غزہ کی خواتین سے بچوں کی پیدائش کیلئے محفوظ جگہ اور بنیادی ضروریات تک رسائی کا حق بھی چھین لیا گیا
اقوامِ متحدہ کے ادارے ’’یو این ویمن‘‘ کے مطابق غزہ میں اب تک 9 ہزار صرف خواتین ہلاک ہوچکی ہیں۔ ہلاک ہونے والی خواتین کی موجودہ شرح کے مطابق 63 خواتین ہر روز ہلاک ہورہی ہیں جن میں 37 مائیں ہیں جو روز شہید ہورہی ہیں اور اپنے پیچھے تباہ شدہ خاندان اور بچے چھوڑ رہی ہیں۔ غزہ کے محصور علاقوں میں جنگ کو خواتین کے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے جس میں روزانہ کی بنیادوں پر خواتین کو شہید کرکے ان کے خاندان اور بچوں کو بے یار و مددگار کیا جارہا ہے۔
ان حالات میں یومِ خواتین کو غزہ کی خواتین کے نام کیا جانا چاہیے۔ غزہ کی خواتین جدید دنیا کی تاریخ کی سب سے صابر اور ثابت قدم خواتین ہیں، جن حالات میں وہ رہ رہی ہیں اور اپنے بچوں اور خاندان کو سنبھال رہی ہیں وہ انتہائی خوف ناک اور اذیت ناک ہیں۔ غزہ میں تقریباً پچاس ہزار حاملہ خواتین ہیں۔ جلد ماں بننے والی 180 خواتین روزانہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر مناسب طبی نگہداشت کے بغیر پیدائش کے عمل سے گزرتی ہیں جن کو جراثیم کُش ادویہ، بے ہوشی یا دردکُش ادویہ کے بغیر سیزیرین اور ہنگامی آپریشن کرانا پڑتا ہے۔
شمالی غزہ کے اسپتال کی ایک دائی نے این جی او ایکشن ایڈکو بتایا کہ اسرائیلی بم باری کے دوران درجنوں حاملہ خواتین کو دردِ زہ ہوگیا ہے۔
ایک خاتون جس کے گھر بم باری کی گئی تھی اور وہ ملبے کے نیچے سے بچا لی گئی تھی، اس کے جسم پر کئی جگہ فریکچر ہوا تھا، اس کے بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔ انتہائی معجزاتی طور پر وہ اور اس کا بچہ بچا لیا گیا۔ لیکن کس قدر اذیت کی بات ہے کہ اس طرح غزہ کی خواتین سے اُن کے بچوں کی پیدائش کے لیے محفوظ جگہ کا حق چھین لیا گیا۔ مائوں نے اپنی اور اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات تک رسائی کا حق بھی کھو دیا ہے، یعنی ایک لحاظ سے ان سے زندگی کا حق چھین لیا گیا۔ اسرائیل کی غزہ کی پٹی پر جارحیت کو وسعت دینے کے بعد سے 80 ہزار خواتین اپنے گھروں سے بے گھر ہوچکی ہیں۔
فلسطینی خواتین نے اس قدر مشکل حالات میں بھی جن کو وہ برسوں سے بھگت رہی ہیں،حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ’’عبیر قنیبی‘‘ نے مئی 2023ء میں عرب دنیا کی سطح کا ’’تخلیقی استاد‘‘ کے زمرے میں ’’خلیفہ ایجوکیشنل‘‘ ایوارڈ جیتا ہے۔ عبیر مغربی کنارے میں الخلیل کے علاقے میں ریاضی کی استاد ہیں، اس سے پہلے انہوں نے فلسطینی وزارتِ تعلیم کے تحت سالانہ مقابلے میں ’’بہترین فلسطینی ٹیچر‘‘ کا خطاب جیتا تھا۔
غزہ کے عشروں کے محاصرے میں فلسطینی خاتون ’’النجار‘‘ نے 2013ء میں القدس اوپن یونیورسٹی سے مارکیٹنگ سائنس میں ڈگری حاصل کی، لیکن انہیں کہیں نوکری نہ مل سکی۔ آخرکار ایک سال کی جدوجہد کے بعد صابن بنانے کی ٹریننگ لے کر گھر میں صابن بنانے کا کام شروع کیا۔ آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی سات طرح کی مصنوعات بنانا شروع کیں جن میں شیمپو، واشنگ مشین کے لیے صابن، صرف اور برتن دھونے والا صابن شامل تھا۔
انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ خواتین کو صابن بنانے کی تربیت دینے کے لیے النصیرات کیمپ میں شمولیت اختیار کی۔ 2020ء تک ان کا یہ گھریلو کاروبار مستقل ترقی کررہا تھا۔ لیکن اب وہ کہاں ہوں گی؟ محفوظ ہوں گی یا نہیں؟ یہ بتانا مشکل ہے۔
فلسطینی طالبہ سارہ ابوراشد اکتوبر 2022ء میں شام کے یرموک کیمپ میں پناہ گزیں کی زندگی گزار کر امریکا پہنچیں، ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، کامیاب رہیں اور ہارورڈ یونیورسٹی میں بہترین پوزیشن حاصل کی۔
سارہ ابو راشد شاعرہ اور ادیبہ بھی ہیں، ان کی ایک نظم امریکی یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کی جا چکی ہے، جب کہ ان کا لکھا ہوا ڈراما اب تک امریکا کے 16 مختلف شہروں میں دکھایا جا چکا ہے۔ ان کے تحقیقی مضامین مختلف امریکی تحقیقی جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔
وہ جب شام کے یرموک کیمپ سے ہجرت کرکے آٹھ سال قبل امریکا پہنچیں تو کیمپ میں فلسطینی مہاجرین انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ بھوک مٹانے کے لیے ہم فلسطینی گھاس تک کھانے پر مجبور ہوتے تھے۔
فلسطینی ڈاکٹر جنان الشاعر کو دسمبر 2016ء میں اُس ماہ کی بہترین ڈاکٹر کا ایوارڈ ورجینیا یونیورسٹی نے جاری کیا۔ ایک اور فلسطینی ڈاکٹر جن کو ’’آئرن وومن‘‘ بھی کہا گیا، ڈاکٹر عامرہ ال اصولی ہیں جن کی فروری 2024ء کے وسط میں اسرائیلی گولہ باری اور فائرنگ کے دوران زخمی فلسطینی نوجوان کو ریسکیو کرنے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
اسرائیل غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کرچکا ہے، ہزاروں خواتین، بچوں اور مردوں کو ہر طرح کے ہتھیاروں، یہاں تک کہ فاسفورس بموں سے شہید کرچکا ہے، اسپتالوں کے محاصرے کے ساتھ وہاں طبی عملے کو شہید اور گرفتار کرتا رہا، یہاں تک کہ مریضوں کو اسپتالوں سے نکال کر باہر پھینکا گیا۔ آئی سی یو کے مریضوں پر آکسیجن کی فراہمی بند کی۔ دنیا کے سارے احتجاج اور مظاہروں کا اسرائیل پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ آج غزہ میں پانی اور خوراک کی قلت کے باعث قحط کی صورت حال ہے۔ بچے اس کے باعث سسک سسک کر مر رہے ہیں۔ غزہ میں طبی خدمات کی بندش فلسطینیوں کو موت کی سزا دینے کے مترادف ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ یہ سب امریکی، برطانوی اوریورپی حمایت سے پانچ ماہ سے مستقل کرتا چلا آرہا ہے اور دنیا اس کی سفاکی کو دیکھ رہی ہے اور خاموش ہے۔
ان حالات میں غزہ کی خواتین جس بہادری اور اولوالعزمی کے ساتھ ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سربلند کھڑی ہیں، اپنے خاندان اور اپنی قوم کے لیے اپنی ہر صلاحیت کو بروئے کار لا رہی ہیں وہ پوری دنیا کی خواتین کے لیے مثال ہے۔