-1مریض کی عیادت ضرور کیجیے۔ عیادت کی حیثیت محض یہی نہیں ہے کہ وہ اجتماعی زندگی کی ایک ضرورت ہے یا باہمی تعاون، غم خواری کے جذبے کو ابھارنے کا ایک ذریعہ ہے، بلکہ یہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان بھائی کا دینی حق ہے اور اللہ سے محبت کا ایک لازمی تقاضا ہے، اللہ سے تعلق رکھنے والا، اللہ کے بندوں سے بے تعلق نہیں ہوسکتا۔ مریض کی غم خواری، دردمندی اور تعاون سے غفلت برتنا دراصل اللہ سے غفلت ہے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’قیامت کے روز اللہ فرمائے گا، ’’اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پرا اور تو نے میری عیادت نہیں کی؟ بندہ کہے گا ’’پروردگار! آپ ساری کائنات کے رب، بھلا میں آپ کی عیادت کیسے کرتا! اللہ کہے گا، میرا فلاں بندہ بیمار پڑا تو تو نے اس کی عیادت نہیں کی اگر تو اس کی عیادت کو جاتا تو مجھے وہاں پاتا (یعنی تو میری خوشنودی اور رحمت کا مستحق قرار پاتا) (مسلم)
اور نبیؐ نے فرمایا:
’’ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔ پوچھا گیا یا رسولؐ اللہ! وہ کیا کیا ہیں؟ فرمایا:
٭ جب تم مسلمان بھائی سے ملو تو اس کو سلام کرو۔
٭ جب وہ تمہیں دعوت کے لئے مدعو کرے تو اس کی دعوت قبول کرو۔
٭ جب وہ تم سے نیک مشورے کا طالب ہو تو اس کی خیر خواہی کرو اور نیک مشورہ دو۔
٭ جب اس کو چھینک آئے اور وہ ’’الحمدللہ‘‘ کہے تو اس کے جواب میں کہو ’’یرحمک اللہ‘‘۔
٭ جب وہ بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کرو۔
٭ اور جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائو۔ (مسلم)
اور نبیؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’جس نے اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کی وہ جنت کے بالا خانے میں ہوگا‘‘ (الادب المفرد)
حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
’’جب کوئی بندہ اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے یا اس سے ملاقات کے لئے جاتا ہے تو ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے تم اچھے رہے، تمہارا چلنا اچھا رہا، تم نے اپنے لئے جنت میں ٹھکانا بنالیا‘‘ (ترمذی)
-2 مریض کے سرہانے بیٹھ کر اس کے سر یا بدن پر ہاتھ پھیریے اور تسلی و تشفی کے کلمات کہیے تاکہ اس کا ذہن آخرت کے اجر و ثواب کی طرف متوجہ ہوں اور بے صبری اور شکوہ شکایت کا کوئی کلمہ اس کی زبان پر نہ آئے۔
حضرت عائشہؓ بنت سعدؓ بیان کرتی ہیں کہ میرے والد نے اپنا قصہ سنایا کہ ’’میں ایک بار مکے میں سخت بیمار پڑا۔ نبیؐ میری عیادت کے لئے تشریف لائے۔ تو میں نے پوچھا یا رسولؐ اللہ! میں کافی مال چھوڑ رہا ہوں اور میری صرف ایک ہی بچی ہے۔ کیا میں اپنے مال میں سے دو تہائی کی وصیت کر جائوں اور ایک تہائی بچی کے لئے چھوڑدوں؟ فرمایا: ’’نہیں‘‘ میں نے کہا: ’’آدھے مال کی وصیت کر جائوں اور آدھا لڑکی کے لئے چھوڑ جائوں اور ایک تہائی بہت ہے‘‘۔ اس کے بعد نبیؐ نے اپنا ہاتھ میری پیشانی پر رکھا اور میرے منہ پر اور میرے پیٹ پر پھیرا، پھر دعا کی:
’’اے اللہ سعد کو شفا عطا فرما۔ اور اس کی ہجرت کو مکمل فرمادے‘‘۔ اس کے بعد سے آج تک جب کبھی خیال آتا ہے تو نبیؐ کے دست مبارک کی ٹھنڈک اپنے جگر پر محسوس کرتا ہوں‘‘ (الادب المفرد)
حضرت زید بن ارقمؓ کہتے ہیں کہ ایک بار میری آنکھیں دکھنے آگئیں تو نبیؐ میری عیادت کے لئے تشریف لائے اور کہنے لگے زید! تمہاری آنکھ میں یہ تکلیف ہے تو تم کیا کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ صبر و برداشت کرتا ہوں، آپؐ نے فرمایا: ’’تم نے آنکھوں کی اس تکلیف میں صبر و برداشت سے کام لیا تو تمہیں اس کے صلے میں جنت نصیب ہوگی‘‘۔
حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ جب کسی مریض کی عیادت کو جاتے تھے تو اس کے سرہانے بیٹھتے تھے اس کے بعد سات بار فرماتے:
’’میں عظیم اللہ سے جو عرش عظیم کا رب ہے۔ سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفا بخشے‘‘۔
اور آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ دعا سات بار پڑھنے سے مریض ضرور شفایات ہوگا، الایہ کہ اس کی موت ہی آگئی ہو۔ (مشکوٰۃ)
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ (ایک بوڑھی خاتون) ام السائب کی عیادت کو آئے۔ ام السائب بخار کی شدت میں کانپ رہی تھیں پوچھا کیا حال ہے؟ خاتون نے کہا، اللہ اس بخار سے سمجھے اس نے گھیر رکھا ہے۔ یہ سن کر نبیؐ نے فرمایا: ’’بخار کو برا بھلا نہ کہو! یہ مومن کے گناہوں کو اس طرح صاف کردیتا ہے جیسے آگ کی بھٹی لوہے کے زنگ کو صاف کردیتی ہے‘‘ (الادب المفرد)
-3 مریض کے پاس جاکر اس کی طبیعت کا حال پوچھیے اور اس کے لئے صحت کی دعا کیجیے۔ نبی اکرمؐ جب مریض کے پاس پہنچتے تو پوچھتے: ’’کہیے طبیعت کیسی ہے؟‘‘ پھر تسلی دیتے اور فرماتے ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں، اللہ نے چاہا تو یہ مرض جاتا رہے گا اور یہ مرض گناہوں سے پاک ہونے کا ذریعہ ثابت ہوگا‘‘۔ اور تکلیف کی جگہ پر سیدھا پھیرتے ہوئے یہ دعا فرماتے:
’’الٰہی! اس تکلیف کو دور فرما، اے انسانوں کے رب اس کو شفا عطا فرما۔ تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کسی سے شفا کی توقع نہیں، ایسی شفا بخش کہ بیماری کا نام و نشان نہ رہے‘‘۔
-4 مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھیے اور نہ شور و غوغا کیجیے۔ ہاں اگر مریض آپ کا کوئی بے تکلف دوست یا عزیز ہو اور وہ خود آپ کو دیر تک بٹائے رکھنے کا خواہش مند ہو تو آپ ضرور اس کے جذبات کا احترام کیجیے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھنا اور شو و شغب نہ کرنا سنت ہے۔
-5 مریض کے متعلقین سے بھی مریض کا حال پوچھیے اور ہمدردی کا اظہار کیجیے اور جو خدمت اور تعاون کرسکتے ہو، ضرور کیجیے۔ مثلاً ڈاکٹر کو دکھانا، حال کہنا، دوا وغیرہ لانا اور اگر ضرورت ہو تو مالی امداد بھی کیجیے۔
حضرت ابراہیم بن ابی حیلہؒ کہتے ہیں: ’’ایک بار میری بیوی بیمار پڑ گئیں۔ میں ان دنوں حضرت ام الدرداؓ کے پاس آیا جایا کرتا تھا۔ جب میں ان کے پاس پہنچتا تو فرماتیں کہو تمہاری بیوی کی طبیعت کیسی ہے؟ میں جواب دیتا اببھی تو بیمار ہیں پھر وہ کھانا منگواتیں اور میں ان کے یہاں بیٹھ کر کھانا کھاتا اور واپس جاتا۔ ایک دن جب میں پہنچا اور انہوں نے حال پوچھا تو میں نے بتایا کہ اللہ کے فضل و کرم سے اب قریب قریب اچھی ہوگئی ہیں۔ فرمانے لگیں جب تم کہتے تھے کہ بیوی بیمار ہیں تو میں تمہارے لئے کھانے کا انتظام کردیا کرتی تھی اب جب وہ ٹھیک ہوگئی ہیں تو اس انتظام کی کیا ضرورت ہے‘‘۔
-6 غیر مسلم مریض کی عیادت کے لئے بھی جایئے اور مناسب موقع پاکر حکمت کے ساتھ اس کو دین حق کی طرف متوجہ کیجیے،بیماری میں آدمی اللہ کی طرف نسبتاً زیادہ متوجہ ہوتا ہے اور قبولیت کا جذبہ بھی بالعموم زیادہ بیدار ہوتا ہے۔
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبیؓ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ ایک بار وہ بیمار پڑا تو آپؐ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ آپؐ اس کے سرہانے بیٹھے تو اس کو اسلام کی دعوت دی، لڑکا اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا جو پاس ہی موجود تھا (کہ باپ کا خیال کیا ہے؟‘) باپ نے لڑکے سے کہا (بیٹے!) ابوالقاسم کی بات مان لے، چنانچہ لڑکا مسلمان ہوگیا۔ اب نبیؐ اس کے یہاں سے یہ کہتے ہوئے باہر آئے: ’’شکر ہے اس اللہ کا جس نے اس لڑکے کو جہنم سے بچالیا‘‘ (بخاری)
-7 مریض کے گھر عیادت کے لئے پہنچیں تو ادھر ادھر تاکنے سے پرہیز کیجیے اور احتیاط کے ساتھ اس انداز سے بیٹھیے کہ گھر کی خواتین پر نگاہ نہ پڑے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ایک بار کسی مریض کی عیادت کے لئے گئے۔ ان کے ہمراہ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ گھر میں ایک خاتون بھی موجود تھیں۔ حضرت کے ساتھیوں میں سے ایک صاحب اس خاتون کو گھورنے لگے۔ حضرت عبداللہؓ کو جب محسوس ہوا تو فرمایا اگر تم اپنی آنکھیں پھوڑ لیتے تو تمہارے حق میں بہت بہتر ہوتا۔
-8 جو لوگ اعلانیہ فسق و فجور میں مبتلا ہوں اور نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ اللہ کی نافرمانی کررہے ہوں ان کی عیادت کے لئے نہ جایئے۔
-9 مریض کی عیادت کے لئے جایئے تو مریض سے بھی اپنے لئے دعا کرایئے۔
’’ابن ماجہ‘‘ میں ہے: ’’جب تم کسی مریض کی عیادت کو جائو تو اس سے اپنے لئے دعا کی درخواست کرو۔ مریض کی دعا ایسی ہے جیسے فرشتوں کی دعا‘‘ (یعنی فرشتے اللہ کی مرضی پاکر ہی دعا کرتے ہیں اور ان کی دعا مقبول ہوتی ہے)۔
ملاقات کے آداب
-1ملاقات کے وقت مسکراتے چہرے کے ساتھ استقبال کیجیے، مسرت و محبت کا اظہار کیجیے اور سلام میں پہل کیجیے اس کا بڑا ثواب ہے۔
-2 سلام اور دعا کے لئے ادھر ادھر کے الفاظ نہ استعمال کیجیے، نبیؐ کے بتائے ہوئے الفاظ ’’السلام علیکم‘‘ استعمال کیجیے، پھر موقعہ ہو تو مصافحہ کیجیے، مزاج پوچھیے اور مناسب ہو تو گھر والوں کی خیریت بھی معلوم کیجیے، نبیؐ کے بتائے ہوئے الفاظ (السلام علیکم) بہت جامع ہیں، اس میں دین و دنیا کی تمام سلامتیاں اور ہر طرح کی خیر و عافیت شامل ہے یہ بھی خیال رکھیے کہ نبیؐ مصافحہ کرتے وقت اپنا ہاتھ فوراً چھڑانے کی کوشش نہ کرتے، انتظار فرماتے کہ دوسرا شخص خود ہی ہاتھ چھوڑ دے۔
-3 جب کسی سے ملنے جایئے تو صاف ستھرے کپڑے پہن کر جایئے۔ میلے کچیلے کپڑوں میں نہ جایئے، اور نہ اس نیت سے جایئے کہ آپ اپنے بیش بہا لباس سے اس پر اپنا رعب قائم کریں۔
-4 جب کسی سے ملاقات کا ارادہ ہو تو پہلے اس سے وقت لے لیجیے، یوں ہی وقت بے وقت کسی کے یہاں جانا مناسب نہیں، اس سے دوسروں کا وقت بھی خراب ہوتا ہے اور ملاقات کرنے والا بھی بعض اوقات نظروں سے گر جاتا ہے۔
-5 جب کوئی آپ سے یہاں ملنے آئے تو محبت آمیز مسکراہٹ سے استقبال کیجیے۔ عزت سے بٹھایئے اور حسب موقع مناسب خاطر تواضع بھی کیجیے۔
-6 کسی کے پاس جایئے تو کام کی باتیں کیجیے۔ بے کار باتیں کرکے اس کا اور اپنا وقت ضائع نہ کیجیے ورنہ آپ کا لوگوں کے یہاں جانا اور بیٹھنا ان کو کھلنے لگے گا۔
-7 کسی کے یہاں جایئے تو دروازے سے اجازت لیجیے اور اجازت ملنے پر، السلام علیکم کہہ کر اندر جایئے اور اگر تین بار السلام علیکم کہنے کے بعد کوئی جواب نہ ملے تو خوشی خوشی لوٹ آیئے۔
-8 کسی کے یہاں جاتے وقت کبھی کبھی مناسب تحفہ بھی ساتھ لیتے جایئے۔ تحفہ دینے دلانے سے محبت بڑھتی ہے۔
-9 جب کوئی ضرورت مند آپ سے ملنے آئے تو جہاں تک امکان ہو اس کی ضرورت پوری کیجیے۔ سفارش کی درخواست کرے تو سفارش کردیجیے اور اگر اس کی ضرورت پوری نہ کرسکیں تو پیار بھرے انداز سے منع کردیجیے۔ خوامخواہ اس کو امید نہ بنائے رکھیے۔
-10 آپ کسی کے یہاں اپنی ضرورت سے جائیں تو مہذب انداز میں اپنی ضرورت بیان کردیجیے پوری ہوجائے تو شکریہ ادا کیجیے نہ ہوسکے تو سلام کرکے خوشی خوشی لوٹ آیئے۔
-11 ہمیشہ یہی خواہش نہ رکھیے کہ لوگ آپ سے ملنے آئیں۔ خود بھی دوسروں سے ملنے جایئے۔ آپس میں میل جول بڑھانا اور ایک دوسرے کے کام آنا بڑی پسندیدہ بات ہے مگر خیال رکھیے کہ مومنوں کا میل جول ہمیشہ نیک مقاصد کے لئے ہوتا ہے۔
-12 ملاقات کے وقت اگر آپ دیکھیں کہ ملنے والے کے چہرے یا ڈاڑھی یا کپڑوں پر کوئی تنکا یا کوئی اور چیز ہے تو ہٹادیجیے۔ اور اگر کوئی دوسرا آپ کے ساتھ یہ حسن سلوک کرے تو شکریہ ادا کیجیے اور یہ دعا دیجیے: ’’اللہ آپ سے ان چیزوں کو دور فرمائے جو آپ کو ناگوار ہیں‘‘۔
-13 رات کے وقت کسی کے یہاں جانے کی ضرورت ہو تو اس کے آرام کا لحاظ رکھیے۔ زیادہ دیر نہ بیٹھیے اور اگر جانے کے بعد اندازہ ہو کہ وہ سوگیا ہے تو بغیر کسی کڑھن کے خوشی خوشی واپس آجایئے۔
-14 چند افراد مل کر کسی سے ملاقات کے لئے جائیں تو گفتگو کرنے والے کو گفتگو میں سب کی نمائندگی کرنی چاہیے۔ گفتگو میں اپنی امتیازی شان ظاہر کرنے، اپنی اہمیت جتانے، اپنے ساتھیوں کو نظر انداز کرنے اور مخاطب کو صرف اپنی ذات کی طرف متوجہ کرنے سے سختی کے ساتھ پرہیز کیجیے۔