غیر جانبداری باطل کی حمایت ہے

381

اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے:’’ہم نے ہر چیز کو نر اور مادہ کی صورت جوڑے کی شکل میں پیدا کیا۔‘‘ رات دن، سردی گرمی، تلخ شیریں، زمین و آسمان، صبح وشام، مشرق و مغرب، میٹھا اور کھارا پانی۔

زمین کی مٹی کو زرخیز اور پتھریلی بنایا‘ اُس کے دونوں حصوں میں کاشت ہوتی ہے۔ مگر زمین کا ایک بڑا حصہ صحرائی اور بنجر بھی ہے۔ صحرا میں تو کہیں کہیں نخلستان بھی ہوتے ہیں مگر بنجر زمین پر کاشت نہیں ہوتی۔ موضوع انسانوں میں غیر جانب دار طبقہ ہے۔ مردوں میں ایک، جو اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور جو عورت اس صفت سے عاری ہوتی ہے اسے بانجھ کہتے ہیں۔ مگر اللہ انسان کو مخنث اور مخنثات بھی پیدا کرتا ہے۔ البتہ جدید دور میں تبدیلیِ جنس کی وبا بھی موجود ہے۔

دراصل یہ کشمکشِ حق و باطل ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ جو خود کو غیر جانب دار بنا لیتے ہیں دراصل وہ تیسری جنس سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ نرے دنیا پرست، بزدل اور بے حس طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انسان کو اللہ نے دل دیا ہے جو دکھ، درد، خوشی اور راحت محسوس کرتا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے چاروں طرف خلقِ خدا پر ظلم و جبر ہو، ناانصافی اور استحصال ہو، اللہ کی نافرمانی ہورہی ہو، انسانی قدروں کی پامالی ہو اور وہ ان تمام حالات کو بہ چشمِ خود دیکھ کر تماشائی بنا رہے!

مجھے اس موقع پر برسوں پہلے لاہور کے رسالہ ’’آئین‘‘ میں شائع ہونے والا غیر جانب داری پر مضمون میسر ہے، اس کو من و عن تحریر کررہا ہوں جو قارئین کے سامنے اس غیر جانب داری کا پردہ چاک کردے گا:

’’اگر آپ غیر جانب دار ہیں تو غلطی پر ہیں۔ غیر جانب دار ہمیشہ غلطی پر ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ حق کے ساتھ نہیں ہوتے۔ غیر جانب داری نہ دین کا حصہ ہے نہ عاقبت کی راہ۔ نہ نجات کا پروانہ، نہ سلامتی کی سند۔ نہ ڈھال نہ تلوار، نہ عمل نہ ردعمل، نہ راستہ نہ منزل، نہ حل نہ علاج، نہ کل نہ آج۔

غیر جانب داری بے حس ہونے کا مظاہرہ، لاتعلق ہونے کا اعلان، بے بہرہ ہونے کا ثبوت، ایمان کی ضد، ایقان کی نفی۔ یوں باطل کی پہلی فتح اور ابلیس کی آخری چال کہ جو غیر جانب دار ہوا وہ اس کے سامنے سے ہٹ گیا، اور وہی تو تماشا بنا جس نے آج تماشائی بننا قبول کیا۔ خود کو خدا پرست کہے اور غیر جانب دار رہے، تو کلمہ کس چیز کا پڑھا، شہادت کس بات کی دی؟ نیکی اور بدی کے درمیان کھلی کشمکش ہو تو غیر جانب داری سے بڑا کوئی فریب نہیں ہوسکتا۔ وہ کشمکش جس کے نتائج سب کے لیے ہوں اس کا وجود بھی سب کے لیے ہوتا ہے۔ کیا کوئی ایسا انسان دیکھا ہے جس کے گھر میں آگ لگی ہو اور وہ غیر جانب دار ہو؟

بستی میں سیلاب کا ریلا داخل ہوتا ہے تو ریت کی دیوار غیر جانب دار ہوتی ہے۔ پشتے اور بند کبھی غیر جانب دار نہیں ہوتے۔ یہ کارزارِ حیات ہے، یہاں صرف موت غیر جانب دار ہے، زندگی نہیں۔ افراد غیر جانب دار ہوں تو معاشرے پر قہر ٹوٹ پڑتا ہے۔ انسانوں کا وزن حق کے پلڑے میں نہ ہو تو یہ پلڑا بہت اونچا اٹھ جاتا ہے اور نیچے صرف باطل کا پلڑا رہتا ہے۔ تب راج بدی کا ہوتا ہے اور تاج ظالم پہنتے ہیں۔ دیکھنے والوں کے لیے یہ گھڑی قیامت کی گھڑی ہوتی ہے، جس کا آغاز فرد کی غیر جانب داری سے ہوتا ہے اور تکمیل معاشرے کی تذلیل پر ہوتی ہے۔ غیر جانب داری شروع سے آخر تک صرف اور صرف خسارے کا سودا ہے۔ جس کے وجود سے بدی کو کوئی خطرہ نہ ہو اُس کے حق میں نیکی کیا گواہی دے گی! یہ بات اللہ کو قطعی نا پسند ہے۔‘‘

اب ہم ’’قصص القرآن‘‘ سے غیر جانب دار لوگوں کا حشر دیکھتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں اصحابِ سبت سنیچر والوں کا ذکر ہے جو ممانعت کے باوجود ہفتے کے دن زیادہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے جمعہ کے دن ساحل سمندر پر بڑے بڑے گڑھے کھود دیا کرتے تھے اور چڑھتے سمندر کے پانی سے جب مچھلیاں اس میں پھنس جاتیں تو سنیچر کے دن نکال لیتے اور یہ جواز پیش کرتے کہ ہم نے شکار نہیں کیا۔ نیک لوگوں میں ایک گروہ تھا جو اُن کو منع کرتا کہ ایسا نہ کرو، یہ اللہ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ دوسرے نیک لوگ غیر جانب دار ہو گئے۔ اللہ نے نافرمان اور غیر جانب دار نیکو کاروں دونوں کو سور اور بندر بناکر ہلاک کردیا۔ برائی پھیلتی ہی ہے غیر جانب داری سے، کیوں کہ یہ لوگ (غیر جانب دار) اکثریت میں ہوتے ہیں۔ ظالم تو قلیل تعداد میں ہوتے ہیں مگر غیر جانب داروں کی وجہ سے ان کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے۔اگر نیکی بے زبان اور شرافت معذور ہوجائے تو معاشرے پر رذالت غالب آجاتی ہے۔

آج کی دنیا جدید گلوبل ویلیج میں بدل چکی ہے، بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ پوری دنیا انسان کی ہتھیلیوں پر موجود ہے۔ ایک فرد جدید ترین ٹیکنالوجی اور اپنے موبائل فون کے ذریعے پوری دنیا کو دیکھ رہا ہے۔ شرق تا غرب لمحوں میں ایک دوسرے سے باخبر ہوجاتا ہے۔ کوئی واقعہ، کوئی حادثہ پلک جھپکتے دنیا کا ہر انسان دیکھ اور سن سکتا ہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل کی درندگی اور غزہ پر ہونے والے مظالم پر اس کا دل نہ پگھلے اور وہ غیر جانب دار رہے، اس ظلم کے خلاف آواز نہ بلند کرے؟ اگر اقوام متحدہ، امریکا اور یورپی یونین کے ممالک اسرائیل کے حامی و مددگار ہیں تو کیا ہوا، عوام کے دلوں میں تو ابھی انسانیت زندہ ہے۔ تبھی تو لاکھوں کی تعداد میں مرد و عورت، بچے، بوڑھے، جوان ان مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ 57 مسلم ممالک کے حکمران یا تو غیر جانب دار ہوگئے ہیں یا پھر بے غیرت، بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ عرب ممالک درِپردہ اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔ اس حالت میں ان کو مسلمان کہنا تو درکنار، انسان بھی کہنا جائز نہیں ہے۔

بے حسی کا زہر پی کر لوگ کب کے سو چکے
پتھروں کے اس نگر میں آدمی مت ڈھونڈیئے
جب کہ اللہ نے انسان کو دردِ دل کے واسطے پیدا کیا ہے:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو میری اُمت کے معاملات سے دور رہے وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ آپؐ نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا ’’مسلمان جسدِ واحد کی مانند ہے۔‘‘

اس بے حسی اور دنیا پرستی نے مسلمانوں کو پوری دنیا میں رسوا کردیا ہے۔

ادارۂ اقوام متحدہ جو دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کو امن و سلامتی دینے کے لیے بنایا گیا اور انسانی حقوق کی ضمانت کا منشور رکھتا ہے، یہ امریکا سمیت ویٹو پاور رکھنے والے پانچ بڑے ممالک کے پاؤں کی جوتی ہے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ یہ ادارہ اسرائیل کی لونڈی ہے جس کے قبضے میں عالمی معیشت کی شہ رگ ہے۔ جب مسلمانوں کے خلاف اور غریب ممالک میں یہود و نصاریٰ اور اہلِ ہنود یا بڑی طاقتوں کی جانب سے جارحیت ہوتی ہے تو یہ غیر جانب داری کا مکروہ کردار ادا کرتا ہے۔ چاہے کشمیر ہو یا فلسطین، برما ہو یا شام… سب جگہ یہ جارح قوتوں کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔

ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں 75 کروڑ مسلمان آباد ہیں مگر آج ان جمہوری ملکوں کے انتخابات میں مسلمانوں کی اکثریت اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کرتی جس کی وجہ سے دو مسلم ممالک پاکستان اور بنگلہ دیش میں بدعنوان اور عوام کا استحصال کرنے والے ہی بار بار منتخب ہوکر آجاتے ہیں اور عوام کی معیشت، تعلیم، صحت، عدل و انصاف اور زندگی کی بنیادی ضروریات کے معاملات دن بہ دن بگڑتے چلے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے بے روزگاری اور جرائم میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔ ہندوستان میں بی جے پی کی فسطائیت اور جارحیت جو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو برباد کرنے کے درپے ہے‘ وہ بھی بڑی تعداد کی بے حسی، غیر جانب داری اور آپسی اختلافات کی وجہ سے ہے۔ مسلمان اور نچلی ذاتوں کے ہندو تو چوتھے درجے کے شہری بنادیے گئے ہیں۔ جس کا ذکر جسٹس سچر کمیشن کی رپورٹ میں ہوا تھا۔ اس میں سابقہ ادوار کی کانگریس حکومت کا بھی متعصبانہ اور مجرمانہ کردار رہا ہے۔ بھارت کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرنے کے باوجود وہاں کے عوام کو مسلسل ظلم اور جارحیت کا نشانہ بنارہا ہے۔ اس نے اپنے اِس ’’اٹوٹ انگ‘‘ کے ایک ایک انگ کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ حکمران طبقات چانکیہ پالیسی کے تحت مسائل حل کرنے کے بجائے ہر روز ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیتے ہیں تاکہ عوام روٹی، کپڑا، مکان اور زندگی کی دیگر بنیادی ضروریات میں الجھے رہیں اور یہ چین سے حکمرانی کرتے رہیں۔ اگر کہیں سے کوئی آواز اٹھے تو اس کو لاٹھی گولی سے دبا دیتے ہیں۔

حاکموں نے اک نیا فرمان جاری کر دیا
آج سے آب و ہوا میں تازگی مت ڈھونڈیئے

گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے سے امریکا، برطانیہ اور اس کے حواریوں کی جانب سے پوری مسلم دنیا میں کہیں براہِ راست اور کہیں درپردہ عسکری جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔ افغانستان میں روسی فوجی مداخلت اور اس کی پسپائی کے بعد جس میں پاکستان، عرب دنیا اور امریکی امداد سے مجاہدین کی سرپرستی کی گئی اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ امریکا روس کو شکست دلواکر خود واحد سپر پاور بننا چاہتا تھا۔ یہ ہوا بھی کہ افغانستان سے روسی پسپائی اور روس کا شیرازہ بکھرنے کے بعد امریکا کے بش سینئر نے براہِ راست اعلان کیا کہ اب دنیا کو تہذیبوں کی جنگ کا سامنا ہے جس میں ایک طرف شدت پسند اسلام اور دوسری جانب ترقی پسند دنیا ہوگی اور امریکا اس کی سالاری کرے گا۔ اور دیکھتے دیکھتے نائن الیون کے خودساختہ واقعے کے چند گھنٹے بعد ہی بش سینئر نے Crusade یعنی صلیبی جنگ کا آغاز اور اسامہ بن لادن کے حوالگی کا غیر منصفانہ مطالبہ شروع کردیا اور پوری دنیا کو دھمکی دے ڈالی کہ اس جنگ میں جو امریکا کے ساتھ نہیں وہ امریکا کا دشمن ہے اور امریکا اس کے خلاف بھی حملہ آور ہوگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ افغانستان میں قائم طالبان کی تسلیم شدہ حکومت‘ جو ابھی اپنے پیروں پر کھڑی بھی نہیں ہوسکی تھی‘ پر پوری قوت سے چڑھ دوڑا اور پوری دنیا امریکا کی حمایت میں کھڑی ہوگئی۔ پاکستان امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی بنا اور چند سالوں میں وہ کچھ ہوگیا جس کے تصور سے ہی تاتاریوں کی سفاکی بھی شرما جائے۔ عراق کے خلاف تباہ کن ہتھیاروں کے جھوٹے پروپیگنڈے کے بعد اس پر چڑھائی کی گئی اور یہ ملک لاکھوں مسلمانوں کی ہلاکت کے بعد آج تک خانہ جنگی کا شکار ہے اور امریکا، برطانیہ اس کی تیل کی دولت سے اپنے خزانے بھر رہے ہیں۔ لیبیا، شام، صومالیہ، چیچنیا، داغستان، فلسطین، غزہ کی تباہی، برما میں نہتے مسلمانوں کا قتل عام اور لاکھوں برمی مسلمانوں کی ہجرت اور بنگلہ دیش کے کیمپوں میں ان کی ناقابل برداشت زندگی… ہر جگہ مظلومیت کی ایک ناقابلِ بیان داستان ہے، مگر مسلمان حکمرانوں اور عوام کی وہی مجموعی غیر جانب داری اور بے حسی ہے جس نے ہر طرف تباہی اور بربادی پھیلا دی ہے۔ یہی کہانی سقوطِ غرناطہ، بغداد، بنگال، دکن، ڈھاکہ کے وقت کی تھی کہ ایک مسلم ملک کافروں اور مشرکوں کے ہاتھوں برباد ہورہا تھا اور باقی مسلم ممالک ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی صورت تماشائی بنے ہوئے تھے۔ آج فلسطین، غزہ، شام، مسلم افریقن ممالک اور بھارت کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کے خلاف ہونے والی یہود ونصاریٰ اور اہل ہنود کے اتحادِ خبیثہ کی جارحیت دیکھنے پر آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہنا اور غیر جانب داری کا بزدلانہ اظہار کرنا جرم عظیم کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اپنی تہذیب کی لاش پہ رونے والا بھی کوئی نہیں
سب کے ہونٹوں پہ ہے یہ صدا اب یہ میت اٹھائے گا کون

عرب دنیا اسرائیل کے سامنے بکری بن چکی ہے۔ مصر، متحدہ عرب امارات، اردن، ترکی، سوڈان، مراکش براہِ راست اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں، سعودی عرب کرنے ہی والا تھا کہ حماس کے ابابیلوں نے ’’اسرائیل ایک ناقابل شکست عالمی طاقت ہے‘‘ کا غرور خاک میں ملا دیا۔ سعودی عرب کا اسرائیل سے دوستی کرنے کا اعلان بیچ راستے میں خیمہ ڈالے بیٹھا ہے۔ پاکستان جو آئی ایم ایف کا غلام ہے‘ وہ بھلا فلسطینیوں کی عسکری مدد کی کیسے جرأت کرے گا جب کا امریکہ اور یورپی یونین براہِ راست اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شامل ہیں۔ ایران حسب ِسابق محض طفل تسلیوں سے کام چلا رہا ہے اور باقی مسلمان ممالک بھی فی الحال غزہ میں حماس کی شکست کے منتظر ہیں، وہ اس لیے کہ اگر حماس یہ جنگ جیت گئی (اِن شاء اللہ فتح حماس کو ملنے والی ہے) تو ان کی آمریت اور بادشاہت کا کیا بنے گا؟ حوثی مجاہدین قابلِ تحسین ہیں کہ وہ براہِ راست جہاد میں غزہ کے مجاہدین کے ساتھ شامل ہیں۔ بہرحال سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے ذریعے کچھ امدادی کارروائیاں جاری ہیں جس کے راستے میں مصر سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کیوں کہ غزہ تک رسائی کا واحد راستہ رفح کا بارڈر ہے جو مصر کی اجازت سے مشروط ہے، جو بند ہے۔ عالمی ادارے، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل سب کے سب بے بس ہیں۔ فی الحال مسلمانوں کی جماعتیں اپنی مسلکی بالادستی کی آپسی جنگ میں مصروف ہیں، اور سب سے بڑی جماعت تبلیغی جماعت تو غیر جانب داری کا سنگی مجسمہ ہے۔ ایسے ہی ایک بڑی تعداد بخارا کی مسجد میں ختم بخاری کے اجتماع میں موجود تھی جب زار کی فوجیں بخارا میں داخل ہوچکی تھیں اور مسجد میں ہی یہ معصوم اللہ والی فاختائیں قربان گاہ پر جھٹکا کردی گئیں۔

بیچ کر تلوار خرید لیے مصلے تُو نے
بیٹیاں لٹتی رہیں تم دعا کرتے رہے

لیکن راکھ میں دبی جذبہ ایمانی کی چنگاریاں کہیں شعلہ کہیں آتش فشاں بن کر دشمنانِ اسلام پر برقِ تپاں کی طرح گررہی ہیں اور اقبالؒ کی طرح ہم اور ہمارے جیسے اہلِ ایمان پُر امید ہیں کہ:

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

حصہ