ایک دفعہ کا ذکر ہے۔کب کا؟ نہیں کہا جا سکتا!ایک انسان تھا،کہاں یہ بھی نہیں بتایا جا سکتا؟میں نے یہ کب سُنا؟کہاں سے نقل کیا؟
ہاں!تو میں کہہ رہا تھا؛اللہ کا ایک بندہ تھا۔بہت ہی گنہگار،جس نے ہزاروں معصوم انسانوں کو قتل کیا،ہزاروں کو بے گھر کیا،دنیا کا کوئی جُرم ایسا نہ تھا جو اس نے نہ کیا تھا۔
ایک دن وہ اپنے جرائم پر نادم ہوا،اس نے سوچا کہ میں فلاں گاؤں جا کر فلاں نیک بزرگ سے ملوں گا اور اُن کہوں کہ آپ اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہیں،آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ میری خطائیں معاف کردے اور آخرت میں میری مغفرت فرما دے۔
یہ فیصلہ کر کے وہ گھر سے نکلا۔ابھی اس نے توبہ نہیں کہ تھی مگر اس کا صرف ارادہ کرکے گھر سےروانہ ہو گیا تھا۔موت کا ایک دن معین ہےاورہر کسی کواس کے وقت پر آنی ہی ہے۔وہ گھر سے دوسرے گاؤں کی طرف چلا کہ اس کو موت نے آن لیا۔
فرشتوں میں جھگڑا ہو گیا،ایک نے کہا اس کا ذمہ میرا ہے میں اسے جنّت لے جاؤں گا۔ دوسرے نے کہا نہیں یہ میرا ہے میں اسے دوزخ میں ڈالوں گا۔دونوں فیصلے کے لیےاللہ قوی و عزیز کے پاس حاضر ہوئے کہ آخری فیصلہ تو اسی کا ہوتا ہے۔وہ صرف حکم دے دیتا کہ اس آدمی کون لے جائے،حکم پر عمل ہوجاتا۔
مگر انصاف ہوتا نظر آئے!اس لئے اس نے کہا کہ زمین پر پیمائش کرو جس جگہ اس کی موت واقعہ ہوئی ہے وہ اس کے گھر سے قریب ہے یا جہاں اس نے پہنچنا تھا وہ اس کے قریب۔جب ناپنے والوں نے ناپنا شروع کیا۔تو رحمٰن کی رحمت اور اس کی بندوں سے محبت غالب انصاف پر غالب آگئی۔ اس کو تو معلوم تھا کہ وہ گھر سے کتنا قریب اور اپنی منزل سے کتنا دور ہے۔اس نے گھر سے موت کی جگہ تک کی زمین کو حکم دیا کہ پھیل جاؤ اور منزل کی طرف والی زمین سے کہا سکڑ جاؤ،دونوں نے اپنے ربّ کے حکم کی تعمیل کی۔فیصلہ ہو گیا ایک دوزخی کے لیے جنّت کا۔
غور کرو ! اس نہایت ہی گنہگار بندے نے توبہ کی نہیں تھی صرف اس کا ارادہ کیا اور وہ اللہ رحمٰن و رحیم کی بندوں سے محبت کی وجہ سے آگ میں جانے سے بچا لیا گیا!!!