’جی بیٹا یہ سب ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس دور میں بھی کسی پر اتنا ظلم ہو رہا ہے۔ انہیں اپنی زمین سے بے دخل کیا جا رہا ہے، ان پر بمباری کی جا رہی ہے، ان کے گھروں کو تباہ کیا جا رہا ہے ،ان پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں ،ان کو خوراک اور غذا کی فراہمی نہیں دی جا رہی، ان پر پانی روک لیا گیا ،اہل غزا اور اہل کربلا میںآج کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔‘‘ جی دادا جان آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں اشر میاں بھی اداس ہو گئے ۔’’بس بیٹا وہ بھی ہمارے بھائی بہن ہیں ہماری ہی جیسے انسان ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی میرے ساتھ ان کے دکھ میں شریکہوں ۔ جس طرح ہم خوشیاں بانٹتے ہیں اسی طرح ہم ان کے دکھ بھی بانٹیں ہم ان کے دکھ میں شریک رہیں۔ ہم ان کو یہ بات بتائیں تاکہ وہ اپنے آپ کو اکیلا محسوس نہ کریں۔‘‘
دوسرے دن اشر میاں نے یہ سب باتیں آپنے دوست وقاص کو بھی بتائیں وقاص بھی یہ سب واقعات سن کر اداس ہو گیا۔ اس نے بھی وعدہ کیا کہ وہ فلسطین کے ساتھ عید کے دن ان کے غم میں شریک رہے گا فلسطین کی محبت میں وہ بھی آپنے سر پر فلسطینی رومال باندھے گا۔ وہ بھی اسرائیلی اور ملٹی نیشنل اشیاء کا بائیکاٹ کرے گا وہ دنیا کو بتائے گا کہ فلسطینی ہمارے بھائی ہیں ان پر ظلم انسانیت پر ظلم ہے جس طرح ان پر ظلم کیا جا رہا ہے اس طرح کسی پر بھی ظلم کے پہاڑ توڑے جا سکتے ہیں اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے اس ظلم کے خلاف کھڑے ہوں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔
اشر میاں وقاص کو دادا کی باتیں بتانے لگے۔ وقاص بھائی دادا جان کہہ رہے تھے کہ ،’’جس دن سے فلسطین کے معصوم بچوں کی لاشیں بے آبرو ہوتے جسم دیکھے ہیں مجھے تو عید گزارنے کا مزہ ہی نہیں آئے گا۔‘‘ ہاں یار مدد… تم ٹھیک کہتے ہو۔ اشر میاں وقاص کو بتانے گے کہ امت مسلمہ اور اس سے مطلب یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سب ایک جسم کی مانند ہو اور اگر جسم کےکسی حصے میں کوئی زخم ہوتا ہے تو پورا جسم ہے اس کی تکلیفمحسوس کرتا ہے ۔ امت مسلمہ ایک جسم ہے لیکن یہ جسم ہمارا کس طرح کا ہے کہ ہم فلسطین میں رستہ خون دیکھ کے بھی اپنی عید کی خوشیاں منائیں ۔ میرا تو دل چاہتا ہے کہ ہم سب عید پہ فلسطین کے بچوں سے اظہار یکجہتی کے لیے فلسطین کے جھنڈے فلسطینی رومال باندھ لیں۔ فلسطین کی پٹیاں خریدیں ۔فلسطین کے رنگوں والے فلسطین کے جھنڈے کے کلر والے کپڑے بنائیں۔ اور فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں تاکہ پوری دنیا ہمارا احتجاج دیکھے اور ہمارے حکمرانوں کو تھوڑی سی عقل آئے ۔ اور وہ بھی فلسطین کے احتجاج میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ ہاں یار تمہارے دادا جان نے تو تم سے بہت اچھی باتیں کی ہیں۔ میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اشر میاں بولے،’’مجھے دادا جان نے بتایاہے کہ ہم بائیکاٹ کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ ہم لوگوں میں شعور پیدا کر سکتے ہیں، ہم سوئی ہوئی امت کو جگا سکتے ہیں ، ہم اپنے جیسے بچوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ بھی ہم جیسے ہی معصوم بچے ہیں وہ ہم جیسے ہی پیارے پیارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کے والدین ان سے چھن گئے ،جن کے کپڑے بستے جوتے گھر دادا دادی نانا نانی سب ان سے چھین لیے گئے، ان کا اسکول ان سے چھن گیا ان کے کارخانے ان سے چھن گئے ان کے سارا شہر ان سے چھین لیا گیا ، ان کو چھوٹی سی جگہ پہ ہاسپٹل بھی ان سے چھین لیا گیا ،اور چھوٹے سے خیمہ بستی میں ان کے خیموں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ تاکہ ان کا نام نشان تک مٹ جائے۔ اتنا ظلم ہو رہا ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کر پا رہے ۔ اتنے میں دادا جان بھی آگئے وہ بچوں کی بات سن کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ان فلسطینیوں کے لیے وہ وہ درد ڈال دے وہ وہ سمجھ اور فہم ڈال دے کہ ہم اس درد کو پوری امت کے ساتھ شیئر کر سکیں۔ ان کا درد دکھ بانٹ سکیں۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں۔پھر دادا جان نے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگی ،’’ اے اللہ ہمارے اوپر رحم فرما ہمیں اپنی اس عید کو فلسطینیوں کے نام کرنا چاہیے۔ اس پر ہمیں ثابت قدمی عطافرما۔‘‘ دعا کے بعد دونوں بچے ایک دوسرے کو اللہ حافظ کہہ کر اپنے گھر چلے گئے۔
عید کے دن دونوں بچےدادا جان اور محلے کے دوسرے لوگوں کی طرح سے فلسطینی پٹیاں اور فلسطینی رومال کےساتھ صاف ستھرے کپڑوں میں نماز عید ادا کر رہے تھے۔ فلسطین کی آزادی کےلیے دعا مانگ رہے تھے۔ اب وہ عید کی حقیقی خوشی کو محسوس کررہے تھے۔