آخر شب کے ہم سفر

350

’’ہاں اس پر یاد آیا کہ شمسہ خالہ کے پڑوس میں جل پائے گوری سے ایک مولوی صاحب آکر رہے ہیں۔ مولوی عبدالمجید خاں۔ ان کی لڑکی یاسمین میٹرک میں پڑھ رہی ہے تو بیگم عبدالمجید نے خالہ سے کہا کہ یاسمین کی انگریزی کمزور ہے کوئی استانی اس کے لیے لگوادیں۔ شمسہ خالہ نے مجھ سے ذکر تو مجھے ایک دم روزی کا خیال آیا۔ اور میں نے روزی سے ان کی بات چیت کرادی۔ یاسمین میرے ہاں آئی تھی۔ خاصی دلچسپ لڑکی ہے۔ مگر مجھے کچھ خبطی سی معلوم ہوتی ہے۔ جب اس کی امیر کمرے سے چلی گئیں تو مجھ سے چپکے سے بولی۔ آپا۔ یہ امی اور ابا بے کار مجھے آگے پڑھانے کی فکر میں ہیں۔ میں تو ڈانسر بنوں گی۔ میں بھونچکی ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ اور میں نے کہا۔ بی بی۔ اتنا قدامت پرست خاندان تو تمہارے باپ کا ہے تم کس طرح ڈانسر بنو گی۔ ذرا یہ تو بتائو۔ اور ڈھاکے میں جہاں ایک ہزار مسجدیں اور بیس ہزار مولوی ہیں یا یاسمین بی بی تم نے ناچ سیکھ بھی لیا، تو ناچو گی کہاں جا کر۔ مگر وہ سر ہلا کر کہنے لگی۔ آپا۔ دیکھ لینا۔ ایک دن میں ڈانسر بن کر ہی دکھا دوں گی۔ میں سمجھتی ہوں اگر اس کے ابا یہ بات سن لیں تو اس کا گلا ہی گھونٹ دیں۔ واقعی۔ مگر یہ آج کل کی لڑکیاں ہیں بھائی۔ بہرحال تو اب روزی ہفتے میں چار دن سگن بگیچے جا کر یاسمین کو انگریزی پڑھا رہی ہے۔ اچھا ہے اس کا جیب خرچ نکل آیا۔ روزی کے لیے بڑا دل دکھتا ہے۔ چپ چپ سی رہتی ہے اور اکثر بہت پریشان نظر آتی ہے۔

اب تم امتحان دے کر آئو۔ تو اطمینان سے گپ شپ رہے گی۔
تمہاری۔ جہاں آراء‘‘
اس خط سے دیپالی کو کچھ اندازہ ہوا کہ اب تک روزی نے اس کے خط کا جواب کیوں نہیں دیا تھا۔
دوسرا خط بابا کا تھا۔

’’میں خیریت سے ہوں۔ کھوکھُو، شونُو، ٹونُو بھی اچھی طرح ہیں۔ تمہاری گھر سے غیر حاضری کی وجہ سے ٹونُو پر نگرانی رکھنے والا کوئی نہیں رہا۔ اس لیے وہ بے حد شیطان ہوتا جارہا ہے۔

’’تم کو پیسوں کی ضرورت ہو تو فوراً لکھ دیا کرو۔ کبھی یہ نہ سوچو کہ میں تمہیں پیسے نہ بھجوا سکوں گا۔

’’کل ایک بڑی افسوس ناک بات معلوم ہوئی۔ تم کو بھی معلوم ہو کر رنج ہوگا۔ دیدی نے گودام کھول کر دھوپ میں سکھانے کے لیے پرانے کپڑے باہر نکالے۔ ڈیڑھ دو سال سے بڑا صندوق نہیں کھولا تھا۔ اسے کھولا تو تمہاری ماں کی تین بالوچر ساڑھیاں غائب تھیں۔ چور کدھر سے آئے۔ کب چوری ہوئی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ مجھے بھی بے حد صدمہ ہوا۔ کیونکہ یہ میری ماں کی ساریاں تھیں۔ جو انہوں نے تمہاری ماں کو دی تھیں یہ ساریاں تمہیں معلوم ہوگا۔ پرانے خاندانوں میں دلہنوں کو دی جاتی تھیں۔ اور تمہاری بے چاری ماں نے اپنی تینوں بہوئوں کے لیے رکھ چھوڑی تھیں۔ بننے والے مرشد آباد کے مسلمان کاری گر کب کے مرکھپ گئے۔ اور یہ فن بھی ان کے ساتھ گیا۔ اب یہ ساریاں ملتی نہیں ہیں۔ دیدی تو چوری کے غم اور دہشت سے تقریباً بیمار پڑ گئی ہیں۔ تم جانتی ہو وہ پہلے ہی سے اعصاب زدہ ہیں۔ ان کو فکر ہے کہ چوروں نے گھر دیکھ لیا تو باقی سامان بھی نکل جائے گا۔ اور مجھے یہ اطمینان ہے کہ ہمارے گھر میں اور کوئی شے چوری کے لائق ہے ہی نہیں!‘‘

بابا کا خط لفافے میں واپس رکھ کر دیپالی گم سم سر جھکائے بیٹھی رہی اور گھاس کی پتیاں توڑا کی۔ پھر اس نے گھڑی دیکھی اور لائبریری جانے کے ارادے سے یونیورسٹی کی طرف روانہ ہوگئی۔

شام تک دیپالی لائبریری میں اپنی مخصوص چھوٹی سی کھڑکی میں بیٹھی پڑھنے میں منہمک رہی کھڑکی کی سلاخوں کے باہر اُونچی اُونچی گھاس اُگی ہوئی تھی۔ کتابوں کی الماریوں میں پرانے کاغذوں کی مہک رچی تھی۔ بیشتر طالب علم ہال سے باہر جاچکے تھے۔ دیپالی کتاب بند کرکے سوچنے لگی۔ صبح ڈاکخانے جا کر ٹکٹ خریدے گی۔ بابا کو خط لکھے گی (جہاں آراء کا خط فوری طور پر جواب طلب نہیں تھا) ساریوں کے چوری کے متعلق اپنے رنج کا اظہار کرے گی۔ مگر یہ دوہری زندگی جو وہ دو ڈھائی برس سے گزار رہی ہے۔ اس کا انت کیا ہے؟ وقتی جوش و خروش گزر جانے کے بعد جب ضمیر ملامت کرتا ہے کہ بابا کو اس طرح دھوکے میں نہ رکھو تو اس ضمیر کا کیا علاج کیا جائے؟ ضمیر کیا ہے؟ میں کون ہوں…؟ وشوا بھارتی کی کھڑی میں بیٹھی ہوئی یہ لڑکی کون ہے؟ ریحان دادا کون ہیں؟ ادما رائے اور روزی بنرجی کون ہیں؟ گُرودیو اور اکشے اور جہاں آراء۔ ڈاکٹر بنوے چند سرکار؟ آتمائیں؟ پچھلے سنسکاروں کے بنائے ہوئے ذہن؟ کیا ایک ایک قدم ایک ایک حرکت پہلے سے مقدر ہے یا محض حادثے کا نتیجہ ہے۔ ’’اقتصادی، سماجیاتی تاریخی عوامل…؟‘‘

ایک مور نہایت غرور سے سر اُٹھائے کھڑکی کے نیچے سے گزر گیا۔ عرفانیت اور رومان اور فلسفے کے اس گڑھ میں یہاں سے چند قدم کے فاصلے پر اس سرخ آرٹسٹک مکان کے اندر گرو دیو بھی میرے سوالات کا جواب دینے کے لیے موجود ہیں۔

لیکن راستہ کسے معلوم ہے؟

سولیڈرٹی…! سولیڈرٹی میں جواب… شاید… موجود ہے۔

اُٹھو… دیپالی… وہ اکثر، چوبیس گھنٹے وقت کے اندرونی سفر میں خود سے کہتی رہی۔ اُٹھو… اب یہ کام کرنا ہے۔ اب یہاں سے جانا ہے۔ اب یہ پڑھنا ہے۔ اب اس سے بات کرنی ہے جھکو مت…

وہ کھڑکی میں سے اُٹھی اور کتابیں سمیٹ کر باہر نکلی۔

(13)
مِس روزی بنرجی اور سولیڈرِٹی
روزی بنرجی بسواس فیملی کی گاڑی کمپائونڈ سے باہر نکل جانے کے بعد غسل خانے کی سیڑھی پر ساکت وصامت بیٹھی رہ گئی تھی۔ جس وقت مسز بسواس سٹنگ روم میں دہاڑ رہی تھیں۔ وہ غسل خانے کے کواڑ سے کان لگائے کھڑی تھی۔ اور اس نے سنا تھا ’’ہم نے انکوائری کی۔ میری سسٹر اِن لاء نے لکھا لڑکی کی شہرت اچھی نہیں ہے۔ اس کے ہندو بوائے فرینڈز ہیں۔ لڑکی کانگریس کمیونسٹ ہوگئی ہے‘‘۔

وہ دھک سے رہ گئی… یہ خبر کس طرح پھیلی؟ اب پاپا اس کا کس طرح قیمہ اور بھرتہ بنائیں گے۔ مگر اسے بڑا تعجب ہوا جب اس نے رات کو اپنے کمرے سے باہر نکل کر دیکھا کہ پاپا اور ماما دونوں نے اس سے ایک لفظ نہیں کہا۔ پاپا روتے رہے تھے (یہ دیکھ کر اس کا دل کٹ رک رہ گیا۔) اور ماما کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ مگر وہ دونوں خاموش تھے۔

پادری بنرجی کی یہ خاموشی وقتی نہیں تھی۔ اس روز کے بعد سے انہوں نے اپنی اکلوتی لڑکی سے بول چال تقریباً بند کردی۔

ریونڈر بنرجی کی خفگی روزی سے محض اس بناء پر نہیں تھی کہ اس نے لوتھر بسواس اور اس کے خاندان کے سامنے ان کو اس بُری طرح شرمندہ کیا۔ انہوں نے دوسرے ہی روز مختلف ذرائع سے روزی کی سرگرمیوں کے متعلق معلوم کروایا تھا۔ اور ان کو پتا چلا تھا کہ مسز بسواس کی ’’مارجری سسٹر‘‘ کی اطلاع صحیح تھی۔ روزی بنرجی اکثر رات برات شہر کے کونوں کھدروں میں چند مفسد، فتنہ پرداز اور حکومت کے باغی اور غدار ہندو اور مسلمان نوجوانوںکے ساتھ دیکھی گئی تھی۔ اس اطلاع نے ریونڈ بنرجی کا سر جھکا دیا تھا۔

اِسی دوران میں چارلس بارلو کے متعلق دیپالی کا خط پہنچا۔ روزی نے وہ خط پُرزے پُرزے کرکے نذرِ آتش کردیا۔ اور لرز کر سوچا۔ مجھے جیل بھیجا جاسکتا ہے۔ اگر کسی کو معلوم ہوجائے کہ میرے ذریعے دیپالی آیا کے بھیس میں کینٹ ویل کے بنگلے پر پہنچی تھی تو مجھے جیل ہوسکتی ہے۔ میں اپنے سیدھے اور نیک دل باپ کو کس قصور کی سزا دے رہی ہوں؟ کیا یہ ان کا قصور تھا کہ ماما کو بال ودھوا بننا پڑا۔ یا خود انہوں نے پیٹ کی خاطر مذہب تبدیل کرلیا۔ میری سمجھ میں یہ چند باتیں آگئی ہیں۔ تو کیا دینا کے حالات بدل جائیں گے؟

وہ اب خاموشی سے کالج جاتی اور واپس آکر اپنے کمرے میں پڑ رہتی۔ تعطیلات میں ایستھر بنرجی نے شوہر کو سمجھا بجھا کر اس کے لیے لال منیر ہاٹ کا ٹکٹ منگوادیا۔ شمالی بنگال سے واپس آکر وہ پھر اپنی پڑھائی میں لگ گئی۔ کبھی کبھار جہاں آراء کے اصرار پر ارجمند منزل چلی جاتی، مگر ارجمند منزل کی امارت اور آساء اسے اور زیادہ مضطرب کرتے۔ یہ لوگ اتنے امیر اور باعزت ہیں، میں غریب اور کم حیثیت۔ وہ گھٹیا چمریشین لوگ میرے گھر آکر میرے ماں باپ کو ان کے افلاس کا طعنہ دے کر چلے جاتے ہیں اور میرا باپ میری خاطر آنسو بہاتا ہے۔ آخر یہ سب کیوں۔ میں اس کا حل کس طرح تلاش کروں پھر جہاں آراء نے اس کے لیے مولانا صاحب کے ہاں سگن بگیچے میں ٹیوشن لگادیا۔ (وہ لڑکی یاسمین بھی خاصی بائولی سی تھی۔ جانے ہم لوگوں کا کیا حشر ہوگا۔) اور وہ شام کو وہاں جانے لگی۔

ایک روز وہ ٹیوشن لگوانے کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ارجمند منزل گئی تو جہاں آراء نے بڑی حیرت سے اُسے دیکھا۔ شمالی بنگال کی برہمن عورتیں بے حد گوری ہوتی ہیں۔ اور روزی بھی اپنے سفید اور حسین رنگ روپ کے لیے مشہور تھی۔ جہاں آراء نے اس سے کہا۔ ’’روزی۔ تم بالکل پیلی پڑ گئیں۔ تم نے ان کو چلتا کیا۔ بہت اچھا کیا۔ اب کیوں کلس رہی ہو؟ سوچو۔ تم میں اتنی ہمت ہے کہ انکار کردو مگر جب میری اس طرح شادی طے کی جائے گی تو میں سر جھکا کر ہاں کردوں گی‘‘۔

’’تمہاری شادی۔ جہاں آراء…؟‘‘ روزی نے پوچھا۔
اچانک جہاں آراء گائو تکیہ میں منہ چھپا کر رونے لگی۔

’’جینرس کرائسٹ… تم کو کیا ہوگیا جہاں آراء…‘‘ روزی نے گھبرا کر کہا۔

’’کچھ بھی تو نہیں‘‘۔ جہاں آراء نے آنسو پوچھ کر کہا۔ اور سیدھی ہو بیٹھی۔

روزی نے پہلی بار جہاں آراء کو تعجب سے دیکھا۔ یہ خوش قسمت، باعزت، پردہ نشین رئیس زادی جو بیرونی دنیا کے خطروں اور مصیبتوں سے محفوظ و مامون اپنی محل سرا میں آرام سے بیٹھی ہے۔ اسے کیا فکر ہے، صرف یہی کہ نہ جانے کیسے آدمی سے شادی ہوگی۔ ساری پردہ نشین لڑکیوں کا محض یہی ایک مسئلہ تھا۔ جہاں آراء، روزی اور دیپالی دونوں سے بڑی تھی۔ اور روزی کو یاد آیا۔ پچھلے سال ایک مرتبہ ماما کہہ رہی تھیں۔ بیگم قمرالزماں اس فکر میں گھلی جارہی ہیں کہ جہاں آراء چوبیس سال کی ہوگئی۔ اپنے ہم پلہ رئوسار کے لڑکے جاہل اور نکمے ہیں۔ متوسط طبقے میں بیاہ دینے سے ناک کٹ جائے گی۔ اس کے علاوہ جہاں آراء کی شادی کے سلسلے میں اور کیا مسائل تھے۔ ان کا ذکر بیگم قمرالزماں نے مسز بنرجی سے نہیں کیا تھا۔ خود جہاں آراء نے اپنے نجی معاملات کے بارے میں اپنی سہیلیوں سے آج تک کوئی تذکرہ نہیں کیا تھا۔ جہاں آراء کی اچھی خاصی شکل تھی گو وہ دیپالی کی طرح دلکش اور روزی کی طرح گوری نہ تھی۔ لیکن وہ سمجھ دار، حساس اور خاموش طبیعت لڑکی تھی۔ اس کا ایک بڑا بھائی اور دو چھوٹی بہنیں تھیں لیکن وہ ان سب سے مختلف اور علیحدہ معلوم ہوتی تھی۔

روزی نے آج تک جہاں آراء کی ذاتی زندگی کے متعلق نہ سوچا تھا۔ اسے اور دیپالی کو کالج کے ڈراموں اور اب سیاسی مسائل ہی سے فرصت نہیں تھی۔ ہم سب اپنی اپنی دلچسپیوں اور اپنے آئیڈیلز کے سلسلے میں کتنے خود غرض ہیں۔ روزی کو اس وقت پہلی بار خیال آیا۔ اس نے دوبارہ جہاں آراء پر نظر ڈالی، جو اپنی شاندار خواب گاہ میں مسند پر نیم دراز پھر چپکے چپکے رو رہی تھی۔

’’جہاں آراء…‘‘ روزی نے اُلجھن سے کہا۔ وہ پچھلے چند مہینوں میں بڑی ہوگئی تھی اور خود کو بوڑھی عورت سمجھنے لگی تھی۔ چند ماہ قبل اگر وہ جہاں آراء کو اس طرح روتے دیکھ لیتی تو فیوڈل رومینٹک ہیروئن، کہہ کر کس کس طرح اسے نہ چڑاتی۔

پھر روزی نے سوچا۔ اور دیپالی خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس سولیڈرٹی موجود ہے۔ جو ہمارے ذاتی اور جذباتی مسائل سلجھانے میں ہماری مدد کرے گی۔ مگر بے چاری جہاں آراء، واقعہ یہ ہے کہ اپنے جاگیری مذہبی رجعت پسند تمدنی حصار میں قید ہے۔ اور اسے سہارا دینے والا کوئی نہیں۔ نہ یہ کچھ سمجھنا چاہتی ہے۔

پھر جہاں آراء مسند سے ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی۔ اپنی جامدانی کی ساری کے پلّو کو ایک بازو پر لپٹتے ہوئے اس نے تیوری پر بل ڈال کر کہا۔ ’’روزی… ذرا اپنی صورت دیکھ آئینے میں۔ اتنے دنوں میں ایسی زرد پڑ گئیں تو ابھی سے سوچ لو کہ کس حد تک بغاوت کروگی؟‘‘۔

’’سولیڈرٹی…‘‘ روزی کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’وہ کس بلا کا نام ہے‘‘۔ جہاں آراء نے غصے سے کہا۔ پھر اس نے ملازمہ کو چائے لانے کے لیے آواز دی۔
’’میں نے سولیڈرٹی کے لیے خود کو وقف کردیا ہے۔ وہی مجھے سہارا دے گی‘‘۔ روزی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
جہاں آراء نے اسے اچنبھے سے دیکھا۔
’’تم کو کچھ معلوم نہیں جہاں آراء بیگم کہ دنیا میں کیا ہونے والا ہے‘‘۔ روزی نے اب ذرا باہمت آواز میں کہا۔
’’تمہیں معلوم ہے؟‘‘ جہاں آراء نے سوال کیا۔
روزی خاموش ہوگئی۔
مالا نقرئی کشتی میں چائے لے کر حاضر ہوئی۔ جہاں آراء کی چھوٹی بہنیں انجم آراء اور اختر آراء شور مچاتی اندر آگئیں۔ جہاں آراء فوراً ہنس ہنس کے اور مصنوعی بشاشت سے ان کے ساتھ باتیں کرنے لگی۔ روزی چپ چاپ کشتی کے گنگا جمنی نقش و نگار کو دیکھتی رہی۔
’’اور سنائو روزی‘‘۔ جہاں آراء نے چائے بنا کر اسے دیتے ہوئے کہا۔ ’’تمہاری شاگرد اور مستقبل کی مشہور رقاصہ یاسمین مجید کے کیا احوال ہیں‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ