ادبی تنظیم نیاز مندانِ کراچی نے سٹی کلب آف کے ایم سی کشمیر روڈ کراچی میں مقبول زیدی‘ تنویر سخن اور عتیق الرحمن کے لیے تقریب پزیرائی کے اہتمام کے ساتھ ساتھ مشاعرہ بھی ترتیب دیا جس کی صدارت ساجد رضوی نے کی۔ بشیر احمد سدوزئی مہمان خصوصی تھے۔ زوہیب خان اور ہما ساریہ اس پروگرام کے ناظمین میں شامل تھے۔ ہما ساریہ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وہ بنیادی طور پر فیشن ڈیزائنر ہیں۔ جب کہ زوہیب خان سنگر ہیں اور وہ شاعری میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ رفیق مغلِ ایڈووکیٹ نے تلاوتِ کلام مجید اور نعت رسولؐ پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔
رونق حیات نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ انہوںنے 1996ء میں یہ تنظیم قائم کی تھی جس کے کریڈٹ پر بے شمار شان دار پروگرام ہیں۔ ہم نے قلم کاروں کے مساہل پر عالمی کانفرنس منعقد کی جس میں پاکستانی قلم کاروں کے معاملات ڈسکس کیے گئے اور حکومت سے اپیل کی گئی کہ وہ زبان و ادب کی ترقی کے لیے قائم کردہ محکموں کی کارکردگی کو غیر جانبدار بنائیں‘ من پسند قلم کاروں کو نوازنے کے بجائے جینوئن قلم کاروں کو سامنے لائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی تنظیم نظر انداز قلم کاروںکے لیے خصوصی اسٹیج فراہم کر رہی ہے اب تک ہم بہت سے نظر انداز قلم کاروں کے لیے تقریبات سجا چکے ہیں تاہم اس ادارے کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ ہم علاقائی ادب کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ہم اپنا کام نہایت تندہی اور جرأت مندانہ اندازمیں انجام رہے ہیں۔
عفت مسعود نے عتیق الرحمن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ 1986ء سے شاعری کر رہے ہیں‘ ان کی شاعری میں تمام شعری محاسن نظر آتے ہیں‘ وہ اس معاشرے کے اندر ہونے والی والی تمام تبدیلیوں کا بہ غور جائزہ لیتے ہیں اور اہم موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دیتے ہیں۔ وہ بے حد رواں مصرعوں میں بہت اچھا کلام کہہ رہے ہیں‘ ان کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ امید ہے کہ وہ مزید عزت و شہرت حاصل کریںگے۔ زاہد حسین جوہری نے مقبول زیدی کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے غزل اور نظم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزل کو بہت سے ناقدین فن پسند نہیں کرتے غزل کے خلاف اینٹی غزل بھی ادبی دنیا کے سامنے آئی لیکن غزل اپنی تمام تر مخالفتوں کے باوجود زندہ ہے اور آگے بڑھ رہی ہے۔ غزل میں یہ سہولت بھی موجود ہے کہ ہم اس کے دو مصرعوں میں اپنا مضمون بیان کر دیتے ہیں۔ غزل کے مقابلے میں نظم کہنا زیادہ مشکل ہے۔ آج کل شعرائے کرام سہل پسند ہو گئے ہیں اس وقت نظم بہت کم کہی جارہی ہے۔ نظمیہ مشاعروں کی روایت بھی دم توڑ چکی ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ مقبول زیدی کراچی کی دبستان کا حصہ ہیں‘ وہ سلام گزار ادبی فورم کے روح رواں ہونے کے علاوہ ادبی تنظیم شہ نشین کے بانی بھی ہیں۔ ان اداروں کے تحت وہ شعر و سخن کی ترقی میں حصہ دار ہیں انہوں نے حال ہی میں ایک غزل کہی ہے جس میں قرآن کی ایک سورت کے مناسبت سے مطلع کہا ہے اس میں خانہ کعبہ پر ابراہہ کے حملے اور اس کی شکست کا جائزہ لیا گیا ہے۔ میں شان دار غزل پر انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ان کی غزلیں اور نظمیں قابل ستائش ہیں‘ وہ رثائی ادب میں بھی قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
راقم الحروف ڈاکٹر نثارنے تنویر سخن کے بارے میں کہا کہ ان کی شاعری داخلی و خارجی روّیوں کی مظہر ہے‘ ان کے ہاں غمِ جاناں اور غمِ دنیا بھی نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں غزل کے نئے نئے مضامین تراشے ہیں‘ ان کے ہاں مزاحمتی رنگ‘ معاشرتی حالات‘تلمیحات‘ تغزل‘ یاسیت اور رجاعیت کے عکس نظر آتے ہیں انہوں نے کسی کا لب و لہجہ نہیں چرایا بلکہ اپنا اندازِ سخن لوگوں کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ان کی شاعری محبت اور سچائی سے استوار ہے‘ ان کی شاعری لطیف جذبوں اور رومانی احساسات کی آئینہ دارہے‘ ان کے کلام میں تصنع اور ابہام نہیں ہے۔ انہوں نے تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن غزل ان کی شناخت ٹھہری۔
اس کے بعد مشاعرے میں ساجد رضوی‘ رونق حیات‘ مقبول زیدی‘ عتیق الرحمن‘ تنویر سخن‘ زاہد حسین جوہری فیاض علی خان‘ پروین حیدر‘ ڈاکٹر نثار‘ نسیم کاظمی‘ فخراللہ شاد‘ شجاع الزماں شد‘ عارف شیخ‘ مرزا عاصی اختر‘ رانا خالد محمود‘ شہناز رضوی‘ احمد سعید خان‘ یاسرسعید صدیقی‘ جمال احمد جمال‘ رفیق مغل ایڈووکیٹ‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ قمر جہاں قمر‘ علی اسعد‘ افضل شاہ‘ شاہ فہد‘ گل افشاں‘ ہما ساریہ‘ خلیل قریشی‘ عروج واسطی‘ دلشاد زیدی‘ چاند علی‘زعیم ارشد‘ تاجور شکیل‘ صاحبہ جعفری‘ نعمت منتہا‘ زوہیب خان‘ منیف اشعر اور عفت مسعود نے اپنا کلام پیش کیا۔ اس پروگرام میں پروین حیدر‘ رفیق مغل ایڈووکیٹ اور چاند علی نے تمام صاحبانِ اعزاز کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔
ساجد رضوی نے صدارتی خطاب میں کہا نیاز مندان کراچی نے زندہ شعرا کے بارے میں ادبی ریفرنس کا اہتمام کیاہے جو کہ ایک اچھا قدم ہے ورنہ مرنے کے بعد ہم یادِرفتگان کے حوالے سے ادبی پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ آج کے مشاعرے میں زندہ اشعار سنائے گئے ہر شاعر نے خوب داد و تحسین حاصل کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعر اپنے معاشرے کا سفیر ہوتا ہے‘ اس کا فرض ہے کہ معاشرتی اقدار کو نظم کے‘ ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔ یہ شاعری کا غیر تحریر شدہ نصاب ہے۔ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہیے تاکہ ہر شخص کو بہترین زندگی میسر ہو شاعری بھی اس کی اہم شاخ ہے۔ شاعری سے ذہنی آسودگی کے علاوہ ہماری معلومات میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ مشاعروں کا ادارہ ہر زمانے میں موجود ہے۔ شاعری کی ترقی میں ہمیں حصہ شامل کرنا چاہیے ۔ جو تنظیمیں شاعری کی محفلیں سجا رہی ہیں وہ قابل ستائش ہیں‘ ہمیں چاہیے کہ ہم ادبی اداروں کی معاونت کریں۔