نقش

115

رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوچکا تھا، اسکول کی چھٹیاں ہونے میں دو دن باقی تھے۔ سامعہ کے جی ٹو کی کلاس ٹیچر تھی، وہ پرنسپل کی ہدایت پر بچوں کی ڈائری میں نوٹس لکھ رہی تھی کہ سب بچے اسکول کے آخری دن اپنے والد کے ہمراہ تشریف لائیں۔ اسکول انتظامیہ نے عید پر سیلاب زدگان کو نئے کپڑے اور عیدی بھیجنے کا ارادہ کیا تھا، اس سلسلے میں بچوں کے والدین کا تعاون درکار تھا۔

سامعہ نے دوسری رو کی پہلی کرسی پر بیٹھے سرخ و سفید گول مٹول سے نوفل کی ڈائری لیتے ہوئے ہلکے سے اس کا گال کھینچا اور اسے تاکید کی کہ پرسوں اپنے ابو کے ساتھ اسکول آنا۔

’’میرے تو ابو ہی نہیں ہیں۔‘‘ نوفل نے منہ لٹکا کے کہا۔
سامعہ کے قلم چلاتے ہاتھ رک گئے۔’’اچھا تو اپنی مما کے ساتھ آجانا۔‘‘

’’میری مما کہیں نہیں جاتیں، وہ عدت میں بیٹھی ہیں۔‘‘

نوفل کی بات پہ اس کی نظروں میں حجاب میں ملبوس وہ کم عمر چلبلی سی لڑکی گھوم گئی جو ہر پی ٹی ایم میں نوفل کی پڑھائی کی طرف سے پریشان رہتی تھی۔ شافعہ نام تھا اُس کا، اور وہ سامعہ سے خاصی بے تکلف تھی۔ اس کا دل دکھ سے بھر گیا۔ اس نے نوٹس لکھے بغیر ڈائری واپس کردی۔

عید کے ایک ماہ بعد پی ٹی ایم میں جب سامعہ نکھری، کھلکھلاتی شافعہ سے ملی تو اس کو حیرت ہوئی۔ اسے لگا تھا کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد وہ لڑکی سنجیدہ ہوچکی ہوگی۔ اس نے تعزیت کرنے کے لیے کتنے ہی جملے سوچ رکھے تھے پَر اب اس کو یوں پہلے کی طرح نارمل دیکھ کر کچھ جھجک محسوس ہوئی، پھر بھی ہمت کرکے کہہ ہی دیا ’’مجھے آپ کے ہسبینڈ کے بارے میں سن کے بہت افسوس ہوا۔‘‘

’’میرے ہسبینڈ کے بارے میں کیا سن لیا مس؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

’’نوفل نے بتایا تھا کہ ان کی وفات ہوگئی اور آپ…‘‘

جملہ پورا بھی نہ ہوا تھا کہ وہ تلملا کے کھڑی ہوگئی۔ ’’کیسی باتیں کررہی ہیں آپ…؟ اللہ میرے شوہر کو صحت و تندرستی دے۔‘‘ اس کے تیز آواز میں بولنے سے اردگرد کی خواتین بھی متوجہ ہوگئیں۔ سامعہ شرمندہ ہوگئی، مگر یہ اتنی چھوٹی بات تو نہ تھی کہ وہ اپنی غلط فہمی سمجھ کے نظرانداز کردیتی۔ نوفل نے صاف اور واضح لفظوں میں بتایا تھا۔ آخر اتنا چھوٹا بچہ اتنا بڑا جھوٹ کیوں بول رہا تھا! شافعہ کے تیور بگڑ گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ کسی سے اُس کی شکایت کرتی سامعہ اس کو لے کر خود ہی پرنسپل کے کمرے میں آگئی۔ میڈم نے پوری بات سامعہ کی زبانی سن کر سوالیہ نظروں سے شافعہ کی جانب دیکھا۔

’’میرا نوفل کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ مجھ سے زیادہ میری ساس نوفل کو اچھے برے کی تمیز سکھاتی رہتی ہیں۔ میں اور نوفل کے پاپا بھی اس کی چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ ہمارے گھر کا اکلوتا بچہ ہے، سب کی آنکھ کا تارا ہے۔ اگر اس میں جھوٹ بولنے کی عادت پنپ رہی ہوتی تو ہمیں فوراً پتا چل جاتا، اور اتنی بڑی بات بچہ اپنی طرف سے گڑھ کے کیسے کہہ سکتا ہے! یقینا مس سامعہ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘

شافعہ کی بات میں دَم تھا مگر مس سامعہ بھی اتنی غیر ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کرسکتی تھیں۔ پرنسپل نے بوا کو بھیج کے کلاس سے نوفل کو بلوایا اور نرمی سے دریافت کیا:

’’کیا آپ نے اپنی ٹیچر کو بتایا تھا کہ آپ کے پاپا کی ڈیتھ ہوگئی؟‘‘

’’نہیں تو…‘‘ بچہ صاف مکر گیا۔

سامعہ روہانسی ہوگئی، اس نے دوبارہ نوفل کو اُس دن کا حوالہ دے کر پوچھا ’’جب میں نے آپ سے کہا تھا کہ اپنے ابو کو لے کے آنا تو کیا آپ نے نہیں کہا تھا کہ میرے ابو نہیں ہیں؟‘‘

’’جی مس! میرے تو ابو ہیں ہی نہیں، ہمارے گھر میں صرف پاپا اور دادا جان رہتے ہیں، کوئی ابو تو نہیں رہتے۔‘‘ نوفل کے معصومیت سے کہنے پر سامعہ کی اٹکی سانس بحال ہوئی۔ میڈم اور شافعہ بھی معاملہ سمجھ کے مسکرادیں۔

’’اچھا تو آپ نے جھوٹ کیوں کہا کہ آپ کی مما عدت میں بیٹھی ہیں۔‘‘ سامعہ نے جلدی سے دوسرا سوال کیا۔

’’نہیں، میں نے جھوٹ تو نہیں بولا۔ مما سچ مچ عدت میں بیٹھی تھیں، پورے ٹین ڈیز کے لیے چھوٹے والے کمرے میں شفٹ ہوگئی تھیں، نہ اپنے کمرے میں جاتی تھیں نہ کچن میں، مما کا کھانا بھی چھوٹی پھپھو دروازے سے دیتی تھیں۔ پھپھو نے ہی مجھے بتایا تھا کہ مما عدت میں بیٹھی ہیں، چاند رات کو عدت سے نکلیں گی تو سب سے ملیں گی… ہے نا مما؟‘‘ نوفل نے خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے جلدی جلدی بول کے ماں سے تائید چاہی، تو شافعہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔ مزید وضاحت کی ضرورت تو سامعہ اور میڈم کو بھی نہیں رہی تھی، ان کی سمجھ میں آگیا تھا کہ جدید دور کی انگلش میڈیم لڑکی اپنی لاعلمی میں بچے کو اعتکاف میں بیٹھنے کو عدت میں بیٹھنا سکھا چکی تھی۔

حصہ