حویلی کے احاطے میں گاڑیاں تیار کھڑی تھیں، ہر طرف چہل پہل اور رونق سی لگی تھی۔ جہانگیر خان اپنے بندوں کو خاص ہدایات دے کر حویلی کے رہائشی حصے کی طرف آگیا۔ یہاں بھی خوب ہلچل تھی۔ علاقے کی خاصی عورتیں جمع تھیں۔ وہ سیدھا اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھا جہاں اس کی بیوی پلوشہ ہی نہیں اُس کی پانچوں بہنیں، بھانجیاں، بھتیجیاں اور دیگر رشتے دار خواتین بھی موجود تھیں۔ اسے کمرے کا ماحول دیکھ کر حیرت ہوئی۔ لڑکیاں میچنگ میں سبقت لے جانے پر تلی ہوئی تھیں، کوئی ہیئر اسٹائل بنا رہی تھی تو کوئی میک اَپ کا پلستر چڑھا رہی تھی۔ خود پلوشہ بھی بار بار ہونٹوں پر میرون لپ اسٹک پھیر کر قد آدم آئینے میں اپنا جائزہ لے رہی تھی۔ جہانگیر خان کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔ یہ عورتیں تو ایسے تیاری میں لگی ہوئی ہیں جیسے حویلی سے بارات نکلنے والی ہو۔
’’پلوشے!‘‘ اس نے رعب دار آواز میں بیوی کو پکارا تو ساری کی ساری اپنی تیاریاں بھول کر مؤدب ہوگئیں۔ خود پلوشہ نے جلدی سے دوپٹہ وجود پر پھیلایا اور اس کے قریب آگئی۔
’’تم لوگوں کا دماغ تو ٹھیک ہے! کس لیے اتنی تیاریاں ہورہی ہیں؟ پولنگ بوتھ جانا ہے ووٹ ڈالنے، اور فیشن تم ایسے کررہی ہو جیسے مامے کے بیٹے کی شادی میں جارہی ہو۔ چلو اب جلدی جلدی برقعے پہنو اور باہر نکلو، گاڑیاں تیار ہیں… اور ہاں اپنے اپنے شناختی کارڈ لینا نہ بھولنا، ورنہ میں سب کے سامنے بھول جاؤں گا کہ تم سب سے میرا کیا رشتہ ہے۔‘‘
اس کی ڈانٹ پر سبھی اندر سے کپکپا گئیں۔ اس نے سب پر نگاہ ڈال کر حکم جاری کیا، پھر اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہوا۔
’’اور تم… تم تو جہالت میں سب سے آگے ہو۔‘‘ قصور پلوشہ کا ہو نہ ہو، پَر ڈانٹ سب سے زیادہ اسے ہی پڑتی تھی۔ جیسے ہی وہ کمرے سے باہر گیا، پلوشہ نے برا سا منہ بناکر ہاتھ کے اشارے سے دفع دور کیا اور اپنا نیا ٹوپی والا برقع سر پر جمانے لگی۔
ڈرائیور کے برابر بیٹھا وہ مسلسل گھر کی عورتوں کو ہدایات دے رہا تھا کہ ٹھپہ صرف چراغ پر لگانا ہے جو ان کی پارٹی کا نشان ہے، غلطی سے بھی کسی کی مہر کرسی کو نہ لگے جو اس کے مخالفوں کا نشان تھا۔ آج الیکشن کا دن تھا اور پورے ملک میں جوش و خروش اور افراتفری تھی، ہر نیوز چینل پر الیکشن ٹرانسمیشن چل رہی تھی، تمام شہر پارٹیوں کے جھنڈوں اور بینروں سے سجے تھے، پولنگ اسٹیشنوں پر لمبی لمبی قطاریں تھیں، پارٹیوں کے دفاتر پر رونق کا عجب عالم تھا، دیگیں پک رہی تھیں، مٹھائیاں بٹ رہی تھیں… کہیں کہیں سے لڑائی جھگڑوں کی بھی اطلاعات تھیں۔ جہانگیر خان کا چاچا زرداد خان قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہا تھا۔ جہانگیر خان اُس کی انتخابی مہم چلانے میں بھرپور ساتھ دے رہا تھا۔ پچھلی بار جس پارٹی نے زرداد خان کو ٹکٹ دیا تھا اِس بار وہی پارٹی اس کی مخالف تھی۔
پولنگ بوتھ میں داخل ہوتے ہی جہانگیر خان پارٹی ورکروں کی طرف بڑھ گیا تھا۔ وہ سب کی سب زرداد خان کی فیملی سے تھیں، اس لیے انہیں لائن میں نہیں لگنا پڑا، فوراً ہی انہیں کمرے میں جانے کے لیے راستہ دے دیا گیا تھا جہاں انہیں ووٹ کی پرچی ملنی تھی۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے پلوشہ نے دیکھا دور کھڑا جہانگیر خان کسی ماڈرن طرح دار عورت سے ہنس ہنس کر بات کررہا تھا۔ اس کے دل میں ٹیس سی اٹھی، اس لیے نہیں کہ وہ عورت کے ساتھ کھڑا تھا، اس لیے کہ وہ اس عورت سے یقینا الیکشن اور سیاست کے حوالے سے ہی بات کررہا تھا۔ اسے دو دن پہلے کی بات یاد آئی جب وہ ٹی وی پر نشر ہونے والا کوئی سیاسی منظرنامہ سن رہا تھا۔ پلوشہ نے اس سے کہا ’’جہانگیر تمہاری پارٹی کے منشور میں عورتوں کے حقوق کم رکھے گئے ہیں جب کہ مخالف پارٹی نے اس پر زیادہ زور دیا ہے، اگر تم لوگ بھی اس طرف توجہ دو تو پارٹی کے مفاد میں اچھا ہوگا۔‘‘
جہانگیر نے حیرت سے اسے دیکھا۔ ’’تم تو اپنی باتیں رہنے دو، اتا پتا کچھ ہے نہیں، چلی ہیں سیاست پر بات کرنے۔ حویلی میں رہتی ہو، آنے جانے کے لیے لینڈ کروزر، پجارو دروازے پر کھڑی ملتی ہیں، اچھا کھانا، پہننا… اور کون سا حق چاہیے تمہیں!‘‘ وہ گڑبڑا سی گئی۔
’’نہیں، میں تو منشور کی بات کررہی تھی، پارٹی کی پوزیشن کی بات کررہی تھی۔‘‘
وہ طنزیہ ہنسا ’’یہ تم جاہل عورتوں کے کرنے کی باتیں نہیں ہیں، یہ مردوں کی باتیں ہیں، وہی طے کرتے ہیں کہ کیا منشور بنانا ہے، کیا نہیں۔ تم صرف کھاؤ پیو، عیش کرو اور بچے پالو، بس۔‘‘
جہاں وہ ’’بس‘‘ کہہ دیتا تھا، بس بات وہیں ختم ہوجاتی تھی۔
انگوٹھے پر نیلی لکیر کھنچوا کر اس نے پولنگ آفیسر سے پرچی لی اور پردے کے پیچھے چلی گئی۔ سب سے پہلے اس نے پرچی اپنے ہونٹوں سے لگائی پھر اس پر مہر لگاکر بند کردی۔ چراغ اور کرسی میں مقابلہ ٹاکرے کا ہوا۔ اگلی صبح تک غیر حتمی نتیجے کا اعلان ہوگیا، چند ووٹوں کے فرق سے زرداد خان ہار گیا تھا۔ حویلی کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔ ہر طرف سوگ کی فضا طاری ہوگئی۔ ہر مرد غصے سے بھرا ہوا تھا۔ لمبی لمبی کالوں میں سب مصروف تھے۔ جہانگیر خان نے ساری رات زرداد خان کی حویلی میں گزاری تھی۔ پلوشہ کا خیال تھا کہ وہ سرکاری نتائج کے اعلان سے پہلے اپنی حویلی واپس نہیں آئے گا، لیکن تھکن اور اعصابی کھچاؤ لیے وہ اعلان سے پہلے ہی حویلی واپس آگیا تھا۔ سب اپنے اپنے کمروں میں ٹی وی کے آگے بیٹھے تھے۔ اس کے کمرے سے بھی خبروں کی آواز آرہی تھی لیکن دروازہ کھولتے اس کے ہاتھ پلوشہ کی آواز سن کر رک گئے، شاید وہ اپنی عزیز از جان سہیلی زرمینہ سے بات کررہی تھی۔
’’مجھے سمجھ نہیں آتی زرمینے کہ یہ مرد خود کو اتنا طرم خان کیوں سمجھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ گھر میں سو انچ کی ایل ای ڈی لگا دی جائے اور عورت کے ہاتھ میں ڈھائی لاکھ کا موبائل دے دیا جائے تب بھی عورت جاہل ہی رہے گی! ان کے خیال میں صرف یہ بات رہتی ہے کہ ٹوپی والے برقعے میں عورت کی عقل بھی دفن ہوگئی ہے، لیکن انہیں پتا نہیں ہے کہ عورت صرف کھاتی نہیں ہے، سوچتی بھی ہے، اسے بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی تکلیفوں کا بھی خیال آتا ہے، گھر داری پر ہی نہیں اس کی نظر اب سیاست کے معاملات پر بھی ہے، عورت کی بھی اپنی کوئی رائے ہے، اپنی پسند ناپسند ہے، وہ بھی بات کرنا چاہتی ہے، اپنی سوچ کے مطابق حقِ رائے دہی استعمال کرنا چاہتی ہے، مگر یہ مرد ہمیشہ عورت سے اپنی پسند کے نشان پر ٹھپہ لگوانا چاہتے ہیں۔‘‘
پلوشہ کی باتیں اس کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھیں، لیکن ابھی اس کی سماعتوں کو کچھ اور بھی سہنا باقی تھا جب پلوشہ بلند قہقہہ لگاکر زرمینہ کو بتا رہی تھی ’’قسم سے زرمینے مجھے اتنا مزا آیا کہ کیا بتاؤں، سب سے پہلے میں نے کرسی پر اپنے ہونٹوں کا ٹھپہ لگایا اور پھر مہر کا۔‘‘
اسی وقت جہانگیرخان دروازہ کھول کر دھاڑا ‘‘پلوشے!‘‘
ڈھائی لاکھ کا موبائل بدحواس پلوشہ کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جاگرا تھا۔