ننھے بھائی ہمیں کتنی بار ہی بےوقوف بناتے، مگر ہم کو آخر میں کچھ ایسا قائل کر دیا کرتے تھے کہ ان پر سے اعتبار نہ اٹھتا۔ مگر ایک واقعے نے تو ہماری بالکل ہی کمر توڑ دی۔ نہ جانے کیوں بیٹھے بٹھائے جو آفت آئی تو پوچھ بیٹھے،
’’ننھے بھائی! یہ ریشم کیسے بنتا ہے؟‘‘
’’ارے بدھو! یہ بھی نہیں معلوم، ریشم کیسے بنتا ہے! اس میں مشکل ہی کیا ہے۔ سادہ سوتی دھاگہ لو۔ اسے دو پلنگوں کے پائے پر ایسا تان دو جیسے پتنگ کا مانجھا تانتے ہیں بس جناب عالی! اب ایک یا دو حسب ضرورت انڈے لے لو۔ ان کی زردی الگ کر لو، انہیں خوب کانٹے سے پھینٹو، اچھا نمک مرچ ڈال کر، آملیٹ بنا کر ہمیں کھلاؤ، سمجھیں؟‘‘
’’ہاں آں۔ مگر ریشم؟‘‘
’’چہ۔ بےوقوف! اب سنو تو آگے۔ باقی بچی سفیدی، اسے لے کر اتنا پھینٹو۔ اتنا پھینٹو کہ وہ پھول کر کپا ہو جائے۔ بس جناب اب یہ سفیدی بڑی احتیاط سے پلنگ کے پایوں پر تنے ہوئے تاگے پر لگا دو۔ جب سوکھ جائے، سنبھال کے اتار کر اس کا گولا بنا لو، آپ چاہے اس کے ریشم سے ساڑھیاں بنو، چاہے قمیصیں بناؤ۔‘‘
’’ارے باپ رے!‘‘ ہم نے سوچا۔ ریشم بنانا اتنا آسان ہے اور ہم اب تک بدھو ہی تھے، جو اماں سے ریشمی کپڑوں کے لیے فرمائش کرتے رہے۔ ارے ہم خود اتنا ڈھیروں ریشم بنا سکتے ہیں تو ہمیں کیا غرض پڑی ہے، جو کسی کی جوتیاں چاٹتے پھریں۔
بس صاحب، اسی وقت ایک انڈا مہیا کیا گیا۔ تازہ تازہ کالی مرغی ڈربے میں دے کر اٹھی اور ہم نے جھپٹ لیا۔ فوراً نسخہ پر عمل کیا گیا، یعنی زردی کا آملیٹ بناکر خود کھا لیا، کیونکہ ننھے بھائی نہیں تھے اس وقت۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ تاگہ کہاں سے آئے؟ ظاہر ہے کہ تاگہ صرف آپا کی سینے پرونے والی صندوقچی میں ہی مل سکتا تھا۔ سخت مرکھنی تھیں آپا۔ مگر ہم نے سوچا، نرم نرم ریشم کی لچھیوں سے وہ ضرور نرم ہو جائیں گی۔ کیا ہے، ہم بھی آج انہیں خوش ہی کیوں نہ کر دیں۔ بہت نالاں رہتی ہیں ہم سے، بدقسمتی سے وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھ بیٹھی ہیں۔ آج ہم انہیں شرمندہ کر کے ہی چھوڑیں گے۔ وہ بھی کیا یاد کریں گی کہ کس قدر فسٹ کلاس بہن اللہ پاک نہ انہیں بخشی ہے۔ جس نے سوت کا ریشم بنا دیا۔
آپا جان سو رہی تھیں اور ہم دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ ریشم کی ملائی لچھیاں دیکھ کر آپا بھی ریشم کا لچھا ہو جائیں گی اور پھر ہمیں کتنا پیار کریں گی۔
سخت چپ چپا اور بدبودار تھا ریشم بنانے کا یہ مسالہ۔ ناتجربہ کاری کی وجہ سے آدھا تاگہ تو الجھ کر بیکار ہو گیا۔ مگر ہم نے بھی آج تہیہ کر لیا تھا کہ اپنی قابلیت کا سکہ جماکر چین لیں گے۔
لہٰذا آپا کی صندوقچی میں سے ہم نے ساری کی ساری رنگ برنگی سوتی اور ریشمی ریلیں لے کر دو پلنگوں کے درمیان تان دیں کہ ریشم تو اور چمکدار ہو جائےگا۔ سوت ریشم ہو جائےگا۔ اب ہم نے انڈے کی پھینٹی ہوئی سفیدی سے تانے ہوئے تاگے پر خوب گسے دینے شروع کیے۔
اتنے میں آپا جان آنکھیں ملتی اور جمائیاں لیتی ہوئی ہمارے سر پر آن دھمکیں۔ تھوڑی دیر تو وہ بھونچکی سی کھڑی یہ سارا تماشا دیکھتی رہیں۔
پھر بولیں، ’’یہ۔۔۔ یہ کیا۔۔۔ کر رہی ہے۔ مردی؟‘‘ انہوں نے بہ وقت آواز حلق سے نکالی۔
’’ریشم بنا رہے ہیں!‘‘ ہم نے نہایت غرور سے کہا اور پھر نسخے کی تفصیل بتائی۔
اور پھر گھر میں وہی قیامت صغریٰ آ گئی جو عموماً ہماری چھوٹی موٹی حرکتوں پر آ جانے کی عادی ہو چکی تھی۔ ناشکری آپا نے ہماری سخت پٹائی کی۔
گھر میں سب ہی بزرگوں نے دست شفقت پھیرا، ’’ریشم بنانے چلی تھیں!‘‘
’’اپنے کفن کے لئے ریشم بنا رہی تھی چڑیل۔‘‘
لوگوں نے زندگی دوبھر کر دی، کیوں کہ واقعی ریشم بننے کے بجائے تاگہ، برتن مانجھنے کا جونا بن گیا۔
ہم نے جب ننھے بھائی سے شکایت کی تو بولے، ’’کچھ کسر رہ گئی ہوگی۔۔۔ انڈا باسی ہوگا۔‘‘
’’نہیں، تازہ تھا، اسی وقت کالی مرغی دے کر گئی تھی۔‘‘
’’کالی مرغی کا انڈا؟ پگلی کہیں کی۔ کالی مرغی کے انڈے سے کہیں ریشم بنتا ہے؟‘‘
’’تو پھر۔۔۔؟‘‘ ہم نے احمقوں کی طرح پوچھا۔
’’سفید جھک مرغی کا انڈا ہونا چاہئے۔‘‘
’’اچھا؟‘‘
’’اور کیا اور آملیٹ تم خود نگل گئیں۔ ہمیں کھلانا چاہئے تھا۔‘‘
’’تب ریشم بن جاتا؟‘‘
’’اور کیا!‘‘ بھیا نے کہا اور ہم سوچنے لگے۔ سفید مرغی کم بخت کڑک ہے، انڈوں پر بیٹھی ہے۔ نہ جانے کب انڈے دینے شروع کرےگی۔ خیر دیکھا جائےگا۔ ایک دن آپا کو ہمیں مارنے پر پچھتانا پڑےگا۔ جب ہم سارا گھر ریشم کی نرم نرم لچھیوں سے بھر دیں گے تو شرم سے آپا کا سر جھک جائےگا اور وہ کہیں گی۔ ’’پیاری بہن مجھے معاف کر دے تو تو سچ مچ ہیرا ہے۔‘‘
تو بچو، اگر تم بھی ریشم بنانا چاہتے ہو تو نسخہ یاد رکھو۔ انڈا سفید مرغی کا ہو۔ اگر فی الحال وہ کڑک ہے تو انتظار کرو اور زردی کا آملیٹ ننھے بھائی کو کھلانا۔ خود ہرگز ہرگز نہ کھانا، ورنہ منتر الٹ پڑ جائےگا اور حالات نہایت بھونڈی صورت اختیار کر لیں گے۔ پھر ہمیں دوش نہ دینا۔