ادبی تنظیم تخلیق کار کا مشاعرہ

233

کراچی پریس کلب میں تنظیم تخلیق کار نے مشاعرہ ترتب دیا جس کی صدارت وضاحت نسیم نے کی۔ خالد عرفان مہمان خصوصی اور ذکیہ غزل مہمان اعزازی تھیں۔ سحر علی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ سلمان صدیقی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ کراچی ایک بڑا شہر ہے‘ یہاں پر بہت سی ادبی تنظیمیں زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہیں اس وقت یہ صورت حال ہے کہ ایک دن میں کئی کئی ادبی پروگرام چل رہے ہوتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اب کراچی میں امن و امان بہتر ہے جس کے سبب ادبی تقریبات پورے عروج پر ہیں۔ انہوںنے مزید کہا کہ ہم تخلیق کارکے تحت ہر ماہ مشاعرہ کرائیں گے اور ہر مشاعرے میں آپ کو اچھی شاعری ملے گی۔ آپ ہمارے ساتھ جڑے رہیے اللہ تعالیٰ آپ کو ڈھیروں خوشیاں نصیب فرمائے۔ تخلیق کار کی روح رواںحجاب عباسی نے کلماتِ تشکر ادا کیے انہوںنے کہا کہ مشاعرے بھی ہماری تہذیب کا حصہ ہیں ہر زمانے میں یہ ادارہ کام کرتا ہے اور لوگوں کو شاعری سننے کے مواقع فراہم کرتاہے اس وقت بھی دبستان کراچی میں اچھی شاعری ہو رہی ہے تاہم دبستان پنجاب میں بھی شاعری میں کسی سے کم نہیں۔ بہرحال ادبی ترقی ہو رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ جدید الیکٹرانک سہولیات کے سبب ہماری معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے اب تو عروض ڈاٹ کام میسر ہے جو یہ بتا دیتا ہے کہ آپ کا مصرع وزن میں ہے یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ تمام حاضرین محفل کی شکر گزار ہیںکہ جن کی وجہ سے آج کا مشاعرہ کامیاب ہوا۔ وضاحت نسیم نے صدارتی خطاب میں کہا کہ تمام اصناف فنون لطیفہ میں شاعری سب سے زیادہ پاور فل ہے اس کا ابلاغ بہت جلد ہوتا ہے۔ غزل کا ہر شعر ایک چھوٹی سی نظم ہے جس میں بڑے سے بڑا مضمون سمویا جاتا ہے جو لوگ شاعری کر رہے ہیں وہ معاشرے کی فلاح و بہبود میں اپنا حصہ شامل کر رہے ہیں کیوں کہ شعرائے کرام معاشرے کا اہم طبقہ ہے۔ علاء الدین خانزادہ نے کہا کہ کراچی پریس کلب ادبی سرگرمیوں کا ایک اہم ادارہ ہے۔ ہم اپنے طور پر بھی بہت سے پروگرام منعقد کرتے ہیں اور دیگر ادبی اداروں کے ساتھ بھی تعاون کرتے ہیں۔ ہم انہیں ادب کے فروغ کے لیے پروگرام کی اجازت دیتے ہیں۔ دعاکیجیے ادب کی ترقی کا سفر جاری رہے۔ خالد عرفان نے کہا کہ وہ کراچی کے نمائندہ ہیں‘ اس شہر نے انہیں بہت عزت و شہرت دی ہے تاہم وہ جب بھی کراچی آتے ہیں مشاعروں میں شریک ہوتے ہیں۔ آْج کا مشاعرہ بھی کامیاب ہے‘ میںتخلیق کارکے ممبران کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اس موقع پر وضاحت نسیم‘ خالد عرفان‘ ذکیہ غزل‘ سلمان صدیقی‘ اختر سعیدی‘ ڈاکٹر نثار‘ حجاب عباسی‘ علاء الدین خانزدہ‘ سیمان نوید‘ سحر علی سحر‘ سلیم فوز‘ سلیم عباس‘ شاہدہ عروج اور سلمیٰ رضا سلمیٰ نے اپنا کلام نذرسامعین کیا۔

 

ادبی تنظیم شہر نشین کا مذاکرہ اور مشاعرہ

تنظیم شہر نشین نے گلستان جوہر میں ساجد رضوی کی صدارت میں مذاکرہ اور مشاعرے کا اہتمام کیا۔ مذاکرے کا موضوع تھا ’’فلمی شاعر کو آدھا شاعر کیوں کہتے ہیں۔‘‘ اس پروگرام میں رونق حیات اور مطلوب علی زیدی مہمان خصوصی تھے۔ آصف رضا زیدی اور پروین حیدر مہمانانِ اعزازی تھے۔ مقبول زیدی نے نظامت کے فرائض کے ساتھ ساتھ مذاکرے کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ دنیائے ادب کے شاعر اور فلمی شاعر میں فرق ہے۔ فلمی شاعری کا کینوس تنگ ہوتا ہے‘ وہ فلم کے کرداروں کے مطابق اشعار کہتا ہے‘ اس کو فلمی ڈیمانڈ بتا دی جاتی ہے لہٰذا شاعری بھی اسی کے اردگرد گھومتی ہے۔ فلمی شاعری محدود ہوتی ہے جب کہ عام شاعر اپنی مرضی کے مطابق اپنے اشعار میں مضامین باندھتے ہیں۔ شاعر اپنے معاشرے کا نباض ہوتا ہے وہ اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ماحول سے متاثر ہوتا ہے اور معاشرے کے حالات کو نظم کرتا ہے‘ وہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ فلمی شاعری اور عام شاعری میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انہی اسباب کی بنا پر ہم فلمی شاعر کو آدھا شاعر کہتے ہیں۔ رونق حیات نے کہا کہ عام شاعری اور فلمی شاعری میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ فلمی شاعری فلمی ڈیمانڈ کے تحت شاعری کرتا ہے اور وہ فلمی سین کے اردگرد گھومتا ہے بعض اوقات تو یہ ہوتا ہے کہ شاعر کو فلمی سین سمجھا دیا جاتاہے یا میوزک کمپوز کرکے سنا دیا جاتاہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ اس فلمی سین پر شاعری کریں۔ فلمی شاعری وقتی طور پر اچھی لگتی ہے مگر وہ پائیدار نہیں ہوتی۔ جب کہ عام شاعر کسی پابندی کا محتاج نہیں ہوتا‘ وہ اپنی مرضی سے موضوعاتی شاعری بھی کرتا ہے اور مزاحمتی شاعری بھی اور غزل کے روایتی رنگ بھی اپنی شاعری میں شامل کرتا ہے۔ ساجد رضوی نے کہا کہ فلمی شاعری میں زیادہ تر گیت ہوتے ہیں ان کے بحور الگ ہوتی ہیں۔ ہماری شاعری کی بحور الگ ہوتی ہیں فلمی شاعر کو ہم نغمہ نگار کہیں تو زیادہ بہتر ہے۔ ادبی شاعری کا ویژن بہت بلند ہوتا ہے‘ وہ ہمیں ذہنی آسودگی کے ساتھ ساتھ بہت سی اہم معلومات بھی فراہم کرتی ہے۔ مشاعروں کے ذریعے بھی شاعری ترقی کرتی ہے لہٰذا جو لوگ مشاعرے کرا رہے ہیں وہ بھی قابل مبارک باد ہیں۔ آج کی محفل میں ہر شاعر نے اچھا کلام پیش کیا تاہم شاعرات کے زندگی کے مسائل کے علاوہ نسائی مسائل بھی کیے۔ صدارتی خطاب کے بعد ساجد رضوی نے اپنی غزل سنائی۔ ان کے بعد مطلوب زیدی‘ رونق حیات‘ آصف رضا زیدی‘مقبول زیدی‘احمد سعید خان‘ گل افشاں‘ تنویر سخن‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ جمال احمد جمال‘ شاہ فہد‘ عروج واسطی اور ذہین عرشی نے اپنا کلام پیش کیا۔ اس مذاکرے میں زاہد حسین جوہری‘ پروین حیدر‘ تنویر سخن‘ شاہد نقوی‘ احمد سعید خان‘ رانا خالد محمود نے بھرپور انداز میں فلمی شاعری پر سیر حاصل بحث کی۔

حصہ