اساتذہ کو روحانی والدین کہا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے اساتذہ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو اپنے اس منصب کو نبھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر راشدہ ارتقاق علی کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے جو تقریباً نصف صدی سے جامعہ کراچی سے بہ طور معلم منسلک ہیں اور ریٹائرمنٹ کے باوجود پی ایچ ڈی/ایم فل بلا معاوضہ کروا رہی ہیں۔ شعبہ فوڈ اینڈ سائنسز ٹیکنالوجی کی چیئرپرسن بھی رہیں۔ حال ہی میں انہیں حکومتِ سندھ کی جانب سے ہائجین اعزازی سفیر بھی مقرر کیا گیا۔ جسارت سنڈے میگزین نے ان سے گفتگو کی جو قارئین کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔
جسارت میگزین: اپنے خاندان اور تعلیم کے متعلق بتایئے۔
ڈاکٹر راشدہ ارتقاق: میری پیدائش کانپور میں ہوئی۔ والد سرکاری اسکول کے پرنسپل اور ہاسٹل وارڈن تھے، سو رہائش بھی وہیں تھی۔ میری والدہ خاصی علیل تھیں، جب ان کی وفات ہوئی تب میں غالباً آٹھ برس کی تھی۔ پھر خالہ پرورش کی غرض سے اپنے پاس لے آئیں۔ پڑھائی یوپی کے مختلف شہروں میں ہوئی۔ خالو ڈسٹرکٹ جج تھے، تبادلہ ہوتا رہتا۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ پڑھائی کا خاصا حرج ہوجاتا۔ والد کوپڑھانے کا شوق تھا، جب میں آٹھویں جماعت میں تھی تو وہ مجھے اپنے پاس لے آئے۔ تعلیمی مراحل طے ہوئے۔ 1953ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے آرگینک کیمسٹری میں ماسٹرز کیا۔ شادی کے بعد پاکستان منتقل ہوگئی۔ میرے شوہر اُس وقت جامعہ کراچی میں بطور لیکچرار خدمات انجام دے رہے تھے۔ کچھ عرصے کے لیے بیرون ملک جانا پڑا۔ اس دوران میں نے مختلف کمپنیوں میں ملازمت کی اور تجربہ حاصل کیا۔ پاکستان واپس آئے تو 1978ء میں جامعہ کراچی سے بطور استاد منسلک ہوگئی۔ تین بچوں کے بعد پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تدریس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ علاوہ ازیں معروف نجی کمپنی سے بھی بطور کنسلٹنٹ وابستہ ہوں۔
جسارت میگزین: آپ کی والدہ کے انتقال کے بعد آپ کے والد نے دوسری شادی کیوں نہیں کی؟
ڈاکٹر راشدہ ارتقاق: اُن کا خیال تھاکہ اُن کی تمام تر توجہ بچوں پر ہو، حالانکہ امی کی وفات جوانی میں ہی ہوگئی تھی، ہم چھوٹے تھے۔ میں نے ابا کو دوسری شادی کے لیے قائل کرنے کی بھی کوشش کی لیکن اُن کا کہنا یہی تھا کہ بچوں کی تربیت و پرورش کرلوں یہی کافی ہے۔
جسارت میگزین: کراچی یونیورسٹی میں فوڈ اینڈ سائنسز ٹیکنالوجی کے علیحدہ شعبے کا خیال کیسے آیا؟ اس سفر میں کون سے مسائل درپیش ہوئے؟
ڈاکٹر راشدہ ارتقاق: یہ اُس زمانے کی بات ہے جب میں شعبہ آرگینک کیمسٹری میں تدریسی عمل جاری رکھے ہوئے تھی۔ فوڈ سائنس کا مختصر سا حصہ نصاب میں شامل تھا۔ پریشان کن صورتِ حال اُس وقت ہوئی جب صنعتوں سے تسلی بخش جوابات موصول نہ ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ فارغ التحصیل طلبہ صنعت کی ضرورت کے مطابق نہیں۔ یعنی علمی قابلیت کے لحاظ سے جو ضرورت انڈسٹری کی تھی وہ بدقسمتی سے ہمارے فارغ التحصل طلبہ کی تعلیم پوری نہیں کررہی تھی۔ بارہا یہ مسائل آئے تو معلوم ہوا کہ ہمارے طلبہ ڈگری حاصل کرنے کے باوجود نوکری کے اہل نہیں۔ ہم نے سنجیدگی سے غورکیا اور فی الفور عہدیداران سے بات چیت کی۔ مسائل کی نشاندہی پر اندازہ ہوا کہ انڈسٹری جو کام کررہی ہے اس کے لیے علیحدہ شعبے کا قیام انتہائی ناگزیر ہے۔ ہم نے اس خیال کو باضابطہ ڈپارٹمنٹ اور جامعہ کے ذمہ داران کے سامنے رکھا۔ مخالفت کا سامنا رہا، تاخیر ہوتی رہی۔ ابتدائی طور پر لوگ غیر یقینی صورتِ حال میں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ فوڈ اینڈ سائنسز ٹیکنالوجی کا تعلق محض کھانا پکانے سے ہے۔ شعبے کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھانے میں خاصا وقت لگا۔ مسائل کا سامنا رہا۔ منصوبہ 1987ء میں پیش کیا۔ اس دوران میرے شوہر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر منتخب ہوئے۔ بالآخر مختلف مراحل طے کرکے 1994ء میں شعبے کا باقاعدہ افتتاح ہوگیا۔ ڈپارٹمنٹ کے داخلوں سے پہلے ساری رات مجھے نیند ہی نہیں آئی کہ نہ جانے طلبہ آئیں گے بھی یا نہیں۔ مگر خوشی کی انتہا نہ رہی جب اگلی صبح پچیس سیٹوں کے لیے تقریباً آٹھ سو بچوں نے اپلائی کیا۔ خواہش ہے کہ کلیہ فوڈ اینڈ سائنسز کا قیام عمل میں آئے تاکہ نئی انڈسٹریز بھی وجود میں لائی جاسکیں۔
جسارت میگزین: آپ کی شادی1960ء میں ہوئی، آج کی شادی کے بارے میں کیا کہیں گی؟
ڈاکٹر راشدہ ارتقاق: ہمارے زمانے میں شادی نہایت سادگی سے ہوا کرتی تھی۔ قریبی رشتے داروں کی موجودگی میں ہی گھر میں سب اکٹھے ہوجاتے تھے۔ میری شادی خالہ کے گھر سے ہوئی تھی، بہت بڑا مجمع بھی تھا۔ آج کل کی شادی کی رسومات بے جا بڑھ گئی ہیں، سادگی کم ہوگئی ہے اور بے تحاشا کھانا بھی ضائع ہوتا ہے، جب کہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ کھانے کا ضیاع گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔
جسارت میگزین: اس بات کا تعین کیسے کیا جاتا ہے کہ ایم فل یا پی ایچ ڈی کے لیے آنے والے طلبہ ریسرچ کر بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ کوئی خاص طریقہ کار؟
ڈاکٹر راشدہ ارتقاق: اوّل تو بیشتر طلبہ کو پہلے سے ہی جانتے ہیں، رجحان کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ اگر کوئی ریسرچ میں دل چسپی رکھتا ہے تو اسے ابتدائی طور پر پروجیکٹ دیا جائے اور اندازہ لگایا جائے کہ تحقیقی طور پر آگے پڑھایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی طالب علم دل چسپی لے اور بروقت پروجیکٹ مکمل کرنے میں کامیاب ہو تو ضرور ریسرچ کی ہامی بھرنی چاہیے۔ علاوہ ازیں نوکری کے ساتھ ریسرچ کرنا مشکل ہوتا ہے، تو اس ضمن میں انڈسٹری ان کی معاونت کرے اور ان سے وہی کام کروائے جو انہیں ریسرچ میں بھی فائدہ دے۔
جسارت میگزین: آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، تو اُس زمانے کے تعلیمی ماحول اور آج کے تعلیمی ماحول میں کیا فرق دیکھتی ہیں؟
ڈاکٹر راشدہ ارتقاق: بہت فرق ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی اپنی روایات کے لیے
بہت مشہور رہی ہے، خاص کر وہاں تعلیمی معیار بہترین تھا۔ اُس زمانے میں لڑکیوں کی تعلیم عام نہ تھی۔ ہم بھی بس جان لگا کر پڑھنے میں لگے رہتے۔ آج کل تعلیم کے ساتھ دیگر مواقع اور دل چسپیاں اتنی ہیں کہ دھیان تقسیم ہوجاتا ہے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جامعات صنعتوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ وہ آئیں گی تو طلبہ کو بھی محسوس ہوگاکہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ان کے لیے مواقع موجود ہیں۔ ساتھ ہی نئی نئی ایجاد کی ہوئی اشیاء مارکیٹ میں لانا آسان ہوگا، خاص طور سے کھانے کی اشیاء۔ یوں بھی ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے۔
جسارت میگزین: آج تعلیمی ادارے کاروباری شکل اختیار کر گئے ہیں، آپ متفق ہیں؟
ڈاکٹر راشدہ ارتقاق: بالکل ایسا ہی ہے۔ رفتہ رفتہ تعلیم انڈسٹری بن رہی ہے۔
چلیں یہ غلط نہیں، لیکن سوچنا چاہیے کہ تعلیم کا معیار ایسا ہو کہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد قابلیت دکھائی دے۔ ہمارے زمانے میں ٹیوشن کا رواج نہیں تھا۔ بچوں کی دل چسپی کم ہوگئی ہے کہ جو کام دو گھنٹے میں ٹیوشن کے ذریعے ہوسکتا ہے تو کون سارا دن اسکول و کالج میں مغز ماری کرے! اس لیے اسکول و کالج محض وقت گزاری کی جگہ بن گئے ہیں۔ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو دل چسپی سے پڑھائیں تاکہ اساتذہ اور طلبہ کا جو رشتہ ہونا چاہیے، وہ بحال ہوسکے۔ سیکھنے سکھانے کے طریقہ کار کو بہترکرنا ہوگا۔
جسارت میگزین: شعبہ فوڈ اینڈ سائنسز ٹیکالوجی میں طلبہ و طالبات کا تناسب کیا ہے؟
ڈاکٹر راشدہ ارتقاق: ابتدا سے ہی اس شعبے کا میرٹ تقریباً 85 فیصد رہا۔ لڑکیاں پڑھائی میں زیادہ اچھی ہیں، سو میرٹ پر زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہی تھی، مگر اس سے دقت ہورہی ہے، کیوں کہ انڈسٹری میں لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور کام کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ خواتین کر بھی نہیں پاتیں۔ اس لیے ہمیں کوٹہ محدود کرنا پڑا تاکہ شعبے سے زیادہ سے زیادہ لڑکے مستفید ہوں اور صنعتوں کا بھی فائدہ ہو۔
جسارت میگزین: تحقیقی مقالات جاری ہونے کے باوجود خاطر خواہ کامیابیاں نظر کیوں نہیں آتیں؟
ڈاکٹر راشدہ ارتقاق: بدقسمتی سے انڈسٹری اور جامعہ کے تعلق اور روابط کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ریسرچ درست سمت میں نہیں ہورہی۔ تحقیق صنعتوں کی ضرورت کے مطابق ہو، یعنی وہ بتائیں کہ صنعتوں میں کیا کام چاہیے، سو اسی کی تحقیق بھی کروائی جائے۔ اس طرح تعلیم یافتہ لوگوں کی کھپت بھی ہوگی، وگرنہ ریسرچ صرف کتابوں میں بند ہوکر رہ جائے گی جیسا کہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ شعبہ تعلیم کو آگے لے جانے کے لیے فنڈز مختص کرے اور سنجیدگی سے عمل درآمد بھی کرے۔
جسارت میگزین: دیکھا گیا ہے کہ نوکری کے لیے صنعتیں سرکاری جامعات کے فارغ التحصیل طلبہ پر نجی جامعات کے طلبہ کو فوقیت دیتی ہیں، اس میں کتنی حقیقت ہے؟
ڈاکٹر راشدہ ارتقاق: جس انداز میں جامعات کی بھرمار ہے، یہ شعبہ تعلیم سے زیادہ کاروبار بن چکا ہے۔ دکھایا کچھ جاتا ہے، ہوتا کچھ ہے۔ داخلوں کے وقت سرکاری جامعات میں مار دھاڑ دکھائی جاتی ہے کہ یہ جگہ پڑھائی کے قابل ہے ہی نہیں، حالانکہ کلیہ کے اعتبار سے دونوں طرح کی جامعات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دوسری بات، ماسوائے چند نجی جامعات کے تمام تحقیقی کام سرکاری جامعات میں ہی ہورہا ہے کیوں کہ نجی جامعات اتنا خرچ کر ہی نہیں سکتیں۔ کام ہو یا نہ ہو، بہرحال نجی جامعات کی تصویر اچھی بناکر دکھائی جارہی ہے۔ دوسری جانب اساتذہ تبدیل نہیں کرسکتے، نیا خون نہیں آرہا، فنڈز کی کمی سے تعلیمی ڈھانچہ متاثر ہورہا ہے، نئی ٹیکنالوجی نہیں سکھائی جارہی۔ محض کاغذ و قلم پر کام نہیں ہوتا، مگر ان تمام تر مسائل کے باوجود سرکاری جامعات کام کررہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے‘۔ شاید اسی وجہ سے ترجیح نہیں دی جاتی۔
جسارت میگزین: بچوں میں رٹّا لگانے کی عادت کے بجائے سوچ سمجھ کر پڑھنے کی عادت کیسے بنائی جائے؟
ڈاکٹر راشدہ ارتقاق: اس کے لیے ہمیں بچوں میں سوچنے کی عادت پروان چڑھانی ہوگی۔ ہمارے یہاں سوال پوچھتے ہوئے شرم آتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ سوال پوچھنے کا مطلب کچھ نہ آنا ہے۔ حالانکہ سوال پوچھنے والا ہمیشہ بہت جانتا ہے، تبھی سوال کرتا ہے۔ اساتذہ کوطلبہ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، والدین کو بھی چاہیے کہ بچوں کے سوالات پر انہیں خاموش نہ کروائیں۔
جسارت میگزین: نصاب میں غذا اور خوراک سے متعلق تعلیم کا شامل ہونا کتنا ضروری ہے؟
ڈاکٹر راشدہ ارتقاق: غذا، بیماری اور صحت مثلث ہے۔ یہ گہرا تعلق ہے۔ غذا کے ذریعے علاج ممکن ہے، کیوں کہ صحت کا بالواسطہ تعلق غذا سے ہے۔ متوازن غذا کا استعمال کتنا اہم ہے اور کیسے کیا جاسکتا ہے، اپنی پلیٹ تین حصوں میں کیسے تقسیم کی جائے، صحت کے لیے وزن کتنا اہم ہے، گوشت سے حاصل شدہ پروٹین زیادہ مقدار میں لینا کیسے نقصان دہ ہے… یہ تمام معلومات ہوں گی تبھی ہم اپنی صحت کا خیال رکھ سکیں گے۔ اس لحاظ سے ابتدائی تعلیم برائے غذا کو نصاب میں ضرور شامل کرنا چاہیے۔
جسارت میگزین: خواتین، مائوں اور طالب علموں کے لیے پیغام؟
ڈاکٹر راشدہ ارتقاق: طالب علموں سے یہی کہوں گی کہ دل جمعی سے پڑھیں، تعلیمی اداروں میں کچھ سیکھنے کی غرض سے جائیں۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہم معاشرے کو کیا دیں گے؟ میرا مشاہدہ ہے کہ پڑھی لکھی خواتین کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں وہ پوری نہیں کرپاتیں۔ بہت سی خواتین تعلیم مکمل کرنے کے بعد گھر بیٹھ جاتی ہیں۔ گھر بیٹھ کر بھی تعلیم کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ جو کچھ انہوں نے حاصل کیا ہے اُس سے ملک، گھر اور آس پاس کے لوگوں کو حتی المقدور فائدہ پہنچایا جائے۔ اس ضمن میں ذمہ داریاں افرادِ معاشرے کو بھی نبھانی ہوں گی کہ کام کرنے والی مائوں کے لیے مددگار بن جائیں۔ اداروں میں بے بی کیئر سینٹر کا انتظام ہونا چاہیے، نیز خاندان کے افراد کو بھی خاتونِِ خانہ کے ساتھ ہاتھ بٹانا چاہیے تاکہ وہ اپنی دیگر ذمہ داریاں بخوبی ادا کرسکے۔
جسارت میگزین: وقت دینے کا بہت شکریہ۔