حجاب عورت کا حصار ہے

130

اسلام دینِ فطرت ہے جس نے عورت کو شیطان کی مکروہ چالوں سے محفوظ کیا اور ذلت و بے حیائی کی دلدل سے نکال کر عزت واحترام کے اعلیٰ مقام پر بٹھایا، اسے خوب صورت نازک آبگینہ قرار دیا۔

عورت اس انمول موتی کی طرح ہے جس میں شرم و حیا مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے، اور یہ شرم و حیا دینِ اسلام کی پہلی ترجیح ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب تم حیا نہ کرو تو پھر جو چاہے کرو۔‘‘

عورت کو گھر کی ملکہ قرار دیا اور اسے آنے والی نسلوں کی تربیت جیسی اہم ذمے داری سونپی تو مرد کو بھی معاش اور بیرونی معاملات کا ذمے دار ٹھیرایا۔ عورت کو حجاب میں رہنے کا حکم دیا تو مرد کو بھی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا۔ پردہ مرد اور عورت دونوں پر لازم ہے۔

عورت اللہ کے لطف و جمال اور صفتِ تخلیق کا مظہر ہے۔ شیطان جب کسی سماج کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا سب سے پہلا وار عورت کی حیا پر ہوتا ہے۔

یہی کام اس نے آدم و بی بی حوّا کے ساتھ کیا۔ یہ اس کی چال تھی جس میں وہ آج تک اہلِ ایمان کو پھنساتا آرہا ہے۔

حجاب کا مطلب ہے کیا؟
دو چیزوں کے درمیان ایسی چیز کو حائل کردینا جس سے دونوں ایک دوسرے سے اوجھل ہوجائیں‘ پردہ یا حجاب کہلاتا ہے۔

انسان اشرف المخلوق ہے اور پردے کا مقصد اس کی حفاظت کرتے ہوئے اسے حیوانی طرزِ زندگی، مخلوط معاشرے، جنسی آوارگی اور بے حیائی سے تحفظ دے کر پاکیزہ ماحول فراہم کرنا ہے۔

بے پردگی کی ابتدا نظروں کے بے حجابانہ استعمال سے ہوتی ہے۔ اس لیے حدیثِ پاک میں ہے کہ ’’یہ نظر کا زنا ہے۔‘‘

سورۂ نور میں ہے: ’’اے نبیؐ مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظروں کو نیچا رکھیں۔‘‘

یہی حکم مردوں کے لیے بھی ہے۔ پردے کا حکم 5 ہجری میں آیا۔ اس کے فوراً بعد یہ وحی نازل ہوئی: ’’اے نبیؐ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجیے کہ جب گھر سے باہر نکلا کریں تو اپنے اوپر چادر کا پلو لٹکا لیا کریں۔‘‘

اس کے بعد تمام مسلمان گھروں کے دروازوں پر پردے لٹک گئے۔

پردہ اور حیا دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک اٹھ جائے تو دوسرا خود بہ خود اٹھ جاتا ہے۔ حیا کے بغیر ایمان ناممکن ہے۔

بے حیائی اُم الخبائث ہے جس نے مغربی معاشرے میں جنسی آوارگی کے سبب انسان کو حیوانیت کے منصب پر لا کھڑا کیا ہے۔
بے پردگی دراصل بے حیائی کا نقطہ آغاز ہے، بے پردگی کو فروغ دینے اور معاشرے کے اسلامی تشخص کو پامال کرنے میں میڈیا کا کردار سب سے اہم ہے۔
شیطان اور اس کے چیلوں کی پہلی ترجیح نیک اور پاکیزہ بیٹیوں کو بے پردہ کرکے بے حیائی کی طرف راغب کرنا ہے۔
پاکستان میں بھی فرنگی تمدن اپنے قدم جما چکا ہے اور مغرب کی مصنوعی چکاچوند سے مرعوب ہوکر ایک مخصوص طبقہ پردے کو فرسودہ قرار دینے کے لیے تیار ہے۔ مگر ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں باحیا اور باکردار ہیں۔ انہیں دینی احکامات، قومی وقار اور اپنے تشخص کا پورا خیال ہے۔ جوں جوں شعور اور آگاہی میں اضافہ ہورہا ہے پاکستانی خواتین میں پردے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے۔ یقینا وہ دن دور نہیں جب یہ خواتین اسلامی انقلاب کی ہیرو ثابت ہوں گی۔ حجاب نقیبِ انقلاب بن کر دلوں پر دستک دے گا۔ حجاب زبردستی اور جبر کا نام نہیں بلکہ محبت، ترغیب اور تعلیم کا نام ہے کہ عورت کی عزت اوراحترام میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے گی۔

حصہ