سوشل میڈیا کے چکر

212

یہ رمضان بھی الوداع:
ایک اور مغفرت کا مہینہ رخصت ہوگیا۔ جتنی ہدایات رمضان میں استغفار سےجڑنے ، قرآن سے جڑنے کی تھیں سوشل میڈیا سب کو روندنے کا اہم ہتھیار ثابت ہوا۔سردی ہو یاگرمی، رمضان ہو یاشوال ، کرونا ہویا ہیٹ ویو، سوشل میڈیا اپنی دوڑ لگا رہا ہے اور سب کو ساتھ جھونکے گا۔اس کے لغو ہونے میں کوئی دو رائے یا شک نہیں ہونا چاہیے۔ جھوٹ اس کا برانڈ ہے، فریب اس کی اصلیت ہے ، دھوکہ اس کا کمال ہے۔ سوئیڈن میں قرآن پاک مصحف کی اہانت کی ناپاک کوشش کرنے والے سلوان مومیکا کی پراسرار موت کی جعلی خبر نے جیسے اس ہفتہ ہلچل مچائی ۔کئی بین الاقوامی ابلاغی اداروں نے خبر جاری کر دی کہ 37 سالہ سلوان مومیکا کی لاش ناروے میں اُس کے گھر سے ملی ہے۔یہ خبر ایک سوشل میڈیا پوسٹ سے اٹھائی گئی اور پھیلا دی گئی۔ ٹوئیٹ کرنے والے نے تو کوئی ایک ملین تک ویورز پا لیے مگر جب اس کو لگا کہ خبر حلق میں پھنس جائے گی تو پوسٹ ڈیلیٹ کردی۔ اب خبر کی اصل غائب ہو چکی تھی مگر اس سے نقل کرنے والوں کا دھندہ چلتا رہا۔ ناروے اور سوئیڈن کے بڑے ابلاغی اداروں نے ایسی کوئی خبر جاری نہیں کی ہے۔ریٹنگ کے چکر میں بھارتی سرکاری میڈیا، ایرانی پریس ٹی وی اور پاکستانی نیوز چینلز نے بھی اس کی موت کی خبر سوشل میڈیا پر خوب چلائی ۔مسلمان ثواب سمجھ کر شیئر کرتے رہے ۔

ملعون سلوان مومیکا عراق سے فرار ہوکر 2018 میں سویڈن پہنچا تھا اور اسے 2021 میں سویڈن کا رہائشی اجازت نامہ دیا گیا تھا۔ سلوان مومیکا نے سوئیڈن میں کوئی 2-3مرتبہ قرآن مجید کے اوراق جلانے کی ناپاک جسارت کی تھی۔ اب اس کو ویزہ میں اضافہ نہیں مل رہا تھا، سلوان اب ایسے کام کرکے واپس عراق نہیں جا سکتا ، اسکی جان بچانے کی خاطر سوئیڈن نے اس کو ناروے بھیج دیا کیونکہ وہ یورپی یونین کا حصہ نہیں ہے۔ مقامی افراد کے مطابق یہ ملعون دن رات پولیس کے حصار میں رہتا ہے ، سوئیڈن سے ناروے بھی اس کو پوری پولیس کی حفاظت میں لے جایا گیا۔ سلوان نے ویزے کی خاطر کچھ ماہ سے خود تو یہ غلیظ کام چھوڑ دیا مگر اپنے ساتھیوں سے یہ کام مستقل جاری رکھوایا ہوا ہے۔ مقامی مسلمان یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ یہ کام وہ سیاست چمکانے اور اپنی پبلسٹی کے لیے کرتے ہیں اس لیے مقامی مسلمان علما نے طے کیا ہے کہ ہم ایسی کسی جگہ پر نہ جائیں گے اور نہ رد عمل دے کر انکو مضبوط کریں گے ۔اسکی ساتھی خاتون ہر ہفتے جمعہ کی نماز کے اجتماع کے باہر یہ کام کرتی ہے مگر اس کو کوئی نظر اٹھا کر نہ دیکھتا ہے اور نہ رپورٹ کرتا ہے۔ یہ عمل وہ باقاعدہ ایک یو ٹیوب چینل پر دو ہفتوں سے جاری کر رہی ہے۔

ہشیار باش:ایجنڈے پر کام جاری ہے
الائیڈہسپتال فیصل آباد کے ڈاکٹر عزیر نے سوشل میڈیا پر بھاری انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ،’’پنجاب کی سب سے بڑی میڈیکل یونیورسٹی UHS( یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز) نے اپنا نیا نصاب جاری کیا ہے جو غالباً کسی باہر کی یونیورسٹی کا چھاپا ہے۔ نصاب میں لکھا ہے کہ اپنے ارد گرد لوگوں کے مختلف جینڈرز اور جنسی رجحانات کا خیال رکھنا لازمی ہے۔ اللہ کے بندو، ایک فطری جنسی تعلق کے علاوہ باقی سب (ہم جنس پرستی و دیگر) تو قابل سزا جرم ہے۔ اب آپ نے یہاں لکھ چھوڑا ہے کہ ارد گرد کوئی مجرم ہے تو اس کی عزت اور احترام کریں؟ یہ کیا مذاق ہے؟ یہ جنسی رجحانات کون کون سے ہیں جن کی عزت کرنی ہے؟ تُف ہے اُن سب پاٹے خان پروفیسروں پرجو اس یونیورسٹی میں جمع ہیں۔ جنہوں نے چھاپا لگانے سے قبل پروف رِیڈنگ کی زحمت بھی نہیں کی۔ اور اگر یہ عبارت کسی نے سوچ سمجھ کر لکھی ہے تو یہ بات مزید خوفناک ہے کہ مغرب کی نقالی میں منہ کالا کرنے ہم تک پہنچ چکے ہیں۔‘‘یہ پیغام کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ہوتا ہوا ہم تک بھی پہنچ ہی گیا۔ یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کی سب سے بڑی میڈیکل یونیورسٹی کہلاتی ہے ۔یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے نیا جدید نصاب گزشتہ سال متعارف کروایا تھا ۔ شعبہ امتحانات سے 29مارچ کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق 44 میڈیکل کالجوں کے 5589 امیدواروں نے اس کا پہلا امتحان دیا جن میں سے 4945 امیدوار پاس ہوئے ہیں۔اس نئے نصاب کی سافٹ کاپی ہمیں بھی تلاش کرنے پر مل گئی ۔ جس میں اُنہوں نے بڑی باریک بینی سے ایک خطرناک عمل کو نارملائز کرنے کے لئے متنازعہ مواد شامل کیا تھا۔ نصاب میں پروفیشنل ازم کے ذیل میں صفحہ 297-299 پر اپنے طلبہ میں جو صفات اور قابلیت پیدا کرنے کا ذکر کیا گیا ہے اُس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ’’ اپنے ارد گرد لوگوں کے مختلف جینڈرز اور جنسی رجحانات کا خیال رکھنا لازمی ہے‘‘۔ نصاب کے صفحہ 42 پر ہنر مند (طبی، علمی اور مریض کی دیکھ بھال کی مہارت) کے ذیل میں بھی مریض کی بیماری کی کیفیات لینے سے متعلق ہدایات میں لکھا گیا ہے کہ ’مریض کے ماحول، نسل، مذہب، جنس، عمر، جنسی رجحان، پیشہ اور ثقافتی طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ‘ اب سوال یہ ہے کہ جنس لکھ دینے کے بعد جنسی رحجان مزید کیا شعبہ کہلائے گا۔

مذہب او ر میڈیکل کی تفریق:
درحقیقت یہی وہ رستہ ہے جہاں سے یہ زہر معاشرت میں نارمل بن کر داخل ہوگا اور یوں تمام ڈاکٹروں کو تدریس میں ہی بتایا ، سمجھایا جائے گا کہ جنس دو نہیں ہوتیں بلکہ جدید سائنس نے اس کی کئی اقسام بنا لی ہیں اور سب کو ان کے اظہار جنس کی بنیاد پر ہی عزت و احترام دیا جائے گا۔جب وہ یہ بات اذہان میں ڈال دیں گے کہ یہ مذہب کا نہیں میڈیکل سائنس کا معاملہ ہے تو پھر مباحث کے رستے ایسے ہی ختم ہو جائیں گے ۔ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے ہی یہ بڑی تبدیلی ہوتی دیکھ لی ہے کہ ہزارہا سال سے بچوں کی پیدائش ایک معاشرتی عمل تھا ، مگر اَب وہ ایک خالص ’میڈیکل ‘عمل بن چکا ہے۔ یوں معاشرت سے اَتھارٹی میڈیکل سائنس کے پاس چلی گئی ہے ، وہ فیصلہ کن بن گئی ہے ایک ایسے کام کی جو کبھی اس کا تھا ہی نہیں۔لوگ سمجھنے لگے کہ یہ تو آسانیاں کر رہا ہے،مگر سارے اعداد و شمار و نتائج یہی بتاتے ہیں کہ بچوں کی پیدائش جب سے میڈیکل سائنس کے ہاتھ میں گئی ہے ، اس نے بھیانک نسل کشی اور اپنے آلاتی جبر سے انسانوں کوبدترین حالات سے دوچار کیا ہے۔یہ آپ اُس شخص سے پوچھیں جس کے پہلے بچے کی ولادت آپریشن سے ہوجاتی ہے۔ ہمارا یہ موضوع نہیں ہے اس پر الگ کئی صفحات مختص کریں گے مگر یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اسی طرح یہ جنس کے تعین کی اتھارٹی اگر میڈیکل سائنس نے ’ایکسرسائز ‘ کرنی شروع کر دی تو تو اس کے بہت زیادہ بھیانک انجام ہونگے۔

مکس تبصرے:
یہ تو ایک یونیورسٹی کا احوال ہے پاکستان کی تمام جامعات میں امکان ہے کہ یہی ہدف بطور نصاب سرایت کرایا جا ئےگا۔پوسٹ پر لاہور سے نوید طاہر نے تبصرہ کیا کہ ’’جب الیکشن میں ٹرانس جینڈر بل ان پارٹیوں کے منشور کا حصہ تھا تو اس میں حیرانی والی کون سی بات ہے۔ یہ لوگ تو اپنا ایجنڈ پورا کریں گے۔‘فیصل آباد سے اکرم سہیل نے متوجہ کیا کہ ،’’یہ تو ڈاکٹرز کے لیے اخلاقیات کا کوڈ ہےکہ آپ کو ہر انسان کا بلا تفریق علاج کرنا ہے اوریکساں حسن سلوک سے پیش آنا ہے۔جنسی اظہارکے معنی یہ ہیں کہ وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا نہیں، اولاد پیدا کرنا چاہتا ہے یا نہیں، یا ایک سے زائد شادی کرنا چاہتا ہے ، یا وہ ایک ٹرانس جینڈر ہے۔‘‘ اب یہ جوابی دلیل اور معنی پیش کرکے اکرم سہیل خود مجرم کے کٹہرے میں پہنچ گئے ۔اصل بات یہ ہے کہ جب مذہب، نسل،عمر، جنس، لکھ دیا تو مزید جنسی اظہار لکھنے کا کیا مطلب ہے؟

یہ ٹھیک ہے کہ میں میڈیکل سائنس کا طالب علم نہیں ہوں، مگر بحیثیت مسلمان میں اپنے اوپر عائد ’’فرض علم ‘‘کے دائرے میں ضرور ہوں۔ اس لیے جنس کی تقسیم کو بخوبی سمجھتا ہوں، اس عقیدہ پر ہوں کہ وحدہ لاشریک خالق کائنات نے جنس صرف دو ہی پیدا کی ہیں۔ جنس کی یہ ’دوئی ‘چرند پرند، انسان حیوان سمیت نباتات و جمادات سب مخلوقات یہاں تک کہ جنات میں بھی موجود ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جن حالات پیدا ہوئے میں ، جس دور میں سانس لے رہے ہیں وہ شیطان اور اس کی ذریت ، اس کے آلہ کاروں اور اُس کے ایجنڈے کو غالب کرنے والوں کا ہے۔اس کا بیس کیمپ ’’مغرب ‘‘ ہے اور اس کی باجگزار، غلام ، محکوم اقوام و ممالک ہیں جہاں وہ کبھی استعمار کی صورت تو کبھی جدید ترقی کے عنوان سے اپنے اثرات پھیلاتا ہے۔ا س میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ا س گندے و غلیظ کام کے لیےدُنیا بھر میں  ’جدید تعلیم کے تعلیمی ادارے ‘ اور ‘میڈیا و ذرائع ابلاغ ‘مرکزی مقام رکھتے ہیں ۔
فیمن ازم سے تعلق:

اب یہ محض کوئی جنسی اظہار نہیں رہے بلکہ ایک عالمی تحریک بن چکے ہیں۔ ان کا پس منظر فیمن ازم کےساتھ جڑا ہوا ہےاور یہ سب ’ہیومن رائٹس‘ کے تصور پر کھڑے ہیں۔ اِس وقت مغرب میں تو فیمن ازم کی تیسری لہر چل رہی ہے مگر پاکستان میں عجیب انداز سے تینوں کو ہی ٹھونس دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علما و سنجیدہ دینی طبقات کو یہ لہر محسوس تو ہوتی ہےمگر صاف نظر نہیں آتی۔قیصر احمد راجہ ، یوتھ کلب سمیت کئی افراد سوشل میڈیا پر ان کے ساتھ مباحث کرتے ، نئی نسل کو بات سمجھانے میں مصروف ہیں ۔اس لیے جب تک ’فیمن ازم ‘کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوگا ، بات مشکل سے سمجھ آئے گی۔ یوں سمجھ لیں کہ سب سے پہلے ’عورت‘ کو بطور انسان الگ جنس کے طور پر حقوق کی دوڑ میں لایا گیا ۔ جب اسکو پہلے مرحلے پر کامیابی ملی تو مزید جنس پیدا کر لی گئیں تاکہ اب انکو بھی حقوق دیئے جائیں ۔۔ اب تیسری لہر میں بات Species تک جا پہنچی ہے کہ تمام مخلوقات کو حقوق دیئے جائیں۔ یہ لوگ جنات کو مانتے نہیں وگرنہ جنات کے حقوق کے لیے بھی نکل آتے ۔

ڈاکٹر عزیر فیمن ا زم کے تناظر میں اپنی وائرل پوسٹ میں لکھتےہیں کہ،’عورت کو حقوق بطور عورت کبھی نہیں مل سکتے۔ جدید دنیا میں حقوق لینے کے اب 3ہی طریقے رہ گئے ہیں: یا عورتوں کو مرد بننا ہو گا، یا مردوں کو عورت بنانا ہو گا، یا جنس کا تصور مکمل ختم کرنا ہو گا۔ اس وقت تینوں کام دنیا میں پوری شد و مد سے جاری ہیں۔‘

مستقل خدا سے دور ہوتے ہوئے معاشروں میں خدا کا متبادل بالآخر انسان خود یا پھر مادہ بنتا نظر آرہا ہے۔زیادہ سے زیادہ مادی وسائل، زیادہ سے زیادہ مادی ترقی، یہی انسانی زندگی کا حتمی مقصد ٹھہرتا ہے۔جب کوئی خدا نہیں ہوتا جس کی خوشنودی درکار ہو ، نہ کوئی آخرت ہوتی ہے جہاں کسی جوابدہی کا ڈر ہو، نہ کوئی ہدایت دینے وال نبی یا کتاب ہوتو پھریکسوئی کے ساتھ انسانی زندگی مادی ذرائع کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لیے وقف ہوجاتی ہے۔ ایسے سماج میں انسان کی انسان پر فضیلت یا برتری کا ایک ہی معیار رہتا ہے: جو مادی ترقی و وسائل کی دوڑ میں آگے ہو، یعنی زیادہ ’پروڈکٹیو‘ ہو، وہی اعلیٰ، وہی اوپر مقام پر کہلاتا ہے۔

ٹھیک کرودونگی:
آپ یوں نوٹ کرلیں کہ خواتین کے لیے ’گھر چلانا، بچے پالنا، والدین کی خدمت، شوہر کی خدمت، کھانا پکانا، صفائی ستھرائی، بچوں کی تربیت ‘ جیسے کوئی کام کسی بھی شکل میں شمار ہی نہیں کیے جاتے۔ اس کے برعکس وہی عورت اگر گھر سے باہر نکل کرفوڈ اسٹریٹ میں ٹھیلا لگا کر چند ٹکوں کے بدلے دنیاکے ہر مرد کو کھانا کھلائے تو وہ ’’انٹر پرینیور‘‘ کہلاتی ہے۔ اگر وہ والدین کی خدمت کے بجائے کسی ہوائی جہاز یا ڈائیو کی بس میں ہر قسم کے مسافروں کو ایک اشارے پرپانی پلائے ، کولڈ ڈرنک لائے تو وہ بھی انگریزی میں ایسا ہی کچھ کہلاتی ہے ۔غرض کہ اس تضاد کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ مگر ان سب کے بعد کیا عورت کو اِس کا کوئی حق مل رہا ہے؟ایسے سماج میں اخلاقیات کا اپنا کوئی آزاد وجود ہی نہیں ہوتاتو ایسا تصور کرنا ہی محال ہے ۔ زیادہ پرانا وقت نہیں تھا کہ گھروالے یہ جملہ گھر کے لڑکوں کو کہتے تھے کہ ’’پڑھے لکھے گا نہیں تو کیا پلمبر، درزی ، الیکٹریشن بنے گایا ٹھیلا لگائے گا؟‘‘ گویا کہ یہ سارے کام انتہائی کوئی ذلت آمیز کام ہیں اور انکی کوئی اہمیت یا مقام نہیں۔ جی یہ بالکل ایسا ہی تھا۔ مگر اب حال یہ ہے کہ عزت دینے، کے نام پر حکومت نے خود ’ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن ‘خواتین کو ’ایمپاور‘ کرنے کے نام پر بنایا ہے اور وہاں اسکو ’الیکٹریشن، پلمبر، فرج ریپئر، یو پی ایس ریپیئر، سیکیورٹی گارڈ، سولر ٹیکنیشن، موبائل ریپئرنگ‘ کے کورسز کرائے جا رہے ہیں ۔اسکے ساتھ جو ہیش ٹیگ لگایا ہے وہ #Theekkardungi اور #Shefixesکا ہے۔اُمید کرتا ہوں کہ ہیش ٹیگ پڑھ کر مختصر الفاظ میں بات سمجھ آگئی ہوگی۔بس یہ جان لیں کہ

فیمن ازم کے کرتا دھرتا بھی اس حقیقت سے خوب آشنا ہیں کہ ایک بے خدا سماج فقط مادی معیار پر انسان کی فضیلت قبول کرتا ہے، اس لیے اگر مرد کی قوامیت ’مال کمانا ہے‘ تو یہ صلاحیت عورت میں بھی ’ٹھونسی‘ جا سکتی ہے تاکہ یہ برتری کا مسئلہ اس طرح ختم ہو سکے اور سب کے سب ’’پروڈکٹیو‘ ‘ بن سکیں۔

حصہ