الحمدللہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہو چکا ہے‘ اس عشرے کے ساتھ وہ عظیم الشان رات بھی آپہنچی ہے جو اپنی اہمیت اور فضیلت کی وجہ سے ’’شب قدر‘‘ کہلاتی ہے۔ قرآن میں اسے ہزاروں مہینوں سے افضل کہا گیا ہے کیوں کہ قرآن پاک لوحِ محفوظ سے آسمانی دنیا پر اسی رات میں اتراہے۔ یہی ایک بات اس رات کی فضیلت کے لیے کافی تھی کہ قرآن پاک اس رات میں نازل ہوا اور اس رات کو فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی سربراہی میں اترتے ہیں اور جس شخص کو ذکر میں مشغول دیکھتے ہیں اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ اس رات کی فضیلت قرآن کے نزول کے علاوہ ملائکہ کی پیدائش کی وجہ سے بھی ہے۔ اسی رات حضرت آدمؑ کاق مادہ جمع ہونا شروع ہوا‘ اسی رات میں جنت میں درخت لگائے گئے۔ ایک روایت کے مطابق اسی رات کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے‘ اسی رات کو بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی۔
لیلۃ القدر سراپا سلام ہے یعنی تمام رات ملائکہ کی طرف سے مومنین پر سلامتی نزل ہوتی رہتی ہے۔ فرشتوں کی ایک جماعت جاتی ہے دوسری آجاتی ہے۔ یہ رات امن و سلامتی کی رات ہے اور یہ برکات طلوع فجرتک رہتی ہیں۔ بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث ہے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لیے کھڑا ہوا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ یعنی عبادت اخلاص کے ساتھ محض اللہ کی رضا و ثواب کے حصول کے لیے کی جائے کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اے ابنِ آدم تو میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا میں تیرے سینے کو غنا سے بھر دوں گا اور تیرے فقر کو بند کر دوں گا۔ ورنہ تیرے سینے کو مشاغل سے بھر دوں گا اور فقر زائل نہیں ہوگا۔
آپؐ کا ارشاد ہے کہ شب قدر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ آتے ہیں اور اس شخص کے لیے جو کھڑے یا بیٹھے اللہ کا ذکر کر رہا ہے اور عبادت میں مشغول ہے‘ دعائے رحمت کرتے ہیں اور جب عیدالفطر کا دن ہوتاہے تو حق تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں کی عبادت پر فخر فرماتے ہیں۔ (اس لیے کہ انہوں نے انسان کی پیدائش پر اعتراض کیا تھا) اور ان سے دریافت فرماتے ہیںکہ اے فرشتوں اس مزدور کا جو اپنی خدمت پوری پوری ادا کرے کیا بدلہ ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی اجرت پوری پوری دے دی جائے۔ تو ارشاد ہوتا ہے کہ فرشتو! میرے غلاموں نے میری‘ باندیوں نے میرے فریضوںکو پورا کر دیا۔ پھر دعاکے ساتھ چلتے ہوئے عید گاہ کی طرف جاتے ہیں۔ میری عزت کی قسم‘ میرے جلال کی قسم‘ میری بخشش کی قسم‘ میرے علو شان کی قسم‘ میری بلندی ٔ مرتبے کی قسم ان لوگوںکی دعا ضرور قبول کروںگا۔ پھر ان لوگوں کو خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جائو تمہارے گناہ معاف کردیے ہیں اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا ہے۔ پس یہ لوگ عید گاہ سے ایسے حال میں لوٹتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔‘‘
شب قدر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام تمام فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں کہ ہر ذکر و ہر عبادت میں مشغول شخص کے گھر جائیں اور ان سے مصافحہ کریں۔ فرشتے حضرت جبرائیلؑ کے کہنے سے روانہ ہو جاتے ہیں اور کوئی گھر چھوٹا یا بڑا‘ جنگل یا کشتی ایسی نہیں ہوتی جس میں کوئی مومن ہو اور وہ فرشتے مصافحہ کرنے کے لیے وہاں نہ جاتے ہوں لیکن ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا موجود ہو۔
صحیح بخاری میںحضرت عائشہؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں ’’لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘
حضرت عبادہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’رمضان کی آخری عشرہ کی طاقت راتوںمیں ہے وہ 29, 27, 25, 23,21 یا رمضان کی آخری رات ہے۔ جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے اس رات میںعبادت کرے اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اس رات کی علامتیں مخصوص ہیںکہ رات کھلی ہوئی چمک دار ہوتی ہے‘ صاف شفاف نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی‘ بلکہ معتدل گویا کہاس میں انوار کی کثرت کی وجہ سے چاند کھلا ہوا ہے۔ اس رات میں صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے نیز اس کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعد کی صبح کو آفتاب بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے اب بالکل ہموار تکیہ کی طرح ہوتا ہے جیسا کہ چودھویں رات کا چاند‘ اللہ جل شانہ نے اس دن کے آفتاب کے طلوع کے وقت شیطان کو اس کے ساتھ نکلنے سے روک دیا۔ (برخلاف اوردنوں کے طلوع آفتاب کے وقت شیطان کا اس جگہ ظہور ہوتا ہے۔)
جن لوگوں کو اس رات کی دولت نصیب ہوتی ہے بالخصوص اس رات کے بعد جب صبح کو آفتاب نکلتا ہے تو بغیر شعاع کے نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی علامتی علامات پائی جاتی ہیں۔ عبدہؓ بن ابی لبابہ کہتے ہیںکہ میں نے رمضان کی ستائیس شب کو سمندر کا پانی چکھا تو بالکل میٹھا تھا۔ ایوبؓ بن خالد کہتے ہیںکہ مجھے نہانے کی ضرورت ہوگئی میں نے سمندر کے پانی سے غسل کیا تو بالکل میٹھا تھا اور یہ 23 ویںشب کا قصہ ہے۔
حضرت سفیان ثوریؒ کہتے ہیںکہ شب قدر میں دعا میں مشغول رہنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ’’اے اللہ تو بے شک معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے‘ پس تو مجھے بھی معاف کردے۔‘‘
شب قدر کی جستجو رمضان بھر کرنی چاہیے۔ اگر یہ مشکل ہو تو عشرہ آخر کو غنیمت سمجھا جائے اتنا بھی نہ ہو سکے تو آخری عشرے کی طاق راتوں کوکسی طرح ہاتھ سے نہیںچھوڑنا چاہیے۔ اگر خدانخواستہ یہ بھی نہ ہو تو کم از کم ستائیسویں شب کو تو بہرحال غنیمت سمجھنا چاہیے۔ اگر کسی خوش نصیب کو یہ رات مل جائے تو یہ دنیا بھر کی نعمتوں سے بڑھ کر نعمت ہے۔ اس عشرے میں غزہ کے مسلمانوں کے لیے خصوصی دعاکرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ میں غیرت ایمانی عطا فرمائے اوروہ فلسطین کے مسلمانوں کے لیے بازو بن سکیں۔
تمام امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے کہ جسم کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ یہ کیسا درد ہے کہ تمام امت مسلمہ بے غیرتی کی چادر اوڑھ کر سو گئی ہے۔ بتیس ہزار مسلمان شہدا کی ارواح پکار پکار کر کہہ رہی ہیں المدد یا اللہ المدد۔ ہم مسلمانوں میں اس رمضان کی برکت سے شعور غیرت اور محبت تڑپ پیدا کر دے۔ ان سب کو یکجا کر دے اور فلسطین کے مسلمانوںکو ظالموں کے پنجوں سے آزاد کر دے‘ آمین‘ ثمہ آمین۔ اس شب قدر صرف یہی دعا مانگیں‘ ان شاء اللہ قبول ہوگی۔