ایک گھر کی کہانی

119

ایک گھر میں باپ دادا کے وقت سے ایک خاندان آباد تھا۔گھر میں سب طرف رنگ برنگےخوشبو وارپھول کھلے ہوئے تھے ۔چاردیواری کے اندردرخت پھلوں سے لدےہوئے تھے۔لڑکیاں جھولا جھول رہی تھیں۔ لڑکےبھی کھیل رہے تھے۔

سمندر پار سےکچھ دیوبلائے گئے۔زبردستی چار دیواری پھلانگ کرباغ میں کودے اِس کو برباد کیا اورگھر میں گھس گئے۔کہنے لگے:

’’یہ ہمارا گھر ہے۔ہزاروں برس پہلے سے یہ زمین ہماری تھی۔ ذلّت سےہم کو یہاں سے زبردستی نکالا گیا تھااور زمین پر در بدرپھرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔کوئی غم نہیں کہ صدیاں گزر گئی ہیں لیکن اب پھر بھی یہ گھرہمارا ہی ہے۔‘‘دیو نے پھرگھر والوں سے کہا:’’اب تم یہاں سے نکل جاؤ۔‘‘

گھر کے باسیوں نے پیارسے اُن کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ یہ ظلم نہ کرو۔مگروہ سُننے بھی تیار نہیں تھے۔اس لیے کہ سمندر پا ر والوں نےان کے ہاتھ میں جدید ہتھیاردے دئے تھے گھر والوں کے پاس کچھ نہیں تھا۔

گھر والوںنےاپنے سب بچوں کےساتھ اپنے ہی گھر کے ایک کمرے میں پناہ لے لی ۔مگر اب بھی امن تھا نہ سکون تھا۔کبھی پانی بندکرتے،کبھی بجلی بند کرتے۔کبھی پتھر پھینکتے۔گھر والوں نے پیار سےبہت سمجھایا ۔ان کوپھر بھی سمجھ نہ آیا۔ایک دن زیادہ تکرار ہوئی ۔ انہوں نے گولی چلادی اور اُن میں سے دو بڑوں کو شہید کردیا،گھر میں بچے ہی بچے رہ گئے۔

بچو! کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔بچوں نے سوچا؛’’یہ تو لاتوں کے بھوت ہیں، باتوں سے نہیں مانیں گے!‘‘ڈنڈے پتھر اُٹھائے اوردیوار پر چڑھ کردیو پر حملہ آور ہو گئے۔ایک دیومحلے میںدَوڑا رو رو کر پڑوسیوں کو جمع کیا۔قریب کےگھروں سےکوئی نہ نکلا،وہ گھر میں دبک کر رہ گئے،حالاں کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے یہ گھر کس کا ہے اور قبضہ گیر کون ہے۔ظالم کون ہے اور مظلوم کون۔

سمندر پارسےکچھ لوگ قبضہ گیروں کی مدد کو آئے،جو پہلے ہی اصل گھر والوں کے دشمن تھے۔وہ اُلٹا اصل گھر والوں پر ہی برس پڑے کہ تم نےڈنڈےاور پتھر کیوں مارے۔کسی نے نہ دیکھا کہ گھر کس کا تھا۔ کس نے ناجائز قبضہ کیا۔ کس نے گھر والوں کو قتل کیا۔

آؤ بچو!ٹھہرو!ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی۔نئی کہانی شروع ہو گئی؛گھروالے بچوں نے باہر سے کسی مدد کے بغیرڈنڈے پتھرجم کر مارے۔دیو سارے اپنے ہتھیار چھوڑ کر بھاگےاورگھرپورا بچوں کاہو گیا۔بچے بولے:

’’اللہ اکبر! اللہ اکبر!ربّ کی مدد سے کیا ہم کسی دیو سے کم ہیں؟‘‘

حصہ