ابراہیم کی نیکی

162

ابراہیم کا نام ان کے دادا جان نے بڑے پیار سے رکھا وہ عید الاضحی کی رات کو دنیا میں تشریف لائے۔ان کے آنےسےگھر میں خوشیاں ہی خوشیاں پھیل گئیں۔ دادا جان تو سارے محلے میں مٹھائی تقسیم کرنے چل پڑے۔ عید کے تیسرے دن کا عقیقہ کیا گیا باقی بچوں نے کہا واہ بھئی واہ یہ تو تیسرے دن بھی بقر عید ہوگئی۔ ان کو سب پیار میں پنٹو بلانے لگے تھے یونہی ہنستے کھیلتے تھوڑے بڑے ہوگئے پنٹو ( ابراہیم ) اپنی پیاری عادتوں (مسکرانے۔ بات ماننے۔ لڑائی نہ کرنے( کی وجہ سے سب کے لاڈلے اور چہیتے بن گئے۔ اس سے سب سے زیادہ خوش تو اس کے دادا جان تھے ۔ پنٹو میاں کے پاس بے شمار کھلونے تھے دادا جان اس کو اکثر اپنےساتھ باہرلے جاتے تھے پھر بھی وہ خود گھومتے پھرتے رہتے تھےاور ارد گرد کے بچوں کے ساتھ کھیلتے ان کو دیکھتے ہوئے خود بھی شرارتی بچے بن گئے۔پنٹو ویسے دیکھنے میں تو بالکل سیدھے سادھے اور بھولے بھالے کیوٹ بچےلگتے تھے۔ ان کےدادا جان تو انہیں ایک بہادر مجاہد سپاہی بناناچاہتے تھے ۔ انہوں نے سوچا کہ پنٹو میاں تو بہت ذہین اور عقل مند ہیں کہیں ان شرارتوں اور لاپرواہی کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ پڑھائی سے دور نہ ہوجائیں۔ اس لیے ان کی تعلیم کے لیے ان کا اچھے اسکول میں داخلہ کروایا گیا۔ پھر انہوں نے ایک بہت اچھے مدرسے سے حفظ قرآن کی تکمیل کی پھر وہ دوبارہ اسکول جانے لگے اب وہ اپنے اسکول میں بہترین طالب ہیں۔ اسکول کے ساتھ ساتھ انہوں نے کراٹے کلب بھی جوائن کر لیا ۔ وہ اتنا ذہین اور طاقتور تھا کہ مقابلوں میں سارے بچوں کو ہرا دیتا تھا۔ اس نےہر بیلٹ جلدی حاصل کی۔ بہت سے مقابلوں میں میڈلز اور ٹرافی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ پورےسندھ میں مارشل آرٹ میں دوسری پوزیشن حاصل کی اس کے کمرے میں تحفے تحائف اور میڈلز اور ٹرافیاں بھری ہوئی ہیں ۔

پنٹو میاں کو نیکیوں کے کام بھی کرنے میں بہت بہت دلچسپی تھا۔ وہ خود بھی نیکیاں کرتے اور اپنے دوستوں سے بھی کرواتے تھے۔ اس بات پر ان کے دادا جان کو بہت ہی خوشی ہوئی کہ ” پنٹو میاں تو اللہ رب العالمین کو خوش کرنے کے لیے بھی بہترین کام انجام دیتے ہیں۔ اپنے اسکول اور محلے میں انہیں کچھ بہترین لوگوں کی صحبت میسر آئی جہاں انہیں درس قرآن اور دیگر دینی پروگرامز میں جانے کا بہترین موقع ملا انہوں نے اس رہنمائی کی مدد سے نہ صرف خود کوبدلا بلکہ اپنے دیگر دوستوں کو بھی اپنے اس نیک بنو نیکی پھیلاؤ ( اچھے ساتھی /بزم ساتھی ) کے کام میں شامل کیا گیا۔ وہ ہر ماہ ساتھی میگزین شوق سے پڑھتے ہیں اور دوسروں کو بھی پڑھاتے ہیں۔

تقریبآ ہفتے میں ایک دن سارے دوستوں کو جمع کر کے درس قرآن کرتے اور نصیحت کرتے تھے کہ ہم نیکیاں کس طرح سمیٹ سکتے ہیں ۔ ہم کو پڑوسیوں ۔ بوڑھوں اور بیماروں کامددگار بنناہے، جو بیمار ہے ان کو ہسپتال پہنچانا ، دوائیاں لاکر دینا ، بھوکے کو کھانا کھلانا وغیرہ آسانی سے کر سکتے ہیں ۔

اس وقت ان کے لیے سب سے بڑاکام اپنے مظلوم فلسطینی مسلمان بھائیوں کے لیے خاص طور پر غزہ کے معصوم بچوں، بوڑھوں، جوانوں کے لیے فنڈز جمع کر نا اور اسے بھجوانا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العالمین ہمارے قبلہ اول کو بچانے کے لیے ابابیل کو کنکریاں دےدے۔۔۔۔۔۔۔معصوم بچوں کے دل کی پکار اور دعائیں التجائیں سن لیں۔۔۔۔۔آمین ثم آمین یا رب العالمین۔۔۔۔۔

حصہ