’’اُف بھابھی! آپ نے تو مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا ہے، اتنے لذیذ کھانے بناتی ہیں کہ بس… مزا آجاتا ہے۔‘‘ آئیلہ نے کھلے دل سے فاریہ کے کھانوں کی تعریف کی تو وہ مسکرا دی۔
’’ہاں بہو! بہت ذائقہ ہے تمہارے ہاتھ میں۔‘‘ ساس نے بھی تعریف کی تو وہ پھولے نہ سمائی۔ مگر ان کے اگلے جملے سے وہ چونک سی گئی۔
’’اب رمضان میں باورچی خانہ تم ہی سنبھالنا اور اپنی نند کو بھی سکھا دینا، عیدکے بعد شادی ہے اور بیگم صاحبہ باورچی خانے میں جانے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔‘‘
فاریہ کی شادی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا مگر اس نے جلد ہی باورچی خانہ سنبھال لیا تھا اور گھر کے دیگر کاموں میں بھی ہاتھ بٹانے لگی تھی۔ اب رمضان میں ایک مہینہ رہ گیا تو ساس کے کہنے کے مطابق وہ ترکیبیں ڈھونڈنے لگی تھی، کیونکہ اس کو خود بھی کھانے پکانے کا بہت شوق تھا۔
آج وہ امی کے ہاں آئی ہوئی تھی۔ امی کے ساتھ باتیں کرتی جارہی تھی اور ساتھ ساتھ موبائل پر ترکیبیں بھی ڈھونڈ رہی تھی کہ ایک ڈش روزانہ امی کے ہاں ہی ٹرائی کرلوں تاکہ سسرال میں پریشانی نہ ہو۔
آخر امی سے رہا نہ گیا، بولیں ’’کیا ہوگیا ہے فاریہ، اتنی دیر سے دیکھ رہی ہوں کیا کررہی ہو آخر موبائل پر…؟ پوچھ کچھ رہی ہوں جواب کچھ مل رہا ہے۔‘‘
’’سوری امی!‘‘ فاریہ نے کہا ’’اصل میں ساس نے کہا ہے کہ رمضان میں باورچی خانہ تم سنبھالو، تو میں ذرا کھانے کی نئی نئی ترکیبیں ڈھونڈ رہی ہوں۔‘‘
’’لیکن بیٹا…! ہم نے تو تم کو ہمیشہ یہی سکھایا ہے کہ رمضان میں ہلکے پھلکے سادے کھانے، کھانے کی عادت اپناؤ اور عبادت پر توجہ زیادہ رکھو۔‘‘امی فکرمندی سے بولیں۔
’’او ہو امی! یہ تو شادی سے پہلے کی بات ہے نا، اب میری شادی ہوگئی ہے تو سسرال والوں کو بھی دکھانا ہے، اور پھر آپ ہی تو کہتی ہیں دل کا راستہ معدے سے ہوکر گزرتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں نے ہی کہا تھا، مگر میں نے یہ تو نہیں کہا کہ رمضان میں باورچی خانے ہی میں لگے رہو، اب اتنا وقت تم کھانے کی تیاری میں برباد کردو گی! اس سے بہتر ہے کہ عبادت پر توجہ زیادہ کرو۔‘‘ امی نے کہا۔
’’امی! تو میں اپنی ساس کو یہ کہوں کہ نہیں میں باورچی خانہ نہیں دیکھوں گی، صرف ملّانی بی بی بن کر نماز اور قرآن پڑھتی رہوں گی!‘‘ فاریہ نے منہ بناتے ہوئے پوچھا۔
’’کیا ہوگیا ہے فاریہ! شادی ہوگئی ہے تو اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ تم مسلمان نہیں رہیں، یا میکے میں سکھائی سب تربیت بھول گئی ہو! میں کیا ملّانی بنی ہر وقت نماز، قرآن پڑھتی رہتی ہوں رمضان میں؟ بولو۔‘‘امی کو غصہ آگیا۔
’’امی! میرا یہ مطلب نہیں تھا۔‘‘ فاریہ منمنائی۔
’’کیا میں نے تم لوگوں کو افطاری اور سحری میں بھوکا رکھا تھا؟ کچھ اچھا نہیں کھلایا؟‘‘ امی نے دکھ سے پوچھا۔
’’لیکن امی! میں سسرال…‘‘ فاریہ نے کچھ کہنا چاہا۔
’’بیٹا تم کو ہمیشہ سے کوکنگ کا زیادہ شوق رہا ہے اور رہی سہی کسر اب تو یہ ٹی وی اور موبائل پوری کردیتے ہیں، ہر چیز کی ترکیب نیٹ پر موجود ہے، صرف اور صرف کھانا، پکانا اور کھانا ہی زندگی سمجھ لیا ہے سب نے۔‘‘
’’تو امی! میں کیا کروں؟‘‘ فاریہ نے پوچھا۔
’’اب کیا کررہی ہو؟‘‘ امی نے بھی سوال کے جواب میں سوال کیا۔
’’کیا مطلب… اب کیا کررہی ہو؟‘‘ فاریہ نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے امی کی بات دہرائی۔
’’میرا مطلب ہے اب بھی تو روز ایک یا دو ڈش ہی بنتی ہے نا تمہارے ہاں؟‘‘
’’جی۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’تو رمضان میں بھی یہی معمول رکھو۔ افطاری میں ایک یا دو چیزیں صحت کے لیے جو اچھی ہوں اور صبح ہی بن جائیں۔ یہ نہیں کہ تم افطار کے وقت تک کھڑی تلائی کررہی ہو اور دعاؤں کا وقت نکل جائے۔ بس ہلکی پھلکی تلائی ہو اور کھانا صبح ہی بنالو افطاری اور سحری کا، تاکہ سارا دن باورچی خانے میں ہلکان نہ ہو۔‘‘
’’لیکن امی…!‘‘ فاریہ نے کہنا چاہا ’’اصل میں تو رمضان میں ہی ہوتے ہیں اتنے سارے مزے مزے کے کھانے۔ روزانہ دو چار چیزیں ہوں تو کتنا مزہ آئے نا۔‘‘
’’اچھا، ایک دن میں چار چیزیں بنا لو گی تو دس دن میں 40 ڈشیں ہوجائیں گی، گیارہویں روزے سے پریشان ہوگی کہ اب کیا بناؤں؟ اور آخر 21 ویں روزے تک تو تمہارا خود دل بھر جائے گا کہ کیا کروں، کتنا بناؤں… مگر گھر والوں کو عادت ہوجائے گی اور پھر تم چاہو گی بھی تو ایک ڈش نہیں بنا سکو گی۔‘‘ امی نے سمجھایا۔
’’کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں، مگر سسرال میں برا تو نہیں لگے گا؟‘‘ فاریہ نے پوچھا۔
’’جیسی عادت ڈالو گی ویسی ہی عادت ہوگی۔‘‘
’’اور ساس نے جو نند کو سکھانے کے لیے کہا ہے وہ کیا کروں؟‘‘
’’تو کس نے منع کیا ہے، اُس کو بھی اس طرح اپنے ساتھ لگاؤ کہ یہ نہ لگے کہ تم اُس کی استاد بن رہی ہو، بلکہ سہیلی بن کر سکھاؤ گی تو وہ بھی شوق سے سیکھے گی، اور اگر ساس کچھ کہیں تو اُن کو بھی آرام سے سمجھاؤ۔ اوّل تو وہ بھی سمجھ دار ہیں، کچھ نہیں کہیں گی۔ تم خود بھی سمجھ دار ہو، میرا خیال ہے ہینڈل کرسکتی ہو۔‘‘
’’ٹھیک ہے امی! میں پوری کوشش کروں گی کہ رمضان میں صرف ذائقے ہی کی تعریف نہ سمیٹوں، رمضان کی برکتیں بھی سمیٹوں۔‘‘ اس نے بات سمجھتے ہوئے کہا۔
امی مطمئن ہوکر مسکرا دیں اور سوچا: واقعی بچیوں کو ہر مرحلے پر بڑوں کے سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
رمضان کے بابرکت مہینے سے پہلے ہی فاریہ اپنا روٹین سوچ چکی تھی، اور پھر رمضان میں امی کے مشورے کے مطابق اعتدال کی روش اختیار کرتے ہوئے افطاری کا بہترین اہتمام کیا جو طبیعت پر بھی گراں نہ گزرا اور وقت کا ضیاع بھی نہ ہوا۔ ہلکی پھلکی افطاری کے باعث گھر کے تمام افراد کی طبیعت میں بھی بوجھل پن نہیں ہوا، اور فاریہ کے ساتھ ساتھ گھر کے تمام افراد نے بھی بھرپور عبادت کی، اور صرف ذائقوں اور زبان کے چٹخاروں کے ہی مزے نہیں لیے بلکہ رمضان کی برکتیں بھی خوب سمیٹیں۔ فاریہ نے اللہ کے شکر کے ساتھ ساتھ امی کا شکریہ بھی ادا کیا کہ انہوں نے اس کو صحیح راستہ دکھایا جو بے شک کامیابی کی طرف جاتا ہے۔