رات جاگتے میں گزری۔ خرگوشوں کی پروگرامنگ اور ریموٹ کنٹرول سے ان کو مربوط کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جمال اور کمال کو کیونکہ اس سلسلے میں پہلے ہی ٹرینڈ کر دیا گیا تھا اس لیے وہ بہت انہماک کے ساتھ اس کام میں لگے ہوئے تھے۔ فاطمہ مسلسل کچن اور جمال اور کمال کے درمیان شٹل کاک کا کام کر رہی تھی۔ چائے اور پانی ایسے موقعوں کے لیے بے حد ضروری ہوتا ہے اس لیے اس کام کو اس نے سنبھال لیا تھا۔ پو پھوٹنے سے پہلے جمال اور کمال نے یہ خوش خبری سنائی کہ وہ اپنا سارا کام نہایت کامیابی کے ساتھ مکمل کر چکے ہیں۔ کام مکمل ہوتے ہی 12 عدد خرگوش آزاد کر دیئے گئے۔ تھوڑی دیر تک خرگوشوں نے جیسے فضا کو سونگھا ہو پھر چھلانگیں مارتے ٹھکانے سے باہر کی جانب دوڑ گئے۔ فاطمہ نے کہا کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اب وہ ہمیں دوبارہ حاصل ہو سکیں گے۔
اگر ان کے ساتھ کوئی اور حادثہ نہیں ہوگا تو وہ ہمارے کنٹرل ہی میں رہیں گے اور ہم ان میں سے جس کی کار کردگی دیکھنا چاہیں گے، کمپیوٹر اسکرین پر دیکھ سکیں گے کیونکہ ان کی ایک آنکھ کیمرے کی طرح کام کرتی ہے۔
ان کی کیا ضرورت پڑی، فاطمہ نے سوال کیا۔
یہ سرنگیں بنائیں گے اور چھے مختلف مقامات پر راستے بناکر ہمیں کسی نہ کسی بڑی خبر سے آگاہ کریں گے۔ ان کے سارے ناخن مصنوعی ہیں جو چٹانوں میں بھی سوراخ کر سکتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ چند دنوں میں ہی کوئی نہ کوئی مثبت نتیجہ ہمارے سامنے ضرور آئے گا۔ جہاں اس وقت جمال، کمال اور فاطمہ موجود تھے وہ قدرت کی ایک بہت ہی حسین وادی تھی جو پربت کی مشرقی سمت تھی۔ جس جگہ خرگوشوں کو چھوڑا گیا تھا یہ ایک کافی بلند پہاڑ تھا جس کی سب سے بلند چوٹی پربت کہلاتی تھی۔ کچھ ہی بلندی طے کرنے کے بعد نہ جانے کیوں چاروں جانب سے پورا پہار بالکل بنجر تھا۔ دور دور تک سبزے کا نام و نشان تک نہ تھا اور میلوں تک کا رقبہ سردیوں میں بھی گرم رہتا تھا۔ یہ اس پربت کی خاص پہچان ہوا کرتی تھی لیکن جب سے پربت میں اچانک ایک ”رانی” نے ڈیرہ لگایا، اس کی بلند چوٹی اتنی سر سبز و شاداب ہوگئی کی آس پاس کی وادیاں اس کے آگے شرمانے لگیں۔ دور دور تک سبزہ لہلہانے لگا اور چند ہی مہینوں میں درختوں نے آسمان کی جانب بلند ہونا شروع کر دیا اور یوں وہ کسی کے سامنے نہ آنی والی رانی، رانی سے پیرنی بننا شروع ہو گئی۔ در اصل یہی وہ نقطۂ آغاز تھا جب ملک کی ایجنسیوں نے اس علاقے میں دلچسپی لینا شروع کی اور جب ان کے علم میں یہ بات آئی کہ وہاں جانے والا ہر فرد رانی کا ایسا مرید بن جاتا ہے کہ وہ جان تو دے سکتا ہے لیکن اس کا حکم نہیں ٹال سکتا تو بات حیرت سے بڑھ کر تشویش میں داخل ہو گئی جس کی تحقیقات کے لیے ہی حیدر علی اور جمال، کمال کی فیمیلیوں کو پربت بھیجا گیا تھا۔
انسپکٹر حیدر علی کی قیادت میں، جس میں جمال اور کمال کی فیملی بھی شامل تھی، جانے والی ٹیم نے وہاں سے جو معلومات فراہم کیں وہ بہت ہی تہلکا خیز تھیں اور ضروری ہو گیا تھا کہ اصل حقائق کی تہہ تک پہنچا جائے اور ان کے خلاف نہ صرف قانونی کارروائی کا جواز تلاش کیا جائے بلکہ ان ثبوت اور شواہد کو دکھا کر پوری دنیا کو مطمئن بھی کیا جا سکے۔ یہی وہ عظیم کام تھا جس کو انجام دینے کی تگ و دو میں ملک کے تین سپوت لگے ہوئے تھے اور دعا کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو قبول کر لے۔
انسپکٹر حیدر علی اپنی ٹیم کے ساتھ پربت کی شمالی سمت پہنچ چکے تھے۔ ان کی ٹیم 5 افراد پر مشتمل تھی جن میں دو خواتین بھی تھیں۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ یہ سب افراد آس پاس میں رہنے والے قبائل کے روپ میں تھے۔ ویسا ہی لباس زیبِ تن کئے ہوئے تھے جیسا ان علاقوں کے مرد و زن پہنا کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ پانچ خچر تو وہ تھے جو ان کے اپنی سواری کے لیے تھے اور دو خچروں پو دیگر سامان لدا ہوا تھا۔ پاؤں میں بے شک بہت مضبوط جوتے تھے لیکن ان کا ظاہری حلیہ ایسا بنا دیا گیا تھا جیسے وہ نہایت خستہ ہوں، یہی لباس کا عالم تھا۔ انسپکٹر حیدر علی سمیت سب میک اپ میں تھے اور ان کے ساتھ ایسا ماہر میک اپ بھی تھا جو ہر قبیلے کے مطابق میک اپ کرنے کا ماہر تھا۔ حلیہ کچھ ایسا بنایا گیا تھا جیسے وہ خانہ بدوش ہوں اور ان علاقوں کے رہائشی ہونے کی بجائے پڑوسی ملک جانے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ جو سامان ان کے ہمراہ تھا وہ بظاہر ان کے استعمال ہی کا لگتا تھا لیکن حقیقت اس کے بر عکس تھی کیونکہ ان کا مشن اصل میں پربت اور پربت کی رانی کو قابو کرنا تھا۔ آج پربت کے اس جانب انسپکٹر حیدر علی کی ٹیم کا پہلا پڑاؤ تھا اور وہ اعلیٰ حکام کی جانب سے اس پیغام کے منتظر تھے جو اعلیٰ حکام کو جمال کی ٹیم کی جانب سے ملتا۔ جمال کی ٹیم کو ایسے ثبوت و شواہد جمع کرنے کی ذمے داری دی گئی تھی جن کو دنیا اگر طلب کرے تو وہ ایسے شواہد ہوں جو ناقابلِ تردید ہوں اور جو ثابت کرتے ہوں کہ پربت کی چوٹی پر جو کچھ بھی سرگرمیاں جاری ہیں وہ کسی بھی ملک کی سلامتی اور اس کی آزادی و خود مختاری کے خلاف ہیں۔ جس گھڑی بھی ایسے ٹھوس ثبوت و شواہد جمال کی ٹیم کی جانب سے موصول ہونگے تو ان کا مشن مکمل ہو جائے گا اور پھر سارا چارج انسپکٹر حیدر علی کی ٹیم کے پاس یا خفیہ کے ادارے کے پاس منتقل ہو جائے گا۔
جمال، کمال اور فاطمہ بہت مضطرب نظر آ رہے تھے اور اپنے اپنے لیپ ٹاپ پر خرگوشوں کی کار کردگی کی مونیٹرنگ کر رہے تھے۔ پروگرامنگ کر کے خرگوشوں کے دو دو جوڑے بنا کر ان کو 6 مقامات سے کھدائی کرنے کے ریڈیائی احکامات جاری کرنے کے بعد ان کو چھوڑ دیا گیا تھا اور وہ برق رفتاری کے ساتھ اپنے اپنے نشاندہی کئے ہوئے مقامات پر پہنچ کر بل بنانے میں مصروف تھے۔ جمال کی ٹیم کو پوری امید تھی کہ وہ لازماً ایسے مقام کو پالینے میں کامیاب ہو جائیں گے جہاں سے پہاڑ کو کھوکھلا کر کے اس میں ایسے پلانٹ نصب کئے گئے ہونگے جن کی مدد سے توانائی بھی حاصل کی جاتی ہو گی، زہریلی فضائیں اور دوائیں بھی تیار کی جاتی ہونگی اور ان کو مسلسل پمپ کر کے میلوں تک ان ہواؤں کے حصار کو 24 گھنٹے برقرار بھی رکھا جاتا ہوگا۔ کام صبر طلب تھا اور نہیں کہا جاسکتا تھا کہ اس کی تکمیل کب تک ممکن ہو سکے گی۔
فی الحال تو جمال، کمال اور فاطمہ کا کام اتنا ہی رہ گیا تھا کہ وہ یا تو اسکرین پر خرگوشوں کی کار کردگی کا جائزہ لیتے رہیں یا پھر خرگوشوں کے بلوں کے دہانوں پر جمع شدہ مٹی کے ڈھیروں کو وہاں سے ہٹا کر ادھر ادھر منشر کرتے رہیں تاکہ کسی بھی شخص کو یہاں سے گزرنے کے دوران مٹی کے ڈھیر متوجہ نہ کر سکیں۔(جاری ہے)