شادی کی تقریب میں ہر لڑکی فائزہ کو اس لحاظ سے بہت خوش قسمت سمجھ رہی تھی کہ کلے (اکیلے) گھر جارہی ہے جہاں نہ ساس ہے نہ سسر۔ ایک ہی نند ہے وہ بھی باہر کے ملک میں اپنے شوہر اور بچوں سمیت رہ رہی ہے۔ کبھی سال دو سال کے بعد ہی فائزہ کے سر پر سوار ہوگی وہ بھی چند روز یا چند ہفتوں کے لیے۔ امریکا سے آئے دن آنا کوئی آسان ہے بھلا؟
اور ان کی باتیں سنتے ہوئے میں حیران ہورہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ بھلا فائزہ کا پُرتپاک استقبال کیسے ہوگا اگر اس کی ساس ہی نہیں ہے تو! اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں سسرال کا ذکر کیا، اور ظاہر ہے سسرال کسی مجرد چیز کا نام تو نہیں ہے۔ ہر لڑکی یا لڑکے کا نکاح ہوگا۔ سسرال بنے گا۔ رشتے داری کا احترام ہوگا تو اس پُرسکون فضا تلے بچوں کی پیدائش، تعلیم و تربیت سب کچھ آسانی اور خوب صورتی سے ہوگا۔ ان ہی سے خون کے رشتے بنتے ہیں جنہیں رحم کے رشتے کہا جاتا ہے، اور صلۂ رحمی ایسے تمام رشتوں کو خلوصِ دل سے نبھانے کا نام ہے حتیٰ کہ اگر کوئی ہم سے قطع کلامی کردے… ہمارے حقوق مارنے پر بھی ہمیں اس سے جڑنے کا حکم ہے۔
مگر آج کل تو معاملہ بہت ہی عجیب ہوگیا ہے۔ وہی بات کہ ’’تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا‘‘
سچ تو یہ ہے کہ آج برائی، اچھائی بن گئی ہے اور اچھائی کو برائی کے طور پر لیا جاتا ہے۔ رشتے داری میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ ذرا ذرا سی بات کو اَنا کا مسئلہ بناکر بول چال بند کردی جاتی ہے۔ ایک حدیثِ مبارکہ کے مطابق قیامت کے قریب بے گانے رشتے داروں سے زیادہ اچھے ہوجائیں گے۔ شاید وہ وقت آچکا ہے۔ مگر ہمیں تو صلۂ رحمی کا حکم دیا گیا ہے پھر ہم ان رشتوں سے کیسے غافل رہ سکتے ہیں؟ اور کیسے ان سے قطع تعلق کرکے چین کی نیند سوسکتے ہیں؟ اپنا اپنا اور غیر غیر۔ پہلے لوگوں نے بہت سوچ سمجھ کر محاورے بنائے ہوئے ہیں۔
آپ کبھی قطع تعلقی کے بعد صلح صفائی کرکے اپنے کسی رشتے دار کے پاس بیٹھ کر تو دیکھیں، ایسا سکون، ایسا چین آپ کے رگ و پے میں سرایت کر جائے گا جو بیان سے باہر ہے۔
رشتے داری میں آج جو فاصلے آن پڑے ہیں… جو دراڑیں پڑتی جا رہی ہیں اور بڑھتی جارہی ہیں ہمارے خیال میں ان کی وجوہات کوئی ایسا مسئلہ فیثا غوث نہیں جو حل نہ ہوسکیں۔ ہمارے رویّے ہی ہیں، ہمارے حالات ہی ہیں، ہماری اپنی سوچ ہی تو ہے جو ہمارے اعمال کی محرک ہے۔
حالات کا شکوہ کیا کیجیے، حالات نے کس کا ساتھ دیا
تم خود کو بدل کے دیکھو ذرا، حالات بدلتے جائیں گے
ذرا دیر کے لیے اسلامی، اخلاقی تعلیمات پر ایک نظر ڈالیے۔ کیا کیا پیاری نصیحت کی گئی ہے حقوق العباد کے لیے۔ یہ ہمارے نفس کی بخیلی ہے جو ہم دوسروں اور خاص کر رشتے داروں سے روا رکھتے ہیں۔ آپ تحائف دے کر تو دیکھیے، آپ کی طرف سے اگلے کا دل کیسی محبت سے بھر جائے گا۔ آپ کوشش کرکے چند ہفتے ضبطِ نفس اپنائیے کیسے عمدہ نتائج نکلیں گے آپ خود دیکھیں گے۔
یہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے، نہ جانے کتنے رمضان ہماری زندگی میں آکر چلے گئے مگر روزے رکھنے کے باوجود بھی اپنے اندر صبر پیدا نہ ہوسکا۔ کسی ناگوار بات پر ساس، سسر یا کسی اور رشتے دار کی ذرا چبھتی ہوئی بات پر صبر تو کرکے دیکھیے۔ اللہ کی ذات کو اپنے قریب محسوس کیجیے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ پھر دیکھیے ناگوار بات کرنے والا حیرت سے آپ کو دیکھے گا یا آپ کے بارے میں سوچے گا۔ ایک دوسرے سے مقابلہ بازی بھی رشتوں کو کمزور کرتی ہے، حسد اور فکر کی آگ بھڑکاتی ہے۔ مقابلہ نیکی میں سبقت حاصل کرنے میں کیجیے… خاموش رہنے میں کیجیے۔ شوہر، ساس، سسر یا دوسرے کسی بڑے کی یا بیمار کی خدمت کرنے میں کیجیے تو بات بھی بنے۔ یہ ذاتی آرائش، گھر کی زیبائش، دوسروں کا طرزِ زندگی… اس میں مقابلہ کیا کرنا! آپ کے اخلاق اچھے ہیں، گھر سادہ مگر آنے والے کے لیے آرام دہ اور ہر دم کھلا ہے، گھر والوں کے دل میں خلوص، پیار اور محبت ہے تو یقین جانیے بڑے سے بڑے محل بھی آپ کے اس گھر اور مہمان نوازی، بے تکلف مہمان نوازی کے آگے ماند ہیں جہاں مہمان کو محض تکلف، بناوٹ اور سجاوٹ ہی ملے۔
ہر کسی کو اپنے رب، قادرِ مطلق کی تخلیق سمجھ کر سراہیں، عیب نہ نکالیں، غیبت اور حسد نہ کریں۔ اسلامی اخلاق اپنائیں تو ہر ایک… کیا رشتے دار، کیا عام ملنے جلنے والا… ہر کوئی آپ کے حسنِِ اخلاق کا اسیر ہوجائے گا۔ قطع رحمی کرنے والوں کو پہل کرکے منائیے، اجر کمائیے۔ ساس، سسر ہمارے دوسرے والدین ہیں، ان کی خدمت خوش دلی سے کیجیے۔ رشتوں کو، ان پیارے رشتوں کو اخلاص و محبت سے گہرا کیجیے۔ انہیں تنگ نظری کے نفس کی بھینٹ نہ چڑھایئے۔ یہ زندگی عارضی، یہ دنیا عارضی… اس کی چمک دمک عارضی… پھر اس کے پیچھے ہم اپنی آخرت کیوں کھوٹی کریں۔ بلند ہوجائیں ان چھوٹی چھوٹی رنجشوں سے، عارضی خود فریبیوں سے۔ ہماری نظر حسنِ آخرت پر ہونی چاہیے، جنت پر، جنت الفردوس پر۔
کبھی بھول کر بھی کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو کوئی تم سے کرتا، تمہیں ناگوار ہوتا