رمضان کریم اور اہل فلسطین

277

اللہ تعالیٰ کا مہینہ رمضان سایہ فگن ہے۔ یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے جس میں نیکیوں کی پنیری لگائی جاتی ہے جسم و روح میں، پھر آبیاری کی جاتی ہے نیت و عمل سے۔ تبدیلی آپ کے اندر تناور درخت بنتی ہے جو حضرت آدمؑ کے قول و فعل میں نظر آتی ہے۔ جس کی خوشبو ہواؤں کو مہکا دیتی ہے۔ روشنی درو دیوار پر سورج کے طلوع ہونے سے پہلے تہجد وسحر میں پھیل جاتی ہے۔ اس کی ساعتیں رحمتوں، مغفرتوں اور عذاب سے بچنے کی خوش خبری کا پیغام ہوتی ہیں۔

نیکیاں نشوونما پاتی اور پھلتی پھولتی ہیں جن کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ نفل عبادت کا ثواب فرض، اور فرض کا ہزار گنا ہے۔ مسند احمد سے روایت ہے، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم پر رمضان آگیا ہے، جو ایک مبارک مہینہ ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینے کو تمام مہینوں میں افضل اور بابرکت قرار دیا ہے جس میں اپنا پاک کلام قرآن مجید نازل کیا۔ لیلۃالقدر‘ جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ دن میں روزہ، رات میں قیام، مستقل مغفرت ورحمت ہے۔

غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کو برباد ہوجانے کے برابر قرار دیا جو رمضان المبارک میں مغفرت حاصل نہ کرسکے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔‘‘ اس ماہ شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اور ’’باب ریان‘‘ روزہ داروں کے لیے ہے جو جنت میں کھول دیا جاتا ہے اور قیامت میں روزہ دار اس سے داخل ہوں گے۔

حدیث ہے ’’بے شک ہم نے روزے تم پر فرض کیے جس طرح تم سے پہلی قوموں پر، تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘

روزے کا مقصد نفس پر قابو اور تقویٰ کا حصول ہے ۔ مسلمان کا روزہ صرف کھانے پینے کو ترک کرنا نہیں بلکہ اس میں سر سے پاؤں تک کے تمام اعضا اور حلال اشیا کا استعمال بھی شامل ہے۔ اس حدیث کی پوری اصطلاح ہے کہ ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘

اور پوری اخلاقیات اس میں ہے: روح کی بیماریاں جھوٹ، دھوکہ، فریب، کینہ، غصہ، حسد، بغض، چغلی اور دوسروں میں برائیاں تلاش کرنا۔ گالی گلوچ اور لڑنا منع ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’روزہ اور قرآن بندے کی شفاعت کرتے ہیں۔‘‘

اِس سال کا رمضان المبارک اُمتِ مسلمہ کے لیے رنج و الم کا ہے کہ اسرائیل اکتوبر سے غزہ اور مسجد اقصیٰ پر قابض ہے، فلسطینیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ اتنی بمباری کررہا اور بارود برسا رہا ہے کہ تھمنے کا نام نہیں۔ تیس ہزار سے زیادہ لوگوںٖ کو شہید، گھروں کو تباہ، کتنے ہی خاندانوں کو قتل اور پورے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ اجتماعی قبروں کے علاوہ ملبے میں دبے شہدا کی لاشیں ہیں، بھوک پیاس سے نڈھال لوگ گھاس اور جانوروں کے چارے کی روٹیاں کھا رہے ہیں، ظلم و ستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے فلسطین پر۔ دستر خوان پر بیٹھتے ہی بھوکے پیاسے فلسطینی بچوں کے چہرے نظر آتے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور اسپتالوں پر اسرائیل امریکا کے اسلحے کے تعاون سے تباہی مچارہا ہے۔ علاج کے لیے دوائی اور خوراک کے ٹرک فلسطین میں داخل نہیں ہونے دیے جارہے۔

یہودی فوج جو 72 سال سے قابض ہے، اب مسجد اقصیٰ میں رمضان میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں۔ وہاں بچے یتیم، عورتیں بیوہ ہوچکی ہیں۔ کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں۔ عرب اور مسلم سربراہان امریکا کے غلام بنے خاموش تماشائی ہیں اور عیش وعشرت میں مگن ہیں، کوئی ان کے حق میں بولنے کی جسارت نہیں کررہا۔ وہ تنہا لڑ رہے ہیں۔ اِس سال فلسطین کا ذرہ ذرہ تکلیف میں ہے، مگر مسلم حکمران لب بستہ ہیں۔ غلامی اور خودغرضی نے مسلمانوں کو بے حس اور بزدل بنادیا ہے۔

اسرائیل کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج ہورہا ہے مگر اب اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ رمضان کے بابرکت مہینے میں سحر و افطار میں خصوصی دعائیں غزہ کے بچوں اور لوگوں کے لیے کی جارہی ہیں۔ اللہ کرے جنگ بندی کا معاہدہ ہوجائے، آمین۔
اسرائیل آتش و آہن برسا رہا ہے۔ وہ فلسطینیوں کی نسل کُشی کا مصمم ارادہ کرچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ فلسطینیوں کے غیب سے مدد فرما، ان کو پانی اور کھانا عطا فرما، اپنے فضل سے ان کی پشت پناہی فرما، آمین۔

حصہ