عید کے رنگ

195

عید پر گلے ملنے کے فوائد:
سائنس دانوں کے مطابق عید پر گلے ملنے سے گرمجوشی میں اضافہ ہوتا ہے، ذہنی تنائو کم ہوتا ہے اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔
ڈپریشن سے بچائو:
رپورٹ کے مطابق 400 افراد پر تحقیق کی گئی جس سے معلوم ہوا کہ گلے ملنے سے بیماری کے امکانات کم ہوجاتے ہیں اور صحت اچھی رہتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو اُن کے قریبی رشتے دار کی سپورٹ حاصل ہے وہ ڈپریشن کا شکار کم ہوتے ہیں۔
دل کی صحت:
گلے ملنے کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس سے دل کی صحت اچھی رہتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق سائنس دانوں نے تقریباً 200 افراد کا جائزہ لیا۔ ایک گروپ میں ایسے جوڑوں کا جائزہ لیا گیا جنہوں نے 10 منٹ تک ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور 20 سیکنڈ کے لیے گلے ملتے رہے۔ دوسرے گروپ میں ایسے جوڑوں کا جائزہ لیا گیا جو 10 منٹ اور 20 سیکنڈ تک خاموش بیٹھے رہے۔ دوسرے گروپ کے جوڑوں کے مقابلے میں پہلے گروپ کے جوڑوں میں دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں کمی دیکھی گئی۔ ان نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ جوڑوں کے درمیان پیار اور محبت دل کی صحت کے لیے بہتر ہے اُن جوڑوں کے مقابلے جن میں روز بہ روز لڑائی جھگڑا رہتا ہے۔
گلے ملنے سے خوشی کا احساس:
جب ہم گلے ملتے ہیں تو ہمارے جسم میںآکسیٹوسن نامی کیمیکل ہارمون کی تعداد بڑھ جاتی ہے جسے ماہرین نےcuddle hormone کا نام دیا ہے اور ان ہارمون کے اضافے سے انسان خوشی محسوس کرتا ہے۔
سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ یہ ہارمون خواتین میں زیادہ اثر کرتا ہے، اس کے علاوہ آکسیٹوسن بلڈ پریشر اور تنائو کے ہارمون میں کمی کا سبب بنتا ہے۔
خوف میں کمی:
سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ گلے ملنے سے خوف کے احساس میں بھی کمی آتی ہے۔ ایسے افراد جو ہر وقت خوف میں رہتے ہیں، یا کسی بھی وجہ سے انہیں ڈر لگا رہتا ہے، تو گلے ملنے کی وجہ سے یہ خوف کم ہوجاتا ہے۔
عید گاہِ ماغریباں کوئے تو
خواجہ حسن نظامی دہلوی
عید کے چاند نے کہا: مجھ کو دیکھو۔ مدنی محبوب کے ابروکا خم اسی شکل کا تھا۔آسمانی کنارے کی شفق بولی: رخسار کی رنگت دیکھنی ہو تو مجھ پر نظر ڈالو۔ اس میں کچھ اسی قسم کا روپ تھا۔ سامنے تاریکی دوڑ کرآئی اور شرما کر کہنے لگی: گیسو کچھ مجھ سے ملتے جلتے تھے۔
شام کے منظر اپنی کہہ چکے تو صبح کا نور چمکا اور زبانِ شعاعی میں گویا ہوا: اپنی تجلی کی قسم، روئے محمدؐ کا میں آئینہ ہوں۔ اس کی زبان درازی بجلی کی طرح گری، وجود عشق باز بیتاب ہوگیا اور کلیجہ تھام کر عیدگاہ کی طرف چلنے لگا۔ وہاں کچھ سائل تھے، کچھ مسئول تھے۔ کچھ اجلے تھے، کچھ میلے تھے۔ آنکھ نے کہا غریبوں کی یہ عیدگاہ نہیں ہے۔ دل نے کہا نماز کا مقام تو یہی ہے، تو اگر نیاز کی عیدگاہ تلاش کرتی ہے تو حجاز میں جا۔ یثرب کو دیکھ، چند پیچیدہ گلیاں نظر آئیں گی۔ ان کی دیواروں پر راز نیاز کے سائن بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ ان سے معلوم ہوجائے گا کہ مقصود کہاں دستیاب ہوتا ہے۔
غریبوں کی عیدگاہ مہربان ہوئی اور اس کے امام نے جھک کر گلے لگانا چاہا۔ مگر مشتاق سینہ نے کہاکہ نیازمندی کا ناز قدموں سے ملنا چاہتا ہے۔ اس کی یہ مجال نہیں کہ سرکار کے سینہ تک بڑھنے کی جرا?ت کرے۔ یہ ادب پسند کیا گیا اور ارشاد ہوا کہ دیوانو! یہ قدم ہمیشہ تمہارے رہیں گے۔ تم کو عید مبارک۔
بے قرار نے جواب دیا
عیدگاہِ ما غریباں کوئے تو
انبساط عید دیدن روئے تو
غریب کی عید:
عید اگرچہ ایسا دن ہے کہ ہر چھوٹا بڑا، امیر غریب اپنی حیثیت اور بساط کے موافق حصہ لیتا ہے۔ مگر جو سچا اثر عید کی خوشی کا غریبوں پر ہوتا ہے اس سے امیر محروم رہ جاتے ہیں۔ دولت مند لوگوں کے یہاں تو ہر روز عید اور ہر رات شب برأت ہے۔ عید کے دن اس پر اور اضافہ ہوجاتا ہے، ان کو خبر بھی نہیںکہ آج کے دن کے لیے حضرت رسول مقبولؐ نے کیا کیا ارشاد فرمایا ہے اور امیروں کو اپنے غریب بھائیوں کی اعانت و مدد کرنے کی کیسی کیسی تاکید کی ہے۔ اور تو اور یہ لوگ نمازِ عید کی بھی پروا نہیں کرتے ہیں۔ غربا اپنے اس قومی و دینی تہوار کو جی کھول کر مناتے ہیں، نئے کپڑے میسر نہ آئیں تو پرانے ہی دھلوا کر پہن لیتے اور عیدگاہ میں جاکر اپنے پروردگار کا دوگانہ شکر ادا کرتے ہیں۔
آج کا دن اس غریب گھر میں جس کا وارث نہ رہا ہو، قیامت کا دن ہے۔ غریب بیوہ اپنے یتیم بچوں کو نہلا دھلا کر اور پیوند لگے کپڑے پہنا کر عیدگاہ بھیجنا چاہتی ہے، مگر کوئی نہیں ملتا جس کی انگلی پکڑ کر یہ بے وارثے عیدگاہ جائیں۔
جب وہ بے چاری دیکھتی ہے کہ گھر والے کی زندگی میں آج کے دن یہ بچے نئی جوتیاں پہن کر اور چمکتی ہوئی کامدار ٹوپیاں اوڑھ کر عیدگاہ جاتے تھے اور آج ان کے پائوں میں پھٹی ہوئی جوتیاں بھی نہیں اور سر پر کامدار چھوڑ سفید نئی ٹوپیاں بھی نصیب نہیں تو اس کے کلیجے پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے، وہ روتی ہے، تو یہ نادان بچے پوچھتے ہیں: اماں تم کیوں روتی ہو؟ اچھا بتائو کیا ہوا؟ تو وہ غریب آنسو پی کر رہ جاتی ہے اور ان معصوموں کا دل میلا نہیںکرنا چاہتی۔
جب یہ بچے کسی پڑوسی کے ساتھ عیدگاہ جاتے ہیں اور واپسی کے وقت پڑوسی کے بچوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ بازار سے کھلونے اور مٹھائیاں خرید رہے ہیں اور باپ سے پیسے لیتے جاتے ہیں، تو یہ ہر شخص کا منہ تکتے ہیں مگر کچھ کہہ نہیں سکتے۔ گویا ان بھولی اور بے بس آنکھوں سے کہتے ہیں کہ ہم کس سے مانگیں اور کون ہم کو کھلونے دلوائے؟
ہر شہر اور محلے میں ایسے غریب ہیں، جن کی عید میں یہ دلخراش نظارے پیش آتے ہیں۔ مگر ہماری آنکھیں بے نور ہیں، ہمارے دل بے حس ہیں، جو اس کی پروا نہیں کرتے اور اپنی خوشی میں مشغول رہتے ہیں۔
اگر تم اس دنیا کی تکلیف دہ زندگی کا مطالعہ کرنا چاہتے ہو، اگر تم کو خواہش ہے کہ اپنے دل کو ہستی موہوم کا اور اس کے نشیب و فراز کا تماش دکھانا ہے تو آج کے دن غریب گھروں میں عید کا جلوہ دیکھو۔
(مرتبہ: ایم۔جی رحمٰن فارغ کلکتوی۔ ’’عید کا چاند عرف دریائے نشاط)‘‘
ملاقاتِ عید:
ازنتیجہ فکر حضرت امیر مینائی مرحوم و مغفور
آنکھیں ہیں اور لطف ہے اب اس کی دید کا
برسوں جو آفتاب رہا چاند عید کا
پیری میں مجھ سے خنجر قاتل گلے ملا
دیکھا ہے چاند تیری تاریخ عید کا
اس غمکدے میں کٹ گئی یوں اپنی زندگی
قیدی پہ جیسے روز گزر جائے عید کا
اتراتے ہیں جو لوگ بدل کر لباسِ نو
ہنستا ہے چاک پیرہن روز عید کا
باطن میں غم ہے عشرتِ دنیائے ظاہری
پہنے ہوئے لباس محرّم ہے عید کا
ہونے نہ پائے غیر بغلگیر یار سے
اللہ! یوں ہی روز گزر جائے عید کا
اْٹھ اْٹھ کے بیٹھنے سے ہوئے کشتہ ہم امیرؔ
خنجر پھر اگلے پہ ملاقات عید کا

حصہ