شتر مرغ کا سوشل میڈیا

588

ڈانلڈ لو اور عمران کی رہائی مہم :
الیکشن کے بعد سے ہی عملاً ٹوئٹر شاید اِس لیے بند لگتا ہےکہ اس پر اب عمران خان کی رہائی مہم زور و شور سے چل رہی ہے۔روزانہ کوئی ایک سے دو ہیش ٹیگ کو ٹرینڈ کی انتہا تک پہنچا دیا جاتا ہے۔جواب میں ’ن لیگ ‘ کی جانب سے بھی جوابی وار ٹرینڈ کی صورت جاری نظر آئے۔’امید پاکستان کو رہا کرو‘ کے جواب میں ’ پی ٹی آئی وڑ گئی‘، ’پی ٹی آئی بے نقاب‘۔ ’فری عمران خان‘ کے جواب میں ’ بین ٹیررسٹ پی ٹی آئی کلٹ‘۔’خوشحال پنجاب مریم کا عزم‘، ’ نگہبان رمضان پیکج‘ اس کے بعد ’ڈانلڈ لو‘والی وڈیوز نے ٹرینڈ بنوا ہی دیا۔ امریکا کے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کا پاکستانی انتخابات سےمتعلق تحریری بیان اور امریکی کانگریس میں دیئے گئے جوابات کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل رہی ۔جس کے مطابق انہوں نے کہا کہ سائفر کو امریکی سازش کا الزام کہنا جھوٹ ہے۔سوال کے جواب میں ڈانلڈ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں انتخابات سے پہلے پولیس، سیاستدانوں، سیاسی اجتماعات پر دہشتگرد حملے ہوئے۔عالمی الیکشن مبصر تنظیم کو ووٹ گنتی کی آبزرویشن سے روکا گیا۔نتائج کو مرتب کرنے میں بے ضابطگیوں کو نوٹ کراگیا۔ انتخابات کا انعقاد بڑی حد تک مسابقتی اور منظم تھا، تشدد کی دھمکیوں کے باوجود 6 کروڑ پاکستانیوں نے ووٹ ڈالے۔کانگریس کی اس کارروائی کے دوران ، 2 غیر پاکستانی افراد نے عمران خان کی رہائی کے نعرے بھی لگائے ۔یہ سب سوشل میڈیاپر مختلف تبصروں کے ساتھ وائرل رہا۔ نومئی کے کیس اور پاک فوج پر حملوں کے سلسلے میں ’ن لیگ‘ کے جوابی وار خوب رہے۔تحریک انصاف کو تحریک طالبان سے جوڑ کر، سہولت کار قرار دیکر خوب پوسٹیں کی جاتی رہیں۔

مقبوضہ سندھ آزادکراؤ:
ڈاکوؤں کے ہاتھ اسلحہ تو آیا ساتھ ہی موبائل بھی آگیا تو اس نے تباہی کے اثرات بڑھا دیئے۔ سندھ گذشتہ سال بھر سے حقیقی ’ڈاکوؤں‘ کے نرغے میں آیا ہواہے۔15 سال سے اقتدار والی پیپلز پارٹی بھی اپنی لوٹ مارمیں اُن کے سامنے معصوم لگ رہی ہے۔یہ ڈاکو چلتے پھرتے ہر کسی کو اغوا کرلیتے ہیں اور تاوان کی خاطربدترین تشدد کی وڈیوز بنا بناکر بھیجتے ہیں جو سوشل میڈیا پر خوف زدہ کرنے کےلیے پھیلجاتی ہیں۔ کچھ وڈیوز تو یہ خود اپنے شوق سے بھی بناتے ہیں۔ اس ہیش ٹیگ میں یہ ساری وڈیوز آپ کو ٹوئٹر پر مل جائیں گی۔ ان مرد و خواتین میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیںجن کی دس ہزار روپے دینے کی بھی مالی اوقات نہیں ہوتی ، ان سے یہ لاکھوں طلب کرتے ہیں ، نہ ملنے پر گولی مار دیتے ہیں۔ آج تک مقامی پولیس ، رینجرز وغیرہ سب خاموش و بے بس ہیں اور لوگوں کو گھروں پر رنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔جس طرح کا اسلحہ یہ ڈاکو اپنی وڈیوز وتصاویر میں فخریہ نمائش کرتے ہیں وہ ناقابل یقین ہے ۔ کئی وڈیوز میں تو ڈاکوؤں کو دھمکیاں دیتے صاف دکھایا گیا ہے کہ پولیس میں دم نہیں کہ ہم پر گولی چلائے۔ایک نے کمنٹ کیا کہ ’’پاکستان کا سب سے طاقتور طبقہ کچے کے ڈاکو۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ ان کے علاقے سے صدر منتخب ہوا ہے۔‘‘ایک پبلک میسیج کے نام سے پوسٹ چلی کہ ’’ مغرب کی اذان گھر پر سُنیں ورنہ عشا کی اذان کچے میں سننی پڑےگی ۔کشمور ، گھوٹکی پولیس‘‘۔جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام ڈاکو راج کے خلاف حکومتی کمزوری پر متوجہ کرتی رہی ۔

پی ایس ایل فائنل:

پی ایس ایل کا فائنل بھی ہوگیا۔کراچی میں آخر ی میچ تک اسٹیڈیم خالی جیسا ہی رہا۔ پی ایس ایل کے درمیان کراچی کے اسٹیڈیم میں فلسطینی پرچم لانے پر 2-3بار ایشوز سوشل میڈیا پر بھی بنے۔ کے ایف سی و دیگر کی وجہ سے بائیکاٹ کی مہم اپنی جگہ رہی۔ فائنل میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد فلسطین کا پرچم اُٹھا لیا اور گراؤنڈ میں یہ کہہ کر گشت کیا کہ یہ جیت ہم فلسطین کے نام کرتے ہیں۔سوشل میڈیا پر بہانہ چاہیے تھا سو مل گیا، کیونکہ اس بائیکاٹ معاملے پر خاصا موضوع گرم تھا۔لوگ اپنے تئیں تجزیے کرتے رہے کہ چلو یہ اچھا ہوگیا۔ مگر ایسا کہتے وقت وہ بہت ساری باتیں نظر انداز کر رہے تھے ۔ اسلام آباد یونائیٹڈ نے ( غالباً) اسپانسر کی اجازت سے فلسطینی پرچم تو لہرا لیا مگر سب نے دیکھا کہ ’ٹم ہارٹنز‘ کی قمیض تو نہیں اُتاری۔ اس جھنڈے لہرانے سے فلسطین کو کوئی فائدہ نہیں ہوگامگر ہم جانتے ہیں کہ ہر قسم کے بائیکاٹ سے ضرور اثر پڑے گا۔ٹم ہارٹنز ، کینیڈا کی کافی کمپنی ہے ، پورے ٹورنامنٹ میں اِسکا اشتہار اسلام آباد کی ٹیم کی پیٹھ پر لگا رہا۔ لوگ تو ’ کے ایف سی‘ کے ٹورنامنٹ اسپانسر پر ہی قطع تعلق کر چکے تھے مگر اسلام آباد کی ٹیم کے عمل کو جانچنے سے پہلے کینیڈا کی اسرائیلی معاونت و سرپرستی کو نہیں بھولنا چاہیے۔ جیسے کے ایف سی امریکہ سے تعاون کر رہا ہے ویسا ہی ’ٹم ہارٹنز ‘ہے۔سینیٹر مشتاق احمدخان جو غزہ کے معاملے پر پاکستان کے ایوان میں واحدموثرآواز رہے ہیں ، جو مصر کی بارڈر تک بھی گئے اور ملک بھر میں غزہ کی آواز بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ’اسرائیل کے لیے کے ایف سی کی تشہیر کے ذریعے سے مالیاتی سپورٹ اور نسل کشی میں ان کی سہولت کاری اور اہلیان فلسطین کے لیے آخری روز چند لمحوں کے لیے عوام کے مسلسل پریشر کے بعد جھنڈا اُٹھا کراخلاقی سپورٹ،یہ دوغلی پالیسی، منافقت اور عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔پی سی بی کا یہ جرم ناقابل معافی ہے۔پی ایس ایل میں کے ایف سی کی تشہیر اور فلسطینی جھنڈے پر پابندی کے ذریعے پاکستان کے عوام کے زخموں پر مسلسل نمک پاشی کی گئی۔‘ سرمایہ داری اس وقت ایک غالب نظام زندگی ہے لہٰذا سرمایے میں اضافے کےلئے لیژر (فارغ وقت) کی کمرشلائزیشن عمل میں لائی گئی ۔بجائے اس سے کہ لوگ فارغ اوقات اپنی مرضی سے استعمال کریں ایسے کاموں کو فروغ دیا جانے لگا جن کے ذریعے ان کے اوقات کو بھی نفع خوری اور سرمایے میں اضافے کےلئے استعمال کیا جا سکے۔ پکنک ٹرپس اور سیر سپاٹے سے شروع ہونے والا سفر کھیل تماشوں اور گانے بجانے کی انڈسٹریز تک پہنچ چکا ہے(جو اسوقت ٹریلین ڈالر انڈسٹریز کی صورت اختیار کر چکی ہیں) ۔ہم نے دیکھا کہ وہ تمام روایتی کھیل اور ثقافتی تہوار جو سرمایے میں اضافے کے ڈسپلن کا حصہ نہ بن سکے آہستہ آہستہ معدوم ہوتے چلے گئے۔عوام کی توجہ ملنے پر سرمائے کی بڑھوتری کی خاطر اشتہارکاری بڑھنا

شروع ہوئی ۔اس حقیقت تک پہنچنے میں میرے کئی اسپورٹس رپورٹر نے مدد کی۔ آپ بھی سرمائے کے علاوہ کوئی اور ٹھوس وجہ ڈھونڈ کرلے آئیںتو میں اپنی رائے غلط مان لوںگا کہ ’’کیوں پاکستان میں ہاکی، فٹ بال ، والی بال، کبڈی، باسکٹ بال مقبول نہیں ہوسکے‘‘۔ایسا نہ کہیے گا کہ پاکستانی عوام میں یہ کھیل کھیلنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔اِس گھناؤنے عمل پر مزید سوال اٹھ گئے کہ یہ تو بالکل برطانیہ ، امریکی ، طرز کا عمل ہے جیسے ایک طرف تو اسرائیل کی پوری معاونت کی جاتی ہے پیسہ، اسلحہ سب بھیجا جائے تو دوسری طرف بمباری سے متاثر ہونے والے غزہ کے لیے امدادی سامان بھجوادیا جائے۔یاد رہے کہ برطانیہ، امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک بڑی تعداد میں امدادی سامان غزہ پہنچارہے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ یہ ساراسامان صرف اسرائیل کی مدد و اجازت سے یہ اندر جا رہا ہے۔ تو مجھےبتائیے کہ پہلے مسلمانوں کو مارنے کے لیے پیسہ فراہم کرنا ، قاتل اداروں کی شہرت اپنے کندھوں، قمیض پر لگا نا۔ پھر اس میں سے کچھ رقم مسلمانوں کے لیے بھجوانا جو جائے گی اسرائیل کی ہی مددسے۔یہ کیسا عمل ہوگا؟ویسے اسکا مطلب یہ نہیں کہ مسلمانوں کے لیے امدادی سامان نہ بھیجا جائے ، مطلب یہ ہے کہ ایسے ’شرمناک عمل ‘سے پیسہ پیدا کر کے بھیجنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟

سیٹھ کاشتر مرغ :
گذشتہ 10-12سالوں سے کراچی میں عوامی افطاروں کا ایک سلسلہ شروع ہو اہے جو بتدریج عجیب ‘ کیفیت اختیار کر رہا ہے ۔جے ڈی سی نے اس میں منفرد کھانوں کی کشش ، یہ کہہ کر ڈالی کہ ’اگر کسی امیر مسلمان کے پاس سال بھر اَچھا کھانے کو ہے تو وہ رمضان کے موقع پر اپنے مسلمان بھائیو کو بھی ویسا ہی کھلا دے۔‘ شتر مرغ کی کڑہائی ظفر عباس نے پہلی بار نہیں کھلائی،کئی سالوں سے کھلا رہے ہیں۔ اب کی بار یہ ہوا کہ جےڈی سی کے سیکرٹری ظفر عباس نے تعارفی وڈیو میں کچھ زیادہ ہی باتیں کر دیں۔ ظفر عباس ، بے شک سوشل میڈیا کی مقبول شخصیت ہیں۔ سوشل میڈیا کی بنیاد پر انہوں نے بہت بڑی مقبولیت پائی ہے ۔اِن کی چرب زبانی ، روانی ، بے ساختہ گفتگو، حالات کو بڑا مدعا بنا کر پیش کرنے کا طریقہ ، متاثرہ غریب خاندانوں کے مسائل کی بریفنگ، بہرحال عوام میں مقبول ہے، بے شک انہوں نے کئی لوگوں کو ریلیف بھی دلایا ہو۔مگر اصل بات یہی ہے کہ ’کم بولنے میں ہی عافیت ہے۔‘ ظفر عباس نے اپنی پہلی وڈیو میں ’ شتر مرغ کی قیمتوں پر بلا وجہ تبصرہ کرکےاپنا مقدمہ خراب کرلیا۔‘ اِس پر کوئی صفائی مانگ ہی نہیں رہا۔ ظفر عباس نے جوابی وڈیو میں سارا ملبہ ’ سیٹھ‘ پر ڈال دیا، یہ کہہ کر کہ ’سیٹھ دے رہا ہے تو میں کیسے ، کیوں منع کروں، سیٹھ کی مرضی وہ جو کھلانا چاہے ، غریبوں کو اچھا کھلانا کیسے غلط ہے۔‘ یہ تو کسی کے لیے مسئلہ ہے ہی نہیں۔ اصل مسئلہ صرف یہ تھا کہ ، جب سیٹھ کو مرضی کی چیز لینی ہے تو ظفر صاحب اسکی قیمتوں پر کیسے ، کیوں ،کس حیثیت سے بات کر رہے تھے؟ بات یہی نہیں ، ہوا یہ کہ اُسی وڈیو میں ظفر صاحب نے ڈیڑھ لاکھ کا مہنگا شتر مرغ خریدنا گوارا کر لیا مگر فروٹ مافیا کے خلاف بائیکاٹ پرنکل آئے ۔ یہاں سے شتر مرغ کی ڈیڑھ لاکھ کی قیمت کا سوشل میڈیا پر مذاق بن گیا۔ ہر طرف سوشل میڈیا پرشتر مرغ دوڑتا نظر آنے لگا۔ اس لیے بھی کہ ظفر عباس نے جوابی وڈیو میں پھر قیمت کے اصل مدعے کو چھوڑ کر سیٹھ کو موضوع بنا لیا اور سوشل میڈیا پر آخری انٹرویو میں 3 من والے شتر مرغ کی قیمت 6لاکھ تک ظاہر کر دی یعنی 5000 روپے کلو گوشت ۔ اب ظاہر ہے کہ یہ ان کی فیلڈ نہیں نہ یہ بولنے کی ضرورت تھی ۔ اس بیان کے بھی بدترین نتائج سامنے آئے ۔ ’’سیٹھ 30 ہزار والا شتر مرغ ڈیڑھ لاکھ میں کیوں دے رہا ہے ؟‘‘ اس عنوان سے ٹیکسز کی ہیر پھیر ، سرکار کی نظر میں ناجائز رقم کو وائٹ منی کرنے کے طریقے بھی آسانی سے سمجھائے گئے ، سیٹھ کے دنیاوی فائدے کے لیے ظفر عباس کی طرف سے قیمت بار بار بتانے کی یہ وہ واحد قابل اعتبار وجہ ہے ۔ اتنی افطار کرانے کا اگر آخرت میں ثواب ہے تو دنیا میں بھی تو کوئی انعام لیا جا سکتا ہے۔ہمارے دوست یوسف ابو الخیر نے دبئی سے ایک مونولاگ ڈالا جو سب سے زیادہ وائرل ہوا ، اپنے منفرد انداز میںیوسف نے جب یہ کہا کہ ’’اگر سیٹھ کروڑوں روپے دے اور کہےکہ سحری میں اینا کونڈا کی کڑہائی کھلا دو ، تو کیا آپ اینا کونڈا ڈھونڈنے نکل جاؤگے؟‘‘اس سادہ سے جملے نے سب پر پانی پھیر دیا۔ اہم بات یہ تھی کہ یوسف نےحاضرین کو ’’رمضان کا پیغام یاد دلانا جو کہ نت نئے کھانوں ، مہنگے کھانوں سے وابستہ نہیں ہے۔یوسف نے وڈیو میں ’غزہ‘ کو یاد دلا یا۔ رمضان میں غزہ کی جو بدترین ، ناقابل بیان صورتحال سوشل میڈیا پر آ رہی ہے اسکو کیسے فراموش کرکے ایسا کوئی دستر خوان سجایا جا سکتا ہے ؟ امت کا مطلب یہ کب سے ہے کہ وہ بھوکے ہیں تو کیا ہم بھی بھوک سے مرجائیں ؟ ویسے ظفر عباس جس مسلک کے نمائندہ ہیں وہ تو محرم الحرام کی نسبت امت سے اپنا رشتہ بخوبی جوڑنا جانتا ہے تو اب بیت المقدس پر برستے بموں سے کیسے لا تعلق ہو سکتا ہے ؟ سیٹھ جو بھی کہے ظفر نے قبلہ اول کی سرزمین سے کیسے لاتعلقی اختیار کی یہ اہم بات ہے ۔

حصہ