مشترکہ خاندانی نظام سہولت بھی مشکلات بھی

417

’’میرے بچوں کی سب سے بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ اُنہیں اپنے دادا، دادی کی صحبت میں بیٹھنا نصیب ہورہا ہے، جو ان کی تربیت کے لیے معاون ثابت ہوگا۔‘‘
’’میں ملازمت کرتی ہوں، کبھی واپسی میں دیر سویر ہوجائے تو پریشانی نہیں ہوتی، کیوں کہ گھر میں ان کے دادا، دادی موجود ہوتے ہیں۔‘‘
’’مجھے اپنے شوہر کے ساتھ ایک ہفتے کے لیے ملک سے باہر جانا پڑا، میرے بچے گھر میں ہی دادا، دادی کے ساتھ رہے۔ مجھے پریشانی نہیں ہوئی۔‘‘
یہ مشترکہ خاندان میں رہنے والی تین مختلف بہوؤں کی گفتگو ہے، تینوں نے ’’مشترکہ خاندانی نظام‘‘ کے مثبت پہلوئوں پر بات کی۔
لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ آج اکثر لڑکیاں مشترکہ خاندان میں رہنا اس لیے پسند نہیں کرتیں کہ روک ٹوک ہوگی، اپنی مرضی سے جی نہیں سکیں گی، کہیں آزادی سے آجا نہیں سکیں گی۔ یہ بات کسی حد تک صحیح کہی جاسکتی ہے، لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کہ بچیاں اس طرح سسرال میں بہت کچھ سیکھ لیتی ہیں بلکہ مضبوط ہوجاتی ہیں۔
ایک خاتون نے بتایا کہ ہماری ماں نے ہمیں گھرداری میں ماہر کردیا تھا۔ الحمدللہ دینی تعلیم سے بھی نوازا گیا، پھر مشترکہ خاندانی نظام کے باوجود گھر میں اتفاق و محبت کی فضا بھی قابلِ تعریف تھی، لیکن ہم بہنیں اتنی مشقت و تنقید برداشت کرنے کے قابل نہ تھیں۔
اتفاقاً مجھے سسرال کا ماحول ویسا نصیب نہ ہوا لیکن اس سخت ماحول نے مجھ میں زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کی قوت اور ہمت پیدا کی اور میں بہتر انداز سے زندگی کے معاملات طے کرنے کے قابل ہوگئی۔ اسی طرح ایک پڑھی لکھی خاتون نے بتایا کہ میری بہو انتہائی منہ پھٹ ہے، میں نے اُسے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن مجھے فائدے کے بجائے نقصان نظر آیا تو میں نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تاکہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو، لیکن مجھے امید ہے کہ آہستہ آہستہ وہ صحیح ہوجائے گی۔
یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں چھوٹی موٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں، انہیں نظرانداز کرنا انتہائی ضروری ہے۔
بے شک مشترکہ خاندان میں ایک دوسرے کی رائے اور خوشی کو اہمیت دینی پڑتی ہے، لیکن یہی خاندان آپ کی طاقت بن سکتا ہے، آپ کو بہت کچھ سکھا بھی سکتا ہے خصوصاً آپ کے بچوں کی تربیت میں ان کا کچھ حصہ شامل ہوسکتا ہے، لیکن شرط یہی ہے کہ درگزر سے کام لیا جائے۔
دو تین مہینے پہلے میرا دبئی جانے کا اتفاق ہوا، وہاں میرا ایک سالہ پوتا ہم دونوں میاں بیوی کے ساتھ اتنی جلدی گھل مل گیا کہ اپنے ماں باپ سے زیادہ دادا دادی کے ساتھ بیٹھنا پسند کرنے لگا اور ہمیں بھی اس نے ایک طرح سے بچہ بنادیا تھا۔ سارا دن کھیلتا، اگر میں نہ کھیلتی تو روٹھتا۔ میرا بیٹا کہتا ’’اس نے یہ سمجھا ہے کہ دادا، دادی صرف اسی کے لیے آئے ہیں۔‘‘
میرا بیٹا اسے ہمارے ساتھ اس طرح خوش دیکھتا تو کہتا ’’امی! یقین کریں اس نے آج تک اتنے قہقہے نہیں لگائے، نہ اتنا خوش نظر آتا تھا، اس میں آپ دونوں کے آنے سے مجھے بہت تبدیلی نظر آرہی ہے ماشاء اللہ‘‘۔
یہ فیملی ممبرز گھر کے رہنے والے تمام افراد کے لیے قیمتی اثاثہ ہیں جو ایک دوسرے کو نوازتے رہتے ہیں۔ ساس ہو یا بہو… دیورانی ہو یا جیٹھانی، نند، بھاوج… سب مثبت سوچ رکھیں تو سارے رشتے قابلِ برداشت نہیں بلکہ پیارے لگ سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے درگزر، تحمل، خوش اخلاقی، بھروسہ وغیرہ جیسی خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔ ہر بات پر سامنے والے پر تنقید، غیبت، الزام تراشی، جھوٹ جیسی برائیوں سے بچنا لازمی امر ہے، کیوں کہ یہی خصلتیں ایک دوسرے سے دور کردیتی ہیں۔ دینِ اسلام کی یہی تعلیمات ہیں، ان پر عمل پیرا ہونے سے رشتے ناتوں میں استحکام کے ساتھ پیار و محبت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
مجھے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپ ہر بات میں اسلامی تعلیمات کا حوالہ ضرور دیتی ہیں۔ تو اس کا جواب یہی ہے کہ میرے دین نے امت ِ مسلمہ کی دنیا و آخرت کو سنوانے کے لیے تمام سلیبس ہمارے ہاتھوں میں تھما دیا ہے جو ہمیں کہیں بھی ٹھوکر لگنے نہیں دیتا، اس پر عمل کرنا لازمی شرط ہے، اِن شاء اللہ اس طرح آپ کہیں مایوس نہیں ہوں گے۔

حصہ