عید سب کے لئے

195

’’ اماں! آپ سب کہہ رہے ہیں میں صبر کروں، صبر تو کر رہی ہوں‘ نو سال ہوگئے ہیں میں اپنے بچوں سے نہیں ملی ،کل اصغر چاچو کے نواسے کی شادی میں دور سے میری نظر اپنے بڑے بیٹے ناصر پر پڑی میں اس کی طرف دوڑی لیکن وہ اپنے باپ کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو کر چلا گیا،میرا قصور کیا ہے؟‘‘ شہناز نے روتے ہوئے ماں سے کہا۔

ماں خاموش رہی بعد میں شہناز کی نند رشیدہ سے گلہ کیا۔ رشیدہ آپا نے اپنے بھائی لیاقت سے کہا اگر شہناز کا سامنا اپنے بیٹے سے ہوگیا تھا تو تم اسے ملنے دیتے، تم لوگوں کے جانے کے بعد وہ رو رہی تھی، بھائی ویسے بھی اس طلاق میں تم دونوں کا قصور تھا، بچوں کا کیا قصور، بچے جیسے تمہارے ہیں ویسے ہی اس کے، ہمارے خیال میں تو اب آپ اپنی ضد چھوڑ دیں۔ جب تک بچے چھوٹے تھے تو معاملہ جیسے تیسے چل رہا تھا اور ویسے بھی آپ لوگوں کا اس شہر میں آنا کم ہوتا تھا۔ اب بچے بھی بڑے ہوگئے ہیں اور ایک برادری ہونے کی وجہ سے کہیں نہ کہیں سامنا ہوہی جاتا ہے۔

نورین :’’ناصر بھائی! آپ امی سے ملے کیوں نہیں، (روتے ہوئے ) میں آپ کی جگہ ہوتی تو ضرور آگے بڑھ کر ان کے گلے لگ جاتی۔‘‘

ناصر: ’’آہستہ بولو‘ ابو ناراض ہوں گے، ان کو پسند نہیں کہ ہم امی سے ملیں، ابو نے تو ہم تینوں کی وجہ سے دوسری شادی بھی نہیں کی۔ ہمیں ان کی خوشی کا خیال رکھنا ہوگا۔‘‘

نورین: ’’امی نے بھی تو دوسری شادی نہیں کی، پہلے کی بات دوسری تھی ہم دوسرے شہر میں تھے اب ہم ایک شہر میں ہوتے ہوئے امی سے دور رہیں بھائی یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘

بچوں کی اس قسم کی گفتگو دادی کے کانوں میں پہنچی تو اسے بھی بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے سوچا وہ ضرور اس سلسلے میں لیاقت سے بات کریں گی۔

اماں: ’’لیاقت بیٹے! تم سے ایک بات کہوں؟‘‘
لیاقت: ’’جی اماں بولیں۔‘‘

اماں: ’’اپنی ضد چھوڑ دے‘ بچوں کو شہناز سے ملنے کی اجازت دے دے، اب یہ بڑے ہوگئے‘ ایک شہر میں رہتے ہوئے۔‘‘

لیاقت: (ماں کی بات کاٹتے ہوئے) ’’ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، وہ چاہتی تو نعمان اس وقت ایک سال کا تھا ضد کرکے لے جا سکتی تھی، وہ مجھے سزا دینا چاہتی تھی اسی لیے اُسے بھی چھوڑ گئی۔ اب میں اسے بچوں سے ملنے دوں؟بالکل نہیں… میں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا رہا ہوں‘ میں نے ان کی وجہ سے دوسری شادی نہیں کی‘ وہ یہاں عیش وآرام کی زندگی گزار رہے ہیں انہیں کس چیز کی کمی ہے یا تکلیف ہے یہاں؟‘‘

اماں: ماشاء اللہ سب کچھ ہے لیکن ماں کا ساتھ بھی ضروری ہے۔ دیکھ بیٹا! جو ہوچکا وہ ہوچکا، پہلے ہی تم دونوں کی طلاق سے بچے متاثر ہوئے ہیں، رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوگیا ہے‘ یہ بھی تمہاری نیکی ہوگی تم چاہے اپنے بچوں کو کتنی ہی خوشیاں دو لیکن عید جو ہے ہی خوشیوں کا تہوار‘ اس سے اپنے بچوں کو محروم نہ رکھو انسانیت کے ناتے ہی سہی‘ اُن بچوں کو ماں سے ملنے کی اجازت دے دو اور مجھے یقین ہے کہ تمہارے اس قدم اٹھانے سے تمہارے بچوں کے دل میں بھی تمہارے لیے عزت اور احترام بڑھ جائے گا۔‘‘

لیاقت چند دنوں سے نوٹ کر رہا تھا تینوں بچے اداس اور بجھے بجھے نظر آرہے ہیں۔ آپس میں بھی کم بات چیت کر رہے تھے۔ وہ بچون کی اداسی کی وجہ بھی جانتا تھا۔

لیاقت! ’’اماں آج روزہ کہیں باہر کھولیں گے‘ میرا مطلب ہے افطار کرنے کہیں باہر چلتے ہیں اور واپسی میں کچھ شاپنگ وغیرہ بھی ہوجائے گی۔‘‘ (وہ بچوں کو بہلانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔)

شاپنگ سے واپسی پر بھی اس نے نوٹ کیا بچے کچھ زیادہ خوش نہیں ہیں جیسے عموماً وہ شاپنگ یا تفریح وغیرہ سے ہوتے ہیں۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بچوں کو کیسے خوش رکھے۔

سونے کے لیے لیٹا تو اسے بڑی بے چینی سی محسوس ہورہی تھی۔ آج اتنے عرصے بعد اسے اپنی غلطی کا بھی احساس ہورہا تھا کہ اس طلاق میں شہناز سے زیادہ قصور اس کا اپنا تھا، وہ تو سمجھ رہا تھا کہ اس نے بچوں کی جھولی میں اتنی خوشیاں ڈال دی ہیں کہ وہ ماں کو بھی بھول گئے ہوں گے لیکن ایسا نہ تھا، خصوصاً اس کی بیٹی اب جوان ہو رہی تھی‘ اُسے اب ماں کی زیادہ ضرورت تھی‘ اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ اللہ کے نزدیک طلاق جائز لیکن نا پسندیدہ فعل کیوں ہے۔ یقیناً اس کے اثرات آس پاس والوں پر پڑتے ہیں جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے، ایک سوال اس کے ذہن میں ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا کہ قصوروار وہ خود ہے‘ بچوں کا کیا قصور؟ جو اس نے اتنے عرصے تک انہیں اپنی ماں سے دور رکھا اب اس دوری کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے تھے اور اگر بچوں کو مزید ان کی ماں سے دور رکھا گیا تو معاملہ بگڑ سکتا ہے، بچوں کی تربیت میں بھی خلا رہ جائے گا۔ اسے اج اپنی غلطی کا احساس شدت سے ہورہا تھا۔

’’کل سے رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوجائے گا پھر عید…کیا میرے بچے عید کی خوشیوں سے محروم رہ جائیں گے۔‘‘ اسے اماں کے الفاط یاد آگئے کہ ’’عید کی خوشیوں سے اپنے بچوں کو محروم نہ رکھ عید تو ہے ہی خوشیوں کا تہوار۔‘‘

’’نہیں میں اپنے بچوں کو عید کی خوشیاں ضرور دوں گا‘ یہ ان کا حق ہے۔‘‘اس نے دل میں ارادہ کیا ’’میں اماں سے اس سلسلے میں بات کروں گا کہیں مزید دیر نہ ہوجائے اور بچے مجھ سے بھی نالاں ہوجائیں۔‘‘

دادی نے عید کی رات بچوں کو فون پر ماں سے بات کروائی تو تینوں کے چہرے خوشی سے جھوم اٹھے دوسری طرف شہناز کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کی دعائیں اس طرح جلدی مستجاب ہوں گی۔ جب نورین نے ماں کو بتایا کہ ہم کل آپ سے ملنے آرہے ہیں تو اسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ اب اسے اپنے آنسو روکنا دشوار ہو گئے‘ بڑی مشکل سے اس نے آنسوؤں کو ضبط کرکے صرف اتنا کہا ’’میں تمہارا انتظار کروں گی۔‘‘

شہناز ساری رات بستر پر کروٹیں بدلتی رہی‘ نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ بس اسے جلدی سے صبح کے ہونے کا انتظار تھا جب وہ اپنے تینوں بچوں کو سینے سے لگا کر پیار کرے گی۔ یہ سوچ ہی اس کے لیے عید کی خوشی تھی جس سے وہ گزشتہ نو سال سے محروم رہی تھی۔

اگلا دن یقینا اس بچھڑی ہوئی ماں اور اس کے بچوں کے لیے عید کا دن تھا جن کا چھ سات سال کے بعد ملن ہوا تھا لیکن ایک کسک تینوں بچوں کے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی کہ کاش آج اس عید کے تہوار کی خوشی میں ہمارا باپ بھی ہمارے ساتھ شریک ہوتا تو یقیناخوشی دوبالا ہو جاتی۔

حصہ