خودداری مومن کی معراج ہے

634

خودی جب تک فنا کے گھاٹ خود چل کر نہیں جاتی
نمازِ عشق رب کے دیدار سے محروم رہتی ہے

خودداری، احترامِ ذات، تکریمِ نفس، احساسِ ذات اللہ پر توکل اور حالاتِ جبر میں صبر و شکر کا نام ہے۔ قناعت کی چادر ہے۔ خودی مومن میں اپنے رب پر کامل یقین پیدا کر دیتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’جس نے طاغوت کا انکار کیا، اللہ پر ایمان لایا گویا اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی چھوٹنے والا نہیں۔ اللہ سننے والا اور با خبر ہے۔‘‘ (البقرہ)

اسلام خودداری اور عزتِ نفس کی حفاظت کا درس دیتا ہے۔ جب کوئی شخص کسی سے کچھ مانگتا ہے تو اس کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی عزتِ نفس کو ذلت میں ڈالے۔‘‘ (ترمذی)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کون ہے جو مجھے ایک بات کی ضمانت دے؟‘‘ حضرت ثوبانؓ نے فرمایا ’’میں ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ آپ ؐنے فرمایا ’’لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔‘‘

اسلام میں جہاں مانگنے سے منع فرمایا گیا ہے وہیں نہ مانگنے کی فضلیت بھی بیان کی گئی ہے۔

مانگنے سے مر جانا بہتر ہے۔ مانگنے والے کی غیرت مر جاتی ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا: ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘

ہر صاحبِ ایمان اپنی نمازوں کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ میں یہ ورد کرتا ہے کہ ’’اے اللہ! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد طلب کرتے ہیں۔‘‘ پھر کیسے ایک مسلمان اللہ کے سوا کسی غیر اللہ سے مدد مانگے! یہ تو مومن کی خودداری کے منافی ہے۔

یہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم کو جوتے کا تسمہ مانگنا ہو تو وہ بھی اللہ سے مانگو۔ اللہ مسبب الاسباب ہے، وہ تمہارے لیے غیب سے مدد فرما دے گا۔‘‘

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک، ہر نبی اور رسول خودداری کی شمع فروزاں تھے۔ تمام انبیائے کرام اور رسولوں کو اللہ تعالیٰ نے سخت آزمائشوں سے گزارا لیکن ان کے لبوں پر صبر و شکر کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے اپنا خلیل (اپنا دوست) کہا۔ خلیل اللہ کو جب آگ میں پھینکا جا رہا تھا تو حضرت جبرائیل آئے اور کہا ’’اللہ نے مجھے بھیجا ہے، میں آپؑ کی کیا مدد کروں؟‘‘ تو خودی سے سر شار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا ’’میرا رب جانتا ہے، وہ میری مدد کیسے کرے گا۔‘‘پھر اللہ نے آگ کو حکم دیا کہ میرے خلیل کے لیے تُو گل و گلزار ہو جا۔

علامہ اقبال نے کہا:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

میری خودی کو نہیں گوارہ
جو دینا ہے مجھ کو تُو بے طلب دے

حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کر دیا گیا مگر انہوں نے امان طلب نہیں کی۔ حضرت زکریاؑ آرے سے چیر ڈالے گئے لیکن اُف تک نہ کی۔ حضرت یوسفؑ 12 سال زنداں میں قید رہے مگر اللہ کے سوا کسی سے کوئی مدد نہ مانگی۔ حضرت یعقوبؑ برسوں بیمار رہے لیکن اللہ کے سوا کسی کو نہیں پکارا۔ آپؐ 13 سال مکہ میں ستائے گئے، شعب ابی طالب کی محصوری ہو یا طائف میں سنگ باری‘ ہر حال میں صبر و شکر کے کوہِ گراں بنے رہے۔ یہ خودی اور توکل علی اللہ ہی تھا جو پہاڑ کی طرح دین پر جمے رہے۔ حضرت بلالؓ کو ننگی پیٹھ، پتھر باندھ کر گرم ریت پر گھسیٹا جاتا مگر زبان سے ’’احد احد‘‘ کی آواز آتی۔

خودی کا سرِ نہاں لا الٰہ الااللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الٰہ الااللہ

خودی کے راستے میں دنیا کے لٹ جانے اور چھن جانے کا خوف آتا ہے۔

یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الااللہ

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور اے نبیؐ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دو کہ میں اُن کے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ یہ بات تم انہیں سنا دو شاید کہ وہ راہِ راست پا لیں۔‘‘ (البقرہ 177)

جب ہمارا پالن ہار ہمارے قریب ہے، ہمارے دکھ سُکھ کو جانتا اور سنتا ہے کیوں کہ وہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی، وہ علیم بھی ہے اور خبیر بھی، تو ایک صاحبِ ایمان کا ایمانی تقاضا ہے کہ وہ اپنی خودی کی حفاظت کرے اور اپنے رب سے ہی لو لگائے۔

جب بندہ اپنے تمام معاملات کو اپنے رب کے حوالے کر دیتا ہے تو آگ گل و گلزار بن جاتی ہے، چھری اسماعیلؑ کا گلا نہیں کاٹتی، سمندر موسیٰؑ کو راستہ دے دیتا ہے، یوسفؑ کو زندان سے نکال کر تخت پر بٹھا دیتا ہے، بدر میں قلیل کو کثیر پر فتح یاب کرتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ اپنے ہر بندے پر نظر رکھتا ہے۔

پوری کائنات اس کی مٹھی میں ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، اس کے ’’کن فیکون‘‘ سے زیر و زبر ہوتا ہے۔ وہی بیماری ڈالتا اور صحت یاب کرتا ہے۔ وہی رازق و خالق ہے، پھر غیر سے کیوں مانگنا!

ایک خود دار اور اللہ والے کے سامنے پوری ریاست اور ظالم حکمران بے بس ہوجاتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کے سامنے نمرود، موسیٰ علیہ السلام کے سامنے فرعون، عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے قیصر روم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ابوجہل اور سردارانِ قریش، الف مجدد ثانیؒ کے سامنے مغل شہنشاہ۔ یہ تو انبیا، رسولوں اور اللہ کے ولیوں کی مثالیں ہیں۔ آج کے جدید دور کے انقلابیوں کا کردار بھی قابلِ ذکر ہے۔ خمینی نے اللہ کے بھروسے پر ہزار سالہ ایرانی شہنشاہیت کو زمیں بوس کردیا۔ مسلمانانِ برصغیر نے علما اور بعد میں قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں کلمہ توحید لا الٰہ الااللہ کے نعرے کی گونج میں دو سامراجی طاقتوں برہمن سامراج اور برطانوی سامراج سے نہتے لڑ کر پاکستان حاصل کیا۔ چترال کی وادی سے لے کر خلیج بنگال اور بولان کے صحرا سے لے کر راس کماری کے ساحلوں تک ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الااللہ‘‘ اسی کی برکت تھی کہ نصرتِ الٰہی اتری اور نا ممکن ممکن ہوا۔

درویشوں اور ولیوں کی خودی کا عالم یہ تھا کہ وہ کبھی اپنے دور کے سلاطین کے درباروں میں نہیں گئے بلکہ وقت کے نامور سلطان اور خود خلیفہ چل کر ان کی کٹیا میں گئے اور نصیحتیں حاصل کیں۔ بہلولؒ دانا ہوں یا جنید بغدادیؒ … قطب الدین بختیار کاکیؒ ہوں یا سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتیؒ …نہ وقت کے امام ان کے سامنے جھکے اور نہ ان کی عقلیت پسندی کو قبول کیا بلکہ زندانوں کی صعوبتیں برداشت کرتے کرتے شہید ہوگئے۔ امام حنبلؒ، ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ سب کے سب صبر و رضا کے بے مثل روشن چراغ تھے اور آج امت ان ہی کو مانتی ہے۔

سیم و زر سے عزت ملتی نہیں کسی کو
درویشوں کو ہی جہاں میں پذیرائیاں ملیں

افراد کا کردار تو مشعلِ راہ ہے لیکن قومی غیرت اور خودداری ہی امامت اور خود مختاری کی ضمانت ہے۔ آج جب ہم مسلمانوں کے 57 ممالک کے حکمرانوں کی جانب دیکھتے ہیں تو یہ سب یہود ونصاریٰ اور ہنود کے کاسہ لیس بنے ہوئے ہیں، گو کہ مسلم عوام کا ایک طبقہ اس کیفیت اور حالات سے سخت نالاں اور کرب میں مبتلا ہے مگر حکمرانوں کا احساسِ کمتری اور ان کی بے غیرتی و بے حسی قابلِ ملامت ہے، اس کی صرف اور صرف یہی وجہ ہے کہ ان کو اپنے رب پر بھروسہ نہیں ہے اور ان کے دلوں میں طاغوت کا خوف اور نفاق موجود ہے۔ حالانکہ عرب دنیا اور دیگر مسلم ممالک دنیاوی دولت سے مالا مال ہیں۔ لیکن یہ وہن زدہ لوگ پوری امت کی رسوائی کا سبب ہیں۔ حالانکہ افغانستان میں روس اور امریکا کی ذلت آمیز شکست سامنے ہے۔ حماس کی مزاحمت اور اہلِ غزہ کی استقامت جس نے اسرائیل کے غرور کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے۔ کشمیر کے نہتے حریت پسند اور غیرت مند مسلمان گزشتہ 75 سال سے ہندوتوا کے ظلم و ستم کا مقابلہ لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر کر رہے ہیں۔

دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیر امم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ

مسلمان کے پاس توپ و تفنگ یا ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ ہو مگر وہ رب العالمین پر بھروسہ کرنے کے بجائے اسباب و عوامل پر یقین رکھتا ہو اور خودی کا جوہر نہ رکھتا ہو تو جوہری قوت بھی اس کے کسی کام کی نہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’نہ گھبراؤ نہ غم کرو، تم ہی کامیاب ہو گے اگر تم مومن ہو۔‘‘

میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

دار و رسن کی بستی میں وہی لوگ قہقہے لگاتے ہیں جو رب کے موت و حیات اور نفع و نقصان کا ملجا و ماویٰ ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔

حصہ