اصول

160

شفق کی شادی کو ابھی ایک ماہ ہی ہوا تھا کہ کھیر پکوا دی گئی۔ کھیر کیا پکی، ڈھیر سارے فرمودات کی بارش شروع ہوگئی۔ گو کہ وہ اس ایک ماہ میں اپنی دونوں جیٹھانیوں کو ان فرمودات کو پورا کرتے دیکھ رہی تھی اور اچھی طرح سے جان بھی چکی تھی کہ ساس امی کو ہر کام بروقت اور منظم طریقے سے کروانے کی عادت ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ بری طرح بوکھلا گئی تھی۔

سسر صاحب سے لے کر گھر کے چھوٹے بچے تک سب اسی ترتیب کے عادی ہوچکے تھے، مثلاً پانی کو اُبال کر ٹھنڈا کرکے کولر میں ڈالا جائے۔ سسر صاحب کا پرہیزی کھانا۔ اس کے لیے پہلے ہی فریج میں بکرے کے گوشت کے پیکٹ بنے رکھے ہوتے تھے۔ راشن کس حساب سے اور کتنے وقت میں خرچ ہونا ہے، یہ بھی ساس امی کی کڑی نگرانی میں تھا۔ اس کے علاوہ مہمانوں کی آمد یا گھر میں کوئی خوشی، یا کسی بھی فرد کو کہیں جانا ہو یا دیگر کوئی بھی امور… یہ سب ساس امی کے علم میں سب سے پہلے لایا جاتا۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا، مگر شفق سے جو بات ہضم نہ ہوپائی تھی وہ تھی رمضان کی ترتیب۔

ساس امی نے رمضان سے ایک ہفتے پہلے ہی رات کھانے کے بعد کلینڈر سامنے رکھ کر اس ماہ ہونے والی دعوتوں کے اوقاتِ کار مرتب کردیے۔ سب سے پہلا اتوار وہ اپنے سب بیٹوں اور بیٹیوں کا روزہ کھلوانے کی خواہش مند تھیں۔ اگلا اتوار ان کے میکہ اور سسرال کی دعوت تھی۔ اس سے اگلا اتوار محلے میں افطاری بھیجنے کے لیے طے کیا گیا، اور اس سے اگلا اتوار بہوئیں اپنے اپنے میکے والوں کا روزہ کھلوا سکتی تھیں۔ کسی بیٹی یا بہو کے جانے کا دن اتوار سے ہٹ کر جمعہ یا ہفتہ طے پایا۔ اس کے علاوہ عید کی تیاری، بیٹیوں کے لیے عیدی کے سامان کے لیے بھی رمضان کے پہلے ہفتے کو ہی فوقیت دی گئی۔ گھر کے سب مکینوں کو اس ترتیب کی عادت تھی، تو وہ سب گردن ہلا گئے، سوائے شفق کے جو اس قسم کی ترتیب پر نہ گردن ہلا سکی، نہ زبان۔

رات بھر اسے نیند ہی نہ آئی، اپنے گھر کے رمضان اور یہاں کے رمضان میں اسے نمایاں فرق نظر آیا۔ شایان نے بھی اس معاملے میں اس کی مدد کرنے سے انکار کردیا۔ اُس کے مطابق امی، ابو کے فیصلے کے آگے کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم سب گھر والے شروع سے اس نظام کے عادی ہیں۔

’’لیکن شایان ایسا بھی تو ہوسکتا ہے نا کہ آپ لوگوں نے احترام کی وجہ سے کبھی کوئی بات رکھی ہی نہ ہو، اور اگر صحیح بات سامنے رکھی جائے تو وہ برا ماننے کے بجائے آپ کی بات کو مثبت انداز میں لیں۔ ماشا اللہ امی، ابو سمجھ دار اور دوراندیش ہیں۔‘‘ شفق نے اسے سمجھانا چاہا۔

مگر وہ انکاری تھا ’’نہیں وہ برا مان جائیں گی کہ میں شادی کے دو ماہ بعد ہی بیگم کی زبان بولنے لگا۔‘‘

شایان کے چہرے پر خوف کے رنگ دیکھ کر شفق کی ہنسی چھوٹ گئی ’’اچھا آپ کچھ نہ کہیے، مگر مجھے اجازت دیں کہ میں امی ابو کے سامنے اپنی بات رکھ سکوں۔‘‘

’’تم کیوں گھر کا ماحول خراب کرنے پر تُلی ہو۔‘‘ شایان نے دبی دبی آواز میں غصہ کیا تو شفق کی آنکھیں حیرانی سے پھیل گئیں۔

’’میں آپ کے گھر کو ایک دینی اور پُرسکون ماحول دینا چاہتی ہوں اور آپ کو لگتا ہے کہ میں غلط کررہی ہوں! یقین مانیں اگر اس طرح رمضان کا لطف دوبالا نہ ہوا تو جو سزا چاہیں دے لیں۔‘‘

اس کی آنکھوں میں آئی نمی نے شایان کا دل پگھلا دیا۔

’’اچھا ٹھیک ہے، مگر بالکل ادب کے دائرے میں بات کرنا، اور اگر وہ راضی نہ ہوں تو ضد نہ کرنا۔‘‘

شایان نے تو اجازت دے دی مگر وہ خود بھی اندر سے سہمی ہوئی تھی۔ ایک تو نئے مزاج کے لوگ اور دوسرا اصول پسند اور رعب دار۔

’’یااللہ میری مدد کیجیے گا۔‘‘ دل میں دعا کرنے کے بعد اس نے اپنی دادی کو فون ملایا۔ وہ اپنی دادی کا عکس ہی تو تھی، اور پھر دادی نے اُس کے ڈگمگاتے اور سہمے ہوئے دل کو بڑے پیارے انداز میں ایک نیا عزم دیا، اور اب وہ پھر سے پہلے والی شفق تھی، حق بات کو پیش کرنے کے لیے تیار، باادب اور بے خوف شفق۔

’’امی کیا میں آپ سے کچھ بات کرسکتی ہوں؟‘‘ ناشتے کے بعد شفق نے بہت ہمت کرکے اجازت لی، تو سب کی نگاہیں اُس کی جانب اٹھ گئیں۔

’’جی بیٹا! کیا کہنا چاہتی ہیں آپ؟‘‘ ساس امی نے نرمی سے کہا تو اس کی ہمت بندھی۔

’’امی! میں رمضان کے حوالے سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

’’جی کہیے۔‘‘

’’امی! کیوں نا اِس رمضان کی شروعات ہم دورہ قرآن سے کریں۔‘‘

’’دورہ قرآن؟ ہم سب ہی ماشا اللہ رمضان میں اپنی اپنی ہمت کے مطابق قرآن پاک مکمل کرتے ہیں تو پھر یہ دورہ قرآن؟‘‘ بڑی جیٹھانی نے گفتگو میں حصہ لیا۔

’’قرآن پاک کو بنا سمجھے تو ہم کتنی بار مکمل کرچکے ہیں، مگر اِس بار ہم پہلے روزے سے اٹھارہویں روزے تک روزانہ مل کر بیٹھیں گے اور اس کے ترجمے پر غور کریں گے۔ آپ اس محلے میں بھی دعوت دے دیں۔ یہاں ہم سب کو قرآن پاک سے جڑنے کا موقع ملے گا۔‘‘

شفق نے ساس امی کی جانب دیکھا جہاں کوئی ناگواریت نظر نہ آئی تو اُس نے بات آگے بڑھائی ’’رمضان میں کی جانے والی ہر نیکی کا اَجر بڑھا چڑھا کر ملتا ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم مقدس ماہ کے ہر لمحے سے مستفید ہوں، تو اس کے لیے ہمیں عید کے حوالے سے ساری خریداری، یہاں تک کہ بہنوں کی عیدی کی تیاری بھی شعبان میں مکمل کرلینی چاہیے۔‘‘

’’بالکل ٹھیک۔‘‘ سسر صاحب نے اُس کی ہمت بندھائی۔ ساس امی البتہ خاموش رہیں۔

’’اور دعوتوں کے سلسلے بھی زیادہ طویل نہ ہوں۔‘‘ اس نے اٹکتے اٹکتے کہا ’’روزانہ افطاری بناتے وقت ایک پلیٹ محلے یا مستحق افراد کے لیے نکال لیا کریں گے۔ جہاں تک دعوت یا روزہ کھلوانا ہے تو جب ہماری تکمیلِ قرآن ہوگی، اسی دن سب کا روزہ کھلوا دیں اور مٹھائی بانٹ دیں۔‘‘

اُس نے چور نظروں سے ساس امی کی جانب دیکھا جو سپاٹ چہرہ لیے بیٹھی تھیں۔

’’بہنیں تو اس گھر کا ہی حصہ ہیں، ان کی الگ دعوت کے لیے پہلے اتوار والا فیصلہ برقرار رکھیں، بس کسی کی تراویح وغیرہ میں خلل نہ پڑے۔‘‘ اس کی بات سے ساس امی کے تنے تاثرات کچھ نرم پڑے۔

’’اور سب سے اہم بات، رمضان آنے سے پہلے اپنے سب روٹھے ہوئے رشتے داروں کو منا لیں، ان کو فون کریں، پہلا قدم بڑھائیں۔ یہ اللہ کو پسند ہے، اور صدقہ زیادہ سے زیادہ کریں، اپنے ملازمین کی ہر ضرورت کا خیال رکھیں، زکوٰۃ کی ادائی کے لیے اپنے زیورات وغیرہ کا وزن کرکے اس کے حساب سے زکوٰۃ ادا کردیں۔ اپنے قضا روزوں کی گنتی مکمل کرلیں اور عہد کرلیں کہ رمضان میں ہر لغو بات سے بچیں گے۔‘‘

’’رمضان کا آخری عشرہ جس میں اعتکاف بھی کیا جاتا ہے، بہت زیادہ فضیلت والا ہے۔ ہم اس کو مارکیٹ میں گھوم کر یا دیگر مصروفیات میں ضائع نہیں کریں گے، بلکہ اس کے بیش بہا فوائد پر کڑی نظر رکھیں گے۔ یہ گنتی کے چند روز ہیں جن کا اچھی طرح سے استقبال کرنا ہے۔ گھر کی صفائی کے ساتھ ساتھ دل کا کونا کونا بھی صاف کرنا ہے تاکہ ہم اس بابرکت ماہ سے بھرپور استفادہ کرسکیں۔‘‘

وہ اپنی بات مکمل کرکے خاموش ہوگئی تو سسر صاحب گویا ہوئے ’’بلاشبہ آپ نے ایک اچھی رائے دی ہے، مجھے اچھا لگا کہ آپ نے اچھی بات اپنی ذات تک محدود نہ رکھی بلکہ ہمیں بھی اس میں شامل کیا۔‘‘

سسر صاحب کی بات پر شفق نے خوش ہوتے ہوئے شایان کی جانب دیکھا جو اپنی امی کے تاثرات کھوجنے میں مصروف تھا۔ سب کو اپنی جانب متوجہ دیکھ کر ساس امی نے چھوٹی بہو کو پکارا جو اُن کے بھائی کی بیٹی بھی تھی۔

’’نجمہ بیٹی! چھوٹی بھابھی سے میری بات کرادینا، بس بہت ہوگئے دل برے۔ اب سارے گلے دور، میں بھی تو اجر سمیٹوں۔‘‘

شفق کے ساتھ ساتھ نجمہ کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔ اس نے شفق کی جانب دیکھا جو آج اس کے دل میں ایک بلند مقام پر تھی۔

حصہ