علم دوست شخصیت طارق جمیل کی رہائش گاہ ایوانِ جمیل الرحمن محمد علی ہائوسنگ سوسائٹی کراچی میںحلقۂ ارباب تخلیق کراچی کے زیر اہتمام معروف شاعر شجاع الزماں شاد کے دوسرے شعری مجموعے حسرتِ اندمال کی تعارفی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں رفیع راز صدر تھے اور اکرم کنجاہی مہمان خصوصی تھے۔ زائد حسین جوہری‘ حجاب عباسی‘ عابد شیروانی ایڈووکیٹ اور راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد‘ مہمانانِ اعزازی تھے۔ حامد علی سید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ طاہر سلطانی نے تلاوتِ کلام مجید اور نعت رسولؐ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ خالد میر نے کہا کہ ان کی تنظیم حلقہ ارباب تخلیق اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے سرگرم عمل ہے‘ ہم فنون لطیفہ کی تمام شاخوں کی پروموشن کے لیے میدانِ عمل میں موجود ہیں۔ ہم قابلِ ذکر قلم کاروں کی کتابوں کی تعارفی تقریبات بھی ترتیب دے رہے ہیں۔
طارق جمیل نے کہا کہ شجاع الزماں شاد کراچی کے ادبی منظر نامے کا حصہ ہیں وہ پیشہ وارانہ لحاظ سے بینکار ہیں اور اس شعبے میں بھی انہوں نے نام کمایا ہے ہماری تنظیم نے آج ان کے لیے محفل سجائی ہے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے شاعری میں جگہ بنائی ہے۔ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد نے کہا کہ شجاع الزماں شاد نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزل ان کی شناخت ٹھہری ہے تاہم ان کی نظم کا فکری کینوس غزل کے مقابلے میں بہت وسیع ہے تمام صاحبانِ علم جانتے ہیں کہ کوئی اہم فکر و خیال اور فلسفہ کسی نظم میں ہی پیش کیا جاسکتا ہے غزل کے اشعار مقبولیت میں بہت آگے ہیں لیکن کسی اہم پیغام کی متحمل صرف نظم ہی ہو سکتی ہے شجاع الزماں شاد نے اپنی نظموں میں زندہ الفاظ استعمال کیے ہیں۔
زاہد حسین جوہری نے کہا کہ شجاع الزماں شاد نے اپنی شعری میں زندگی کے تمام روّیوں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ انہوں نے کھلی آنکھوں سے اپنے معاشرے کا مطالعہ کیا ہے اور اور جو کچھ نظر آیا اسے شاعری میں ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کردیا۔ ان کے اشعار میں جاذبیت‘ گہرائی اور گیرائی ہے میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ شجاع الزماں شاد کی شاعری میں کوئی عروضی سقم نہیں ہے‘ ان کا گہرا مشاہدہ ان کے اشعار کو حسن عطا کرتا ہے۔حجاب عباسی نے کہا کہ شجاع الزماں شاد نے اپنی شاعری کو غم زدہ نہیں بنایا بلکہ زندگی کے مثبت روّیوں پر بات کی ہے‘ ان شاعری میں نئے خیالات اور آفاقی مضامین بھی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کسی کا لب و لہجہ نہیں چرایا بلکہ اپنا اسلوبِ بیان خود ہی تراشا ہے مجھے امید ہے کہ وہ شعرا کے ہجوم میں گم نہیں ہوںگے۔
اکرم کنجاہی نے کہا کہ شجاع الزماں شاد کے دو شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں‘ پہلے کا نام ’’شرح آرزو‘‘ ہے جب کہ دوسرا شعری مجموعہ ’’حسرت اندمال‘‘ ہے جس کی تعارفی تقریب میں آج ہم سب شریک ہیں۔ ہم جانتے ہیں اس دور میں نعت اور غزل زیادہ کہی جا رہی ہے۔ نعت رسول کہنا ہمارے ایمان کا تقاضا ہے جب کہ غزل ہمارے معاشرے کی عکاس ہے۔ شجاع الزِماں شاد کی شاعری کی جڑیں کلاسیکیت اور روایت سے جڑی ہوئی ہیں ان کے کلام میں تازہ کاری نمایاںہے۔ وہ فیض احمد فیض کی طرح غزل کے روایتی لفظیات کو استعارے اور علامت میں بدلنا سیکھ چکے ہیں‘ ان کا یہ مجموعہ بھی فنی‘ فکریاور اسلوب کے اعتبار سے قابل ستائش ہے۔ وہ سماجی میلانات اور عصری مسائل اور بدلتے ہوئے حالات کو قارئین کے سامنے رکھ دیتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی راہیں متعین کریں کیوں کہ شاعری ایک ایسا فن ہے جو انسان کو زندگی کے راستے بتاتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ شجاع الزماں شاد کا تیسرا مجموعہ کلام بھی بہت جلد ہمارے سامنے ہوگا۔رفیع مغل ایڈووکیٹ اورنسیم کاظمی نے شجاع الزماں شاد کو منظومِ خراج تحسین پیش کیا۔ شجاع الزماں شاد نے کہا کہ وہ حلقہ اربابِ تخلیق کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے اعزاز میں یہ محفل سجائی۔ اس موقع پر شجاع الزماں شادنے اپنی غزلیں اور نظمیں سنا کر خوب داد و تحسین حاصل کی۔
صاحبِ صدر رفیع الدین راز نے کہا کہ حلقۂ اربابِ تخلیق ایک اہم ادارہ ہے جو بہت تیزی سے ادبی منظر نامے میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ ان کے عہدیداران بڑی دل جمعی کی ساتھ شعر و سخن کی خدمت کر رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ شجاع الزماں شاد ایک جینوئن قلم کار ہیں ان کے ہاں شاعری کے تمام مضامین نظر آرہے ہیں۔
حامد الاسلام خان نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قومی زبان اردو ہے‘ عدالتی فیصلے کے مطابق اب تک اس زبان کو دفتری زبان کی شکل اختیار کرلینی تھی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اردو کے نفاذ میں کوئی دل چسپی نہیں لی جس کی وجہ سے بہت سا کام رکا ہوا ہے۔ اردو اس وقت دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے اور پاکستان کے ہر علاقے میں بولی جاتی ہے یہ رابطے کی زبان ہے۔