رضی الدین سید کی سوانح عمری:گزرگئی زندگی اپنی کی تقریب رونمائی

203

گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں رضی الدین سید کی سوانح عمری ’’گزر گئی زندگی اپنی‘‘ کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی۔ تقریب کی صدارت ضیغم محمود رضوی ، سابق مشیر تعمیرات حکومت پاکستان نے کی جب کہ مہمان خصوصی سینٔر صحافی محمود شام صاحب تھے۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا۔ تقریب کی پہلی مقررہ مذکورہ کتاب کی مرتبہ مہوش خولہ راؤ نے اپنے خطاب میں بتایا کہ رضی الدین سید کو میں نے ہی سوانح حیات لکھنے پر آمادہ کیا تھا ورنہ وہ اس کے حق میں نہ تھے۔ دو شہروں کے فاصلے کے باعث سید صاحب اپنی داستان وائس نوٹس کی صورت میں انہیں بھیجتے تھے جنہیں وہ لیپ ٹاپ پر کمپوز کرتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ گو یہ ایک مشکل اور صبر آزما کام تھا لیکن رضی الدین سید کے تعاون سے ڈیڑھ سال میں مکمل ہوا۔ مہوش خولہ رائو نے بتایا کہ سید صاحب بہت محنتی اور عزم والے آدمی ہیں اور زندگی کے ہر میدان میں انہوں نے کامیابی کے پرچم گاڑے ہیں۔

تقریب کی دوسری مقررہ راقم الحروف تھی جس نے بتایا کہ رضی الدین سید کی داستان حیات صرف ایک فرد واحد کی زندگی کی کہانی نہیں ہے بلکہ ملک کی 75 سالہ سیاسی، سماجی، اخلاقی اور معاشی حالات کی بھی تصویر ہے۔ رضی الدین سید تین درجن کتابوں کے مصنف ہیں جب کہ یہودیت اور صہیونیت ان کا خاص موضوع ہیں۔ مختلف جامعات میں تحقیقی مقالات پر طلبہ ان کی کتابوں سے استفادہ کر تے ہیں۔

تیسرے مقرر ’’گزرگئی زندگی اپنی‘‘ کے بنیادی کردار رضی الدین سید نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ وہ ساتویں جماعت ہی سے لکھنے پڑھنے کے شوقین رہے ہیں اور اسی دور سے وہ رسائل و اخبارات میں چھپ بھی رہے ہیں۔ لکھنے لکھانے کی دلچسپی کے باعث ہی وہ میٹرک اور فرسٹ ایئر میں قلمی اخبار اور رسالہ نکالتے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جب اخباروں میں بچوں اور طالب علموں کے صفحے الگ سے شائع ہونے لگے تو ان صفحات کے لکھنے والوں میں وہ بھی شامل ہوگئے۔ کتابوں اور تحریر سے انہیں بہت گہرا شغف رہا ہے جب کہ بچپن ہی سے ان کا ذہن کچھ تحقیقی بھی رہا ہے۔

سید صاحب نے بتایا کہ ان کے دور میں والدین اپنے بچوں کی تربیت پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ محلے کا ہر بڑا فرد، بچوں کا چچا ہوتا تھا جسے ہر بچے کی تربیت کا حق حاصل تھا۔ والدین بھی اس بارے میں ان سے کوئی سوال جواب نہیں کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ چالیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ان کے بے شمار مضامین اخبارات اور رسائل میں شائع ہو چکے تھے تاہم وہ یہ سوچتے تھے کہ تب تک ان کی ایک بھی تصنیف نہیں ہے۔ چنانچہ پہلی بار انہوں نے اپنے شائع شدہ کالموں کا مجموعہ ’’حکایتیں کیا کیا‘‘ کے نام سے شائع کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے سازشی حادثے کے بعد ان کی توجہ یہودیت اور صیہونیت کی جانب مائل ہوئی۔ اس موضوع پر بارہ کتابیں تصنیف و ترجمہ کیں۔ بعد ازاں مطالعے اور تحقیق کے بعد انہیں عیسائیت، خواتین، امریکہ اور اسلام پر بھی مطالعے کا شوق پیدا ہوا جس کے نتیجے میں ہر موضوع پر ایک ایک کتاب تصنیف کی۔ ان کی کتابیں آج ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کے کام آتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت تک وہ تقریباً تین درجن کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں جب کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم نے انہیں ان کی کتاب ’’مسلم حکومتیں کیسی بلندی‘ کیسی پستی‘‘ پر شیلڈ اور سند سے بھی نوازا۔

اپنی پیشہ وارانہ زندگی سے متعلق انہوں نے کہا کہ ان کا تعلیمی ریکارڈ پرائمری جماعت ہی سے بہت عمدہ رہا ہے۔ تحقیق و تصنیف کی راہ میں انہیں چوبیس سال گزر چکے ہیں جب کہ ان کی بعض کتابوں کے چار اور پانچ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اپنے والدین پر انہیں فخر ہے اور آج بھی وہ انہیں اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے باپ کے موضوع پر کئی خوب صورت اشعار بھی سنائے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کتاب کی خوشبو پسند ہے۔ سائنس سے بھی رغبت ہے اور سائنسی موضوعات پر مشتمل ایک کتاب آنے والی ہے۔

اس موقع پر بزم مکالمہ کراچی کے بانی طارق جمیل بھولا والا نے رضی الدین سید کو گلدستہ پیش کیا۔

تقریب کے مہمانِ خصوصی محمود شام نے صاحبِ کتاب سے وابستگی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ کتاب زیر نظر کے مطالعے سے انہیں آج ستر اور اسی کے دہائی یاد آگئی جب ہم بھی جوان تھے اور پریس کلب بھی جوان تھا۔ لیکن افسوس کہ آج کے جوان صحافی سیکھنے کے موڈ ہی میں نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں سب کچھ آتا ہے۔ محمود شام نے شکوہ کیا کہ پریس کلب کے عہدیداران علمی و ادبی محفلوں میں کیوں خود شریک نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ رضی الدین سید کی کتاب میں قائد اعظم کا پاکستان نظر آتا ہے۔ یہ ایسے فرد کی داستانِ حیات ہے جسے صلاحیت و قابلیت کی بنیاد پر کسی میڈیا ہاوس کا ہیڈ یا اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہوناچاہیے تھا۔ لیکن ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں میرٹ کے بجائے باپ دادا کا نام اور جائے پیدائش پوچھی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کراچی پاکستان کا دارالحکومت رہا پاکستان نہ صرف دولخت ہونے کے خطرے سے بچا رہا بلکہ ترقی کے راستے پر بھی گامزن رہا۔

شام صاحب نے کتاب کے نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت اسلامی کے رکن ہونے کے باوجود، رضی الدین سید نے اپنے بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے چی گویرا کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’تمہارا باپ ایک ایسا آدمی ہے جس نے جو کچھ کہا،سب پر عمل کیا۔ اور یقین رکھو کہ وہ اپنے نظریات سے پوری طرح وفادار رہا۔‘‘

رضی صاحب کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وقت سے پہلے پیدا ہوئے۔ یعنی موجودہ زمانہ ان کی بات سمجھنے سے قاصر ہے۔

پروگرام کے صدر سابق وفاقی مشیر تعمیرات و ہائوسنگ، ضیغم محمود رضوی نے خطاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو بہترین منتظم اعلیٰ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری بدقسمتی کہ ہم نے علم کی اہمیت کو نظر انداز کردیا ہے حالانکہ دنیا کے پہلے انسان کے شرف، اشرف المخلوقات کی وجہ صرف علم ہی ہے۔ انہوں نے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ پانچ چھ سال میں پاکستانی معیشت اپنی بدترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ لہٰذا اگر عالمی طور پر ہمیں نادہندہ قرار دے دیا گیا تو تمام ایل سیز یعنی لیٹرس آف کریڈٹ کھلنے بند ہو جائیں گے اور باہر سے جو درآمدی اشیا آرہی ہیں وہ رک جائیں گی جس سے ملک میں بدترین معاشی بحران پیدا ہوگا۔ اسی لیے علم کے بعد معاش کو بہتر کرنا بہت ضروری ہے۔ مگر افسوس کہ ہماری حکومتیں ان دونوں شعبوں میں اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہی ہیں۔ حلال رزق میں اللہ نے برکت رکھی ہے جبکہ حرام رزق انسان کی نسلوں تک کو خراب کردیتا ہے۔

حصہ