مال کمانے کا سیزن

192

اصغر صاحب ہمارے محلے کی وہ مشہور و معروف ہستی ہیں جنہیں سارے علاقے والے ’علامہ‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ لوگوں کو مختلف موضوعات پر درس دینا ان کا مشغلہ ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے، میرے نزدیک ان کا یہ عمل قابلِ ستائش ہے۔ کل شام خالد کو بازار سے آتے دیکھ کر اپنے مخصوص انداز میں بولے:

’’خالد میاں! خیریت تو ہے، بڑے گم سم دکھائی دے رہے ہو، کیا ہوا؟ ارے میاں اگر کوئی پریشانی ہے تو بیان کرو، میرے بس میں ہوا تو ضرور مدد کروں گا۔ دیکھو، سوچنے سے مسائل حل نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ سے لو لگانے سے ہی پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔ ماشاء اللہ رمضان المبارک کا مہینہ آن پہنچا ہے، بلکہ آ ہی گیا ہے۔ کل پرسوں تک چاند نظر آجائے گا۔ پابندی سے روزے رکھنا، عبادت کرنا، رب کے حضور سجدہ ریز ہوکر دعائیں مانگنا، ان شااللہ سب بہتر ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس ماہِ مقدس کی رحمتیں و برکتیں نصیب فرمائے اور خشوع وخضوع کے ساتھ عبادت کرنے کی توفیق دے۔‘‘

’’اصغر صاحب! بے شک رمضان المبارک کی فضیلت اور حرمت سے سبھی واقف ہیں۔ میرا مطلب ہے اس ماہِ مبارک میں رب کریم کی جانب سے عطا کی جانے والی عنایتوں پر یقین رکھنا ہمارا ایمان ہے، مجھے اس سے کب انکار ہے!‘‘

’’تو پھر کیا ماجرا ہے، یہ اداسی کیسی ہے؟ طبیعت تو ٹھیک ہے! کچھ تو بتاؤ۔‘‘

’’کیا بتاؤں اصغر صاحب! بازار سے آرہا ہوں، ہر چیز دگنے داموں میں فروخت ہورہی ہے۔ گھی، تیل، چینی اور دالوں کی قیمتیں اپنی جگہ… پیاز، لہسن، ٹماٹر سمیت ہر قسم کی سبزیوں کی قیمتوں کو پَر لگ گئے ہیں، دکان دار اپنی من مانی کررہے ہیں، طوائف الملوکی پھیلی ہوئی ہے۔ اور جہاں تک ماہِ صیام کے روزوں کی بات ہے تو یقین کریں غریب آدمی تو سال بھر کے روزے رکھ رہا ہے۔ ظاہر ہے جسے صبح ناشتے کے بعد رات کو کھانا ملے اُس کے لیے سارا سال ہی رمضان ہوگا۔‘‘

’’خالد میاں! جہاں تک دکان داروں کی من مانیوں کا تعلق ہے، اس پر ابھی بات کرتا ہوں، پہلے رمضان سے متعلق گفتگو کرلوں۔ دیکھو، ہمیں چاہیے کہ اس مہمان مہینے میں اپنے رب کو راضی کرنے کا سامان اکٹھا کریں، کیونکہ اسی ماہِ منور میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو وہ مواقع فراہم کرتا ہے جو گناہوں کی بخشش اور جہنم کی آگ سے نجات کا ذریعہ ہیں۔ تم بھی سوچ رہے ہو گے کہ میں رمضان المبارک کے متعلق تمہیں بلا وجہ تبلیغ کررہا ہوں۔ ایسی بات نہیں، میں نے سنا ہے کہ تمہارا شمار بھی اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو روزہ رکھنے میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں، میرا مطلب ہے کبھی رکھا اور کبھی چھوڑ دیا۔ خالد میاں! اگر ایسا ہے تو یہ عمل اچھا نہیں بلکہ قابلِ مذمت ہے۔ دیکھو، جس طرح موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ آنکھوں کو تراوٹ اور تسکین بخشتا ہے ٹھیک اسی طرح ہر سال رمضان المبارک کا موسم بہار اپنے دامن میں بے شمار فضیلتوں اور برکتوں کی سوغات لے کر آتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’روزہ رکھا کرو، اس کی مثل کوئی بھی عمل نہیں ہے۔‘‘ حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو بے مثل اس اعتبار سے قرار دیا ہے کہ اس میں نفسِ امارہ کو مغلوب کرنے اور اس کی خواہشوں کو دبانے کی صفت بدرجہ غایت پائی جاتی ہے۔روزوں کی یہ صفت عمومی ہے اور رمضان المبارک کے فرض روزوں کی تو بات ہی الگ ہے، ان کے فضائل اور جسمانی و روحانی فوائد کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔‘‘

’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، کبھی کبھی کوتاہی ہوجاتی ہے۔ بے شک یہ عمل ٹھیک نہیں، لیکن یہ بھی انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ ماہِ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی تمام اشیائے خورونوش کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے دور کر دی جائیں۔‘‘

’’تم نے بالکل ٹھیک کہا، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں بھی اشیائے خورونوش سمیت ہر چیز عوام کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہے؟ اسے سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ بات سیدھی سی ہے، چونکہ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے لہٰذا اس کے فوائد و برکات سے وہی مسلمان مستفید ہوسکتے ہیں جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مکمل نیک نیتی اور خدا ترسی کے ساتھ خلوصِ دل سے کوشش کریں۔ ان میں امیرکبیر، آجر، مزدور اور کسان سمیت تمام طبقات کے لوگ شامل ہیں۔ ان طبقات میں تاجر کا کردار خصوصی طور پر رمضان شریف کے حوالے سے سب سے قابلِ ذکر ہے، کیونکہ تاجر ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی اہم عنصر ہے۔ ویسے بھی اسلام میں تجارت کو دیگر تمام پیشوں میں ایک خاص فضیلت و اہمیت حاصل ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیشے کو تمام پیشوں سے افضل قرار دیا ہے، اور آپؐ نے خود بھی اسی پیشے کو اختیار فرمایا تھا۔ اس اعتبار سے رمضان المبارک میں ایک مسلمان تاجر پر دہری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ایک تو اُن آداب و قواعدِ تجارت کی سختی سے پابندی، جن کا دینِ اسلام مسلمان تاجر سے خصوصی طور پر تقاضا کرتا ہے۔ یعنی مال کی خریدوفروخت میں نرمی کا برتاؤ، ذخیرہ اندوزی سے گریز، ملاوٹ سے مکمل اجتناب، ناجائز منافع خوری سے پرہیز، مال کا عیب نہ چھپانا، پورا ناپنا اور تولنا، اور مال بیچنے کے لیے قسمیں کھانے سے احتراز، دوسرے اُن تمام باتوں سے بچنا جو مسلمان کو روزے کے اجروثواب سے محروم کردیتی ہیں، مثلاً جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، بے ہودہ باتیں کرنا، گالیاں بکنا، فضول قسم کی گفتگو کرنا، لڑنا جھگڑنا اور خلافِ شرع کاموں میں مشغول رہنا۔ اس لیے بحیثیت مسلمان ہر تاجر پر لازم ہے کہ وہ اسلام کے مقرر کردہ آدابِ تجارت کی سختی سے پابندی کرے تاکہ رزقِ حلال کمانے کا بنیادی مقصد حاصل ہوسکے۔ اگرچہ عام دنوں میں بھی ایمان داری سے تجارت کرنے کی تلقین و تاکید کی گئی ہے، لیکن رمضان المبارک میں تو اس کا خاص خیال رکھنا اور اہتمام کرنا اس لیے بھی مزید اہمیت کا حامل ہے کہ اس مبارک مہینے میں دیگر عبادات کی طرح اس کا اجروثواب بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے، اگر کوئی مسلمان تاجر رمضان کے مہینے میں احترامِ رمضان کی نیت سے اپنے مسلمان بھائیوں کی خیرخواہی کے جذبے سے اپنے مال کی قیمتوں میں رضاکارانہ طور پر کمی یا خصوصی رعایت کردے اور برائے نام منافع کمانے پر اکتفا کرے تو یہ ایک سچے مسلمان تاجر کی اصل پہچان ہے، اور جو ایسا نہیں کرتا اُس کی کمائی حرام ہوجاتی ہے اور وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ جہنم کی آگ سے بھرتا ہے۔ ناجائز منافع خوری کا مرتکب تاجر نہ صرف اس مقدس مہینے کے فیوض و برکات سے محروم ہوجاتا ہے بلکہ اپنی آخرت بھی برباد کربیٹھتا ہے۔ میرے نزدیک فی زمانہ تجارت کے پیشے سے وابستہ زیادہ افراد ماہِ صیام کو مال کمانے کا سیزن سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک آنے سے قبل ہی روزمرہ کے استعمال کی تمام اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا ہے، اس پر انتظامیہ کی خاموشی حکمرانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے، رب کریم انہیں ہدایت دے۔‘‘

اصغر صاحب اور خالد کے درمیان ہونے والی گفتگو سن کر حکمرانوں پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس وطنِ عزیز میں جس کا قیام ہی اسلام کے نام پر عمل میں آیا تھا، سارا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں کے تاجر، حکمرانوں کی آشیرباد سے چیزوں کے نرخ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ یک بہ یک بڑھا دیتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں، یہی کچھ ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ یہ عمل فقط کاروبار سے منسلک افراد کا نہیں بلکہ ہر حکومت رمضان کے مقدس مہینے کی آمد سے قبل ہی ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں من مانا اضافہ کرکے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام انجام دیتی ہے جس کے نتیجے میں چیزوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں، اس پر یہی کہنا مناسب ہوگا کہ ایک طرف آمدِ رمضان اور دوسری جانب مہنگائی کا زبردست طوفان ہے، غریب جائے تو جائے کہاں! بس یہی سچ ہے کہ رمضان سے قبل مہنگائی نے غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

حصہ