ڈاکٹر ہونے کے ناتے معاشرے کے ہر طبقہ سے واسطہ پڑتا ہے۔ شروع میں لوگوں کا رویہ دیکھ کر حیرانی ہوتی تھی لیکن اب تجربات نے انسانی نفسیات کے بہت سے پہلو سمجھا دیے۔ اس میں سے اہم ترین یہ ہے کہ جب کسی فرد کو صحیح بات بتائی جائے تو وہ عام طور پر غصے میں آجاتا ہے۔ اس کی وجہ اس کے ماضی کے تجربات ہیں۔ وہ اس صحیح بات سے مختلف ہوں تو وہ غصے میں آجاتا ہے۔ میں اپنے دیگر ڈاکٹروں اور ایک یورپ کے ڈاکٹر کا واقعہ یہاں بیان کر رہا ہوں تاکہ زندگی میں آپ بھی ان تجربات سے فائد اٹھا سکیں۔
مریض نے غصے میں کہا ’’آپ ڈاکٹر ہیں اس لیے لحاظ کر رہا ہوں ورنہ…… مجھے جانتے نہیں‘ میں سیکنڈری اسکول ٹیچر ہوں جاہل نہیں ہوں… آپ جونیئر ڈاکٹرہیں… بڑی بڑی باتیں نہ کریں‘ میں دس سال سے ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہوں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ مجھے بلڈ پریشر کی بیماری ہی نہیں ہے۔‘‘
یہ واقعہ سول اسپتال کراچی کے دل کے وارڈ کا ہے۔ میں نے ہائوس جاب کے بعد کارڈیو میں PG کے طور پر کام شروع کیا تھا۔ مریض شدید غصے میں تھا۔ تیز آواز سن کر سینئر ڈاکٹرز بھی آگئے۔ مریض کا غصہ بہت مشکل سے کم کرایا۔ بلڈ پریشر کی ایک دوا جو استعمال ہوتی تھی اب S/R یعنی آہستہ جذب ہو کر بلڈ پریشر کنٹرول‘ پاکستان میں شروع کی جا رہی تھی۔ اس دوا کا ٹرائل کارڈیو وارڈ میں ہو رہا تھا۔
ہم دو اسٹیڈی کر رہے تھے ایک اس دوا کے اثرات اور دوسرا یہ معلوم کرنا کہ بلڈ پریشر کی دوا جو مریض لیتے ہیں کیا وہ سب بلڈ پریشر کے مریض ہوتے ہیں یا بس ایک مرتبہ کسی وجہ سے بلڈ پریشر لیا‘ زیادہ ہوا اور دوا شروع کرا دی گئی۔
ہمارے سینئر کارڈیو لوجسٹ نے بتایا کہ یہ بھی بڑا مسئلہ ہے۔ مریض ٹھیک نہیں ہوتے تو وہ ڈاکٹر تبدیل کر لیتے ہیں۔ دوسرا ڈاکٹر یہ دیکھتا ہے کہ یہ بلڈ پریشر کی دوا لے رہا ہے اورمریض بھی یہ بتاتا ہے کہ بلڈ پریشر کا مریض ہے۔
ہم نے 25 مریضوں کو اسپتال میں داخل کیا۔ مریضوں کو جو دوا وہ لے رہے تھے‘ آہستہ آہستہ کم کی اور 12 دن تک ان کے بلڈ پریشر کی ریڈنگ ہر چھ گھنٹے بعد لیتے رہے۔ 25 میں سے 14مریض ایسے تھے جنہیں بلڈ پریشر کی دوا دی جارہی تھی لیکن وہ بلڈ پریشر کے مریض نہیں تھے۔ یہ سیکنڈری اسکول ٹیچر بھی ان مریضوں میں سے تھے جو کئی سال سے بلڈ پریشر کی دوا لے رہے تھے لیکن انہیں بلڈ پریشر کی بیماری نہیں تھی۔
یہ ماسٹر صاحب غصے کے تیز تھے‘ ان کو ایک مرتبہ شدید غصہ آیا‘ کسی طالب علم نے بدتمیزی کی تھی‘ ان کی طبیعت خراب ہوئی قریبی کلینک لے کر گئے‘ بلڈ پریشر 160 تھا‘ انہیں بی پی کی دوا شروع کر دی گئی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے گھر کے قریب واقع ایک دوسرے اسپتال میں دکھایا۔ وہاں انہوں نے بتایا کہ بلڈ پریشر کا مریض ہوں۔ ڈاکٹر نے پہلے والے ڈاکٹر کا نسخہ دیکھا‘ بی پی چیک کیا جو کہ نارمل سے 10 زیادہ تھا۔ لہٰذا وہی دوا دے دی گئی۔ A Patent of hyper Tension (بلڈ پریشر کا معروف مریض) اس کے بعد غصے میں پھر طبیعت خراب ہوئی۔ اسپتال میں جونیئر ڈاکٹر تھے انہوں نے بتایا بی پی کی وجہ سے غصہ آتا ہے۔ بعد میں کئی اسپتال اور ڈاکٹر تبدیل کیے۔ بلڈ پریشر کی دوا ان کی زندگی کا حصہ بن گئی۔
ان ماسٹر صاحب اور دیگر مریضوں نے جنہیں بی پی کا عارضہ نہیں تھا‘ یہ کہا کہ ’’ہم بڑے پرائیویٹ اسپتالوں میں دکھا چکے ہیں‘ یہ سرکاری اسپتال والے تو کسی کو مانتے ہی نہیں۔ کیا سب دوسرے اسپتال میڈیسن نہیں جانتے‘ بس آپ لوگ ہی عقل مند ہیں۔‘‘
اس سے ملتے جلتے جملے وہ مریض ادا کرتے ہیں جنہیں وہ تکلیف نہ ہو جس کو وہ تکلیف سمجھ رہے ہیں۔ اپنے تجربے کے خلاف حقیقت پر مبنی بات سن کر غصہ آجاتا ہے۔
یہ واقعات ان تمام کلینکس میں ہوتے ہیں جہاں مریضوں سے مالی فائدہ کے بجائے خدمت کرنے اور میڈیکل کے اصولوںکے مطابق ان کی مدد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بلڈ پریشر کی مثال لیں بلڈ پریشر غصہ‘ پریشانی‘ زیادہ محنت مشقت‘ لڑائی جھگڑے وغیرہ میں بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے تین مرتبہ تین مختلف دنوں میں پرسکون حالت میں بی پی چیک کیا جائے پھر بالکل صحیح بلڈ پریشر کا پتا چلتا ہے۔ لیکن حتمی فیصلہ آپ کے معالج کا ہی ہوگا۔ مریضوں کا یہ رویہ بلڈ پریشر نہیں بلکہ علاج کے اپنے تجربات سے مختلف بات سننے پر بھی ہوتا ہے۔
پاکستان کے جگرکے سینئر ترین ماہرین میں ڈاکٹر سعد خالد نیاز ہیں۔ ڈاکٹر سعد نے بتایا کہ بہت سے مریض ہیپاٹائٹس کے علاج کے لیے رپورٹس لے کر آتے ہیں۔ ان رپورٹس کا صحیح تجزیہ نہ کرنے پر اکثر ڈاکٹرز جگر کے علاج کا مشورہ دیتے ہیں لیکن جب ڈاکٹر صاحب یہ بتاتے ہیںکہ آپ کو علاج کی ضرورت نہیں‘ علاج ہوچکا‘ آپ ٹھیک ہیں‘ بلکہ اکثر غیر ضروری علاج ہو گیا‘ تو مریض یہ بات ماننے کو راضی نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ کیا یہ سب غلط ہیں اور ہم جو اتنی رقم خرچ کر رہے ہیں‘ ہم نے بے وقوفی کی۔ اپنے تجربات سے ہٹ کر بات سننے پر وہ غصے میں آجاتے ہیں۔
مثال: پاکستان کے ایک سینئر پروفیسر نے لوگوں کی آگاہی کے لیے ایک تحریرکے ذریعے سمجھایا کہ ٹائیفائیڈ کے لیے Typhedot اور پرانے IgG and IgM کے متعلق ثابت ہو چکا ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے ٹائیفائیڈ کی تشخیص میں۔ لیکن وہ تمام لیب اور ڈاکٹروں نے جو یہ ٹیسٹ کراتے ہیں شدید غصے کا اظہار کیا۔ اور وہ اب بھی مریضوںسے غیر ضروری ٹیسٹ کروا رہے ہیں۔ مجھ پر اور کئی دوسرے ڈاکٹروں پر لوگ غصے دکھا چکے ہیں کہ آپ کیا غلط بات کرتے ہیں‘ ہمارا تجربہ ہے۔
انسانی نفسیات ہے کہ وہ اپنے غلط تجربہ کو ٹھیک سمجھتا ہے اور صحیح بات کو تسلیم کرنے کے بجائے صحیح بات کہنے والے پر ہی غصہ ہوتا ہے۔
کورنگی اور ٹھٹھہ میں مریضوں کی OPD میں پچیس سال سے کر رہا ہوں۔ معدہ کے السر یا جلن کے بہت سے مریض آتے ہیں ان میں سے اکثر بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب معدہ کے منہ میں السر ابھی شروع ہوا ہے۔ ہم نے کئی بڑے اسپتالوں میں دکھایا کہ پیٹ کا درد کا مسئلہ کیا ہے۔ اب اپنے ہی علاقے سے الٹرا سائونڈ کرایا تو پتا چل گیا کہ معدہ کے منہ پر ہی السر ہے۔ اسی لیے اتنے عرصے سے پریشان تھا۔
میری طرح سارے سینئر ڈاکٹر حیران رہ جاتے ہیں کہ پیٹ کا الٹرا سائونڈ تو جگر‘ پتا‘ تلی‘ گردوں‘ خون کی نالی وغیرہ کے لیے کیا جاتا ہے‘ عام طور پر معدہ کے بڑے زخم الٹرا سائونڈ میں نظر آسکتے ہیں لیکن معدہ کے لیے Endosocopy کراتے ہیں الٹرا سائونڈ نہیں۔
غلط باتوں کا تجربہ اور پھر غلط تجربہ کے متعلق صحیح بات معلوم ہونے پر یقین نہ کرنا۔ نفسیاتی کیفیت اکثر دیکھی جاسکتی ہے۔
اب ایک اور مثال 200 سال پہلے یورپ کی۔
یورپ میں ایک ڈاکٹر Semel Weis تھے‘یہ 1818 میں ہنگری میں پیدا ہوئے۔ یونیورسٹی آف ویانا سے تعلیم حاصل کی۔ یہ سرجن اور گائنی کے ڈاکٹر تھے۔ ہمیشہ مریضوں کے فائدے کے لیے سوچتے اور ریسرچ کرتے رہے۔ اس نے ریسرچ کی کہ اسپتالوں میں ڈیلیوری کے بعد انفکشن زیادہ ہوتا ہے‘ اموات زیادہ ہوتی ہیں اورLHV کی ڈیلیوری میں کم۔ اس نے اسپتال میں ہر ڈیلیوری سے پہلے پانی‘ کلورین سے ہاتھ دھونا شروع کیے اور مریضوں کی جان بچنا شروع ہو گئیں۔
اس زمانے کے دیگر ڈاکٹرز ہاتھ دھونے کے آئیڈیا کے شدید مخالف ہو گئے اور انہوںنے ڈاکٹر سمل ویز کی شدید مخالفت کی۔ اتنی زیادہ تنقید کی کہ ہاتھ دھونے کے آئیڈیا کو فضول اور ڈاکٹرز پر بوجھ قرا ردیا۔ سینئر ڈاکٹرز کی شدید تنقید کو ڈاکٹر برداشت نہ کرسکے اور شدید ڈپریشن میں آگئے۔ انہیں ایک دماغی صحت کے اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ ثابت ہو گیا کہ ہمیں ہاتھ دھونے کی نصیحت کرنے والے کا دماغ توازن خراب ہے۔ سائیکاٹرک اسپتال میں انہیں تنہا رکھا گیا۔ دماغی دبائو کی شدت سے وہ بالکل کمزور ہو گئے۔ انہیں مارا پیٹا گیا‘ گارڈز کے ذریعے ہاتھ میں زخم ہوا اور مینٹل اسپتال میں ہی انتقال کر گئے۔ یہ سلوک کیا یورپ کی یونیورسٹی کے ڈاکٹروں نے آپریشن اور ڈیلیوری سے پہلے ہاتھ دھونے کا آغاز کرنے والے ڈاکٹر کے ساتھ۔
آج بھی اگر کسی مریض کو بلڈ پریشر‘ سانس کی بیماری کی دوا‘ السر وغیرہ یا اس کی غیر صحت مند عادت مثلاً کھانے کے بعدکھانا ہضم کرنے کے لیے ورزش‘ باہر سے آکر ہاتھ نہ دھونا وغیرہ کے بارے میں بتایا جائے تو مریض شدید غصے میں آجاتے ہیں۔
ان تجربات سے ہم نے سائیکالوجی کا یہ علم سیکھا کہ کوئی بھی فرد چاہے عام فرد ہو یا یونیورسٹی سے فارغ اپنے تجربات سے ہٹ کر الگ کوئی مثبت بات سنتا ہے تو پہلا ردعمل غصہ ہوتا ہے۔ آسانی سے درست بات اپنے تجربے کے خلاف تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہونا۔ انسانوں کی یہ نفسیات ان سب لوگوں کو سمجھنی چاہیے جو لوگوں کے ساتھ اچھائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔