گرکس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

295

’کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے‘… آٹھ فروری آئی تو سہی ،کسی کو خوش کر گئی اور کسی کو اداس جنہیں خوش کر گئی وہ شادیانے بجا رہے تھے جنہیں غم دے گئی وہ نوحہ گری کر رہے تھے اس دن کے لیے کس قدر تگ و دَوکی گئی ۔عوام سے کس قدر وعدے کیے گئے وعدے سچیّ تھے یا جھوٹے یہ تو بعد کی بات ہے:

’’فتح شکست تو نصیبوں سے ہے ولے اے میر‘‘

جن کے نصیب میں جو تھا انہیں مل گیا… پاکستان کو کیا ملا …بی بی سی کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے… ’’پاکستان نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ حالیہ انتخابات کے بعد ملک میں استحکام ہوتا مشکل نظر آرہا ہے ‘‘…جس ملک میں استحکام نہ ہوگا نہ تو وہاں امن ہوگا اور نہ ہی امان وہاں صرف شیطان ہوگا اسی کی حکمرانی ہوگی اسی کی گل فشانی اور عوام کی قسمت میں چاک دامانی۔ ملک زادہ منظور احمد کا ایک شعر یاد آگیا ملاحظہ کیجیے…

زندگی میں پہلے تو اتنی پریشانی نہ تھی
تنگ دامنی تھی لیکن چاک دامانی نہ تھی

8 فروری بروز جمعرات ہم بھی اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے گھر سے نکلے پولنگ اسٹیشن پہنچے وہاں پولیس اور رینجرز کا اِزدِحام دیکھ کر پہلے تو ہم گھبرائے ،پھر چکرائے، پھر ہوش و حواس قابو میں لائے ۔اندر گئے ایک سرکاری اہلکار نے دو عدد بیلٹ پیپر پکڑا دیے ایک قومی اسمبلی کا دوسرا صوبائی اسمبلی کا ۔قومی اسمبلی کے پیپر پر 30 اور صوبائی اسمبلی کے پیپر پر 27 امّیدواروں کے نام تھے ۔ہم دوبارہ چکرا گئے کہ یا اللہ میاں اتنے سارے امّیدوار امّید سے ہیں اور یہ سب اس وقت تک امّیدسے رہیں گے جب تک انتخابات کے نتائج کی deliveryنہیں ہو جاتی۔

ہمارے ملک میں جمہوری نظام ہے اور ملک کا نام ہے’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ لفظ’’ اسلامی جمہوریہ‘‘ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ جمہوریت کی کوئی قسم ہے جبکہ اسلام میں جمہوریت نام کی کوئی شے نہیں ہے بلکہ خلافت ہے مگر ہماری بد نصیبی کہ ہم مغرب کے اشاروں پر چلتے چلے آرہے ہیں اور اپنے ملک و قوم کو تباہ و برباد کرنے میں برابر کے حصّے دار ہیں وطن ِعزیز میں جمہوریت کا بھرم رکھنے کے لیے بہت ساری سیاسی پارٹیاں وجود میں آئیں کوئی ABC ،کوئی BBC اور کوئی TTC ۔بہر کیف انگریزی زبان کے بیشتر حروفِ تہجّی استعمال کر کے انگریز دانوں کی روحوں کو ثواب پہنچایا گیا۔ غرض یہ کہ ہمارا ملک نہ ہوا سیاسی پارٹی کا جمعہ بازار ہو کر رہ گیا ہے۔ مغرب کے نقشِ قدم پر چلنے کا اتنا ہی شوق ہے تو ان کی طرح فقط دو پارٹی بنا لی جائے اور انہی کے درمیان مقابلہ ہو چاہے کانٹوں کا ہو یا گُل بوٹوں کا۔ میں نے تو ان دونوں پارٹیوں کے نام بھی تجویز کر لیے ہیں اگر اربابِ دانش اور ارباب ِغیر دانش میری ناقص رائے سے اتفاق کریں تو۔

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

ایک کا نام’’ آزاد پارٹی‘‘ اس کا نشان ’’شاہین ‘‘ہوگا دوسری کا’’ غلام پارٹی‘‘ اس کا نشان’’ کرگس‘‘ ہوگا (کرگس مُردار کھاتا ہے یعنی حرام کھاتا ہے)۔ دو پارٹی بنانے کے بے شمار فوائد ہیں بیلٹ پیپر پر صرف دو نام اور دو نشان ہوں گے اس طرح سے اربوں روپیے کاغذ اور پرنٹنگ کے بچ جائیں گے ٹرانسپورٹ میں بھی سہولت ہوگی اور عوام کے لیے بھی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ 30 امّیدواروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا خاصا مشکل ہے دو امّیدواروں میں بہت آسانی ہے ذہین افراد اپنی ذہنیّت اور فکری استطاعت کے مطابق اپنے نمائندے کا انتخاب کر سکتے ہیں جبکہ کم ذہین یا یوں کہہ لوں کہ جو بھولے بادشاہ ہیں وہ یا تو ٹاس کر لیں ورنہ اکّڑبکّڑ بمبے بول کر بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔

اگر انتخابات شفاف ہوئے جس کی قوی امّید ہے تو غلام پارٹی کا پلڑا ہر حال میں بھاری ہوگا غلام پارٹی کا سربراہ ملک کا وزیراعظم بنے گا ۔کیا شان ہوگی اس کی ۔تیرھویں صدی کی یاد تازہ ہو جائے گی جب ہندوستان میں’’ خاندانِ غلامان ‘‘نے شان دار حکومت کی تاریخ گواہ ہے کہ ان بادشاہوں نے کبھی کسی سے بھیک نہیں مانگی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا سوائے اللہ کے۔ وہ مخلص تھے اپنی زمین کے لیے ان کا کسی بیرونی ملک میں کھاتا نہیں تھا وہ انصاف پسند تھے ۔

غلام پارٹی کی ذہنیت کیوں کہ غلامانہ ہوگی بقول علامہ اقبال ’’تری نگاہ غلامانہ ہو تو کیا کہیے‘‘ …لہٰذا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے میں اسے کوئی عار نہ ہوگی دیار ِغیر کے آستانے پر سجدہ ریزی اس کی فطرت ہوگی جس کے آگے ہاتھ پھیلائے جائیں گے اس کے تابعدار ہوں گے اس کا ہر حکم واجب الاذعان ہوگا قرض لیے جائیں گے عیّاشی کیے جائیں گے۔ چچا غالب یاد آگئے…

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

اور اس فاقہ مستی کا خمیازہ بشکلِ ٹیکس رعایا بھگتے گی بس اسی فارمولے پر حکومت کی نیّا چلتی رہے گی اور کسی وقت بھی ڈوب سکتی ہے لہٰذا اے غیرت مند پاکستانیو! ہوش کے ناخن لو، ملک کی باگ ڈور اس کے حوالے کرو جو اس کا اہل ہو ،جو ایمان دار ہو، دیانت دار ہو ،خوددار ہو بھیک منگا نہ ہو۔ غیرت مند ہو بے غیرت نہ ہو، اپنی زمین سے محبت کرنے والا ہو زمین کا سودا کرنے والا نہ ہو ۔یہ زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا نعمت ِ خداوندی جسے ہم ارضِ پاک کہتے ہیں ہم ہی اس کے پاسبان ہیں‘ اس کے نگہبان ہیں‘ اس میں ہماری جان ہے۔ یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔ میری تجویز کردہ’’ آزاد پارٹی‘‘ جس کا نشان ’’شاہین ‘‘ہے ،میرے ہم وطنو! شاہین کا انتخاب کریں شاہین بن کر رہیں شاہین اور کرگس کا فرق علامہ اقبال کے ایک شعر سے صاف ظاہر ہے…

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

حصہ