دوسرا اور آخری حصہ
-6 خواتین، مردوں کو سلام کرسکتی ہیں اور مرد بھی خواتین کو سلام کرسکتے ہیں۔ حضرت اسما انصاریہؓ فرماتی ہیں کہ میں اپنی سہیلیوں میں بیٹھی ہوئی تھی کہ نبیؐ کا ہمارے پاس سے گزر ہوا تو آپؐ نے ہم لوگوں کو سلام کیا (الادب المفرد)
اور حضرت ام ہانیؓ فرماتی ہیں کہ ’’میں نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی آپؐ اس وقت غسل فرما رہے تھے میں نے آپؐ کو سلام کیا تو آپؐ نے دریافت فرمایا کون ہو؟ میں نے کہا ام ہانی ہوں۔ فرمایا خوب! خوش آمدید‘‘۔
-7 زیادہ سے زیادہ سلام کرنے کی عادت ڈالیے اور سلام کرنے میں کبھی بخل نہ کیجیے۔ آپس میں زیادہ سے زیادہ سلام کیا کیجیے، سلام کرنے سے محبت بڑھتی ہے اور خدا ہر دکھ اور نقصان سے محفوظ رکھتا ہے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’میں تمہیں ایسی تدبیر بتاتا ہوں جس کو اختیار کرنے سے تمہارے مابین دوستی اور محبت بڑھ جائے گی، آپس میں کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کیا کرو‘‘ (مسلم)
اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’سلام‘‘ کو خوب پھیلائو خدا تم کو سلامت رکھے گا‘‘۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ کے صحابہؓ بہت زیادہ سلام کیا کرتے تھے۔ سلام کی کثرت کا حال یہ تھا کہ اگر کسی وقت آپؐ کے ساتھی کسی درخت کی اوٹ میں ہوجاتے اور پھر سامنے آتے تو پھر سلام کرتے اور آپؐ کا ارشاد ہے:
’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو اس کو سلام کرے اور اگر درخت یا دیوار یا پتھر بیچ میں اوٹ بن جائے اور پھر اس کے سامنے آئے تو اس کو پھر سلام کرے‘‘ (ریاض الصالحین)
حضرت طفیلؓ کہتے ہیں کہ میں اکثر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپؓ کے ہمراہ بازار جایا کرتا۔ پس جب ہم دونوں بازار جاتے تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ جس کے پاس سے بھی گزرتے اس کو سلام کرتے، چاہے وہ کوئی کباڑیہ ہوتا، چاہے کوئی دکاندار ہوتا، چاہے کوئی غریب اور مسکین ہوتا، غرض کوئی بھی ہوتا آپؓ اس کو سلام ضرور کرتے۔
ایک دن میں آپؓ کی خدمت میں آیا تو آپؓ نے کہا چلو بازار چلیں۔ میں نے کہا حضرت بازار جاکے کیا کیجیے گا۔ آپؓ نہ تو کسی سودے کی خریداری کے لئے کھڑے ہوتے ہیں نہ کسی مال کے بارے میں معلومات کرتے ہیں۔ نہ مول بھائو کرتے ہیں، نہ بازار کی محفلوں میں بیٹھتے ہیں۔ آیئے یہیں بیٹھ کر کچھ بات چیت کریں۔ حضرتؓ نے فرمایا: ’’اے ابوبطن! (توند والے) ہم تو صرف سلام کرنے کی غرض سے بازار جاتے ہیں کہ ہمیں جو ملے ہم اسے سلام کریں‘‘ (موطا امام مالکؒ)
-8 سلام اپنے مسلمان بھائی کا حق تصور کیجیے اور اس حق کو ادا کرنے میں فراخ دلی کا ثبوت دیجیے۔ سلام کرنے میں کبھی بخل نہ کیجیے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب مسلمان بھائی سے ملے تو اس کو سلام کرے‘‘ (مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔ (الادب المفرد)
-9 سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کیجیے اور اگر کبھی اللہ نہ کرے کسی سے اَن بن ہوجائے تب بھی سلام کرنے اور صلح صفائی کرنے میں پہل کیجیے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’وہ آدمی اللہ کے زیادہ قریب ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے‘‘ (ابودائود)
اور آپؐ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ تک قطع تعلق رکھیے کہ جب دونوں ملیں تو ایک ادھر کترا جائے اور دوسرا اُدھر، ان میں افضل وہ ہے جو سلام میں پہل کرے‘‘ (الادب المفرد)
نبیؐ سے کسی نے پوچھا کہ جب دو آدمی ایک دوسرے سے ملیں تو ان دونوں میں سے کون پہلے سلام کرے۔ فرمایا: ’’جو ان دونوں میں اللہ کے نزدیک زیادہ بہتر ہو‘‘ (ترمذی)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سلام میں پہل کرنے کا اتنا اہتمام فرماتے کہ کوئی شخض اس سے سلام کرنے میں پہل نہیں کرپاتا تھا۔
-10 ہمیشہ زبان سے السلام علیکم کہہ کر سلام کیجیے اور ذرا اونچی آواز سے سلام کیجیے تاکہ وہ شخص سن سکے جس کو آپ سلام کررہے ہیں۔ البتہ اگر کہیں زبان سے السلام علیکم کہنے کے ساتھ ہاتھ یا سر سے اشارہ کرنے کی ضرورت ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ مثلاً آپ جس کو سلام کررہے ہیں وہ دور ہے اور خیال ہے کہ آپ کی آواز اس تک نہ پہنچ سکے گی یا کوئی بہرہ ہے اور آپ کی آواز نہیں سن سکتا، تو ایسی حالت میں اشارہ بھی کیجیے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ’’جب کسی کو سلام کرو تو اپنا سلام اس کو سنائو اس لئے کہ سلام اللہ کی طرف سے نہایت پاکیزہ اور برکت والی دعا ہے‘‘ (الادب المفرد)
-11 اپنے بڑوں کو سلام کرنے کا اہتمام کیجیے۔ جب آپ پیدل چل رہے ہوں اور کچھ لوگ بیٹھے ہوں تو بیٹھنے والوں کو سلام کیجیے اور جب آپ کسی چھوٹی ٹولی کے ساتھ ہوں اور کچھ زیادہ لوگوں سے ملاقات ہوجائے تو سلام کرنے میں پہل کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’چھوٹا شخص بڑے کو، چلنے والابیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے افراد زیادہ لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کریں‘‘ (الادب المفرد)
-12 اگر اپ سواری پر چل رہے ہوں تو پیدل چلنے والوں اور راہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کیجیے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’سواری پر چلنے والے، پیدل چلنے والوں کو اور پیدل چلنے والے بیٹھے ہوئے لوگوں کو اور تھوڑے آدمی زیادہ آدمیوں کو سلام کرنے میں پہل کریں۔ (الادب المفرد)
-13 کسی کے ہاں ملنے جائیں، یا کسی کی بیٹھک یا نشست گاہ میں پہنچیں، یا کسی مجمع کے پاس سے گزریں یا کسی مجلس میں پہنچیں تو پہنچتے وقت بھی سلام کیجیے اور جب وہاں سے رخصت ہونے لگیں تب بھی سلام کیجیے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’جب تم کسی مجلس میں پہنچو تو سلام کرو، اور جب وہاں سے رخصت ہونے لگو تو پھر سلام کرو اور یاد رکھو کہ پہلا سلام دوسرے سلام سے زیادہ مستحق اجر نہیں ہے (کہ جاتے وقت تو آپ سلام کا بڑا اہتمام کریں اور جب رخصت ہونے لگیں تو سلام نہ کریں اور رخصتی سلام کو کوئی اہمیت نہ دیں) (ترمذی)
-14 مجلس میں جائیں تو پوری مجلس کو سلام کیجیے، مخصوص طور پر کسی کا نام لے کر سلام نہ کیجیے۔ ایک دن عبداللہؓ مسجد میں تھے کہ ایک سائل آیا اور اس نے آپؓ کا نام لے کر سلام کیا۔ حضرت نے فرمایا: ’’اللہ نے سچ فرمایا اور رسولؐ اللہ نے تبلیغ کا حق ادا کردیا‘‘ اور پھر آپؓ اٹھ کر گھر تشریف لے گئے اور لوگ انتظار میں بیٹھے رہے کہ آپؓ کے فرمانے کا مطلب کیا ہے۔ خیر جب آپؓ تشریف لائے تو حضرت طارقؓ نے پوچھا: ’’حضرت! ہم لوگ آپؓ کی بات کا مطلب نہ سمجھ سکے؟ تو فرمایا: نبیؐ کا ارشاد ہے کہ قیامت کے قریب لوگ مجلسوں میں لوگوں کو مخصوص کرکے سلام کرنے لگیں گے‘‘ (الادب المفرد)
-15 اگر اپنے کسی بزرگ یا عزیز اور دوست کو کسی دوسرے کے ذریعے سلام کہلانے کا موقع ہو یا کسی کے خط میں سلام لکھوانے کا موقع ہو تو اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھایئے اور سلام کہلوایئے۔
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ نبیؐ نے مجھ سے فرمایا: ’’عائشہ! جبرائیل علیہ السلام تم کو سلام کہہ رہے ہیں، میں نے کہا وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہٗ۔ (بخاری، مسلم)
-16 اگر آپ کسی ایسی جگہ پہنچیں جہاں کچھ لوگ سو رہے ہوں تو ایسی آواز میں سلام کیجیے کہ جاگنے والے سن لیں اور سونے والوں کی نیند میں خلل نہ پڑے۔
حضرت مقدارؓ فرماتے ہیں کہ ہم نبیؐ کے لئے کچھ دودھ رکھ لیا کرتے تھے جب آپؐ رات گئے تشریف لاتے تو آپؐ اس طرح سلام کرتے کہ سونے والا جاگے نہیں اور جاگنے والا سن لے۔ پس نبیؐ تشریف لائے اور حسب معمول سلام کیا۔ (مسلم)
-17 سلام کا جواب نہایت خوش دلی اور خندہ پیشانی سے دیجیے، یہ مسلمان بھائی کا حق ہے، اس حق کو ادا کرنے میں کبھی بخل نہ دکھایئے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’مسلمان پر مسلمان کے پانچ حق ہیں‘‘۔
(1) سلام کا جواب دینا۔
(2) مریض کی عادت کرنا۔
(3) جنازے کے ساتھ جانا۔
(4) دعوت قبول کرنا۔
(5) چھینک کا جواب دینا۔ (متفق علیہ)
اور نبیؐ نے فرمایا: ’’راستوں میں بیٹھنے سے پرہیز کرو‘‘۔ لوگوں نے کہا: ’’یا رسولؐ اللہ! ہمارے لئے تو راستوں پر بیٹھنا تو ناگزیر ہے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’اگر تمہارے لئے راستوں میںبیٹھنا ایسا ہی ضروری ہے تو بیٹھو لیکن راستے کا حق ضرور ادا کرو‘‘۔ لوگوں نے کہا: ’’راستے کا حق کیا ہے یا رسولؐ اللہ؟ فرمایا: ’’نگاہیں نیچی رکھنا، دکھ نہ دینا، سلام کا جواب دینا اور نیکیوں کی تلقین کرنا اور برائیوں سے روکنا‘‘ (متفق علیہ)
-18 سلام کے جواب میں وعلیکم السلام پر ہی اکتفا نہ کیجیے بلکہ رحمتہ اللہ و برکاتہٗ کے الفاظ کا اضافہ کیجیے۔
قرآن پاک میں ہے:
’’اور جب کوئی تمہیں دعا سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر دعا دو یا پھر وہی الفاظ جواب میں کہہ دو‘‘ (النسا: 86)
مطلب یہ ہے کہ سلام کے جواب میں بخل نہ کرو۔ سلام کے الفاظ میں کچھ اضافہ کرکے اس سے بہتر دعا دو ورنہ کم از کم وہی الفاظ دہرادو۔ بہرحال جواب ضرور دو۔ حضرت عمران بن حصینؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے آکر ’’السلام علیکم‘‘ کہا۔ آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا دس (یعنی دس نیکیاں ملیں) پھر ایک دوسرا آدمی آیا اور اس نے السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہا آپؐ نے سلام کا جواب دے دیا اور فرمایا بیس (یعنی بیس نیکیاں ملیں) اس کے بعد ایک تیسرا آدمی آیا اور اس نے آکر کہا: ’’السلام علیکم وحمتہ اللہ وبرکاتہٗ’’ آپؐ نے جواب دیا اور فرمایا تیس (یعنی تیس نیکیاں ملیں)۔ (ترمذی)
حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ میں حضرت ابوبکرؓ کے پیچھے سوار تھا۔ ہم جن جن لوگوں کے پاس سے گزرتے، ابوبکرؓ انہیں السلام علیکم کہتے اور وہ جواب دیتے وعلیکم السلام وحمتہ اللہ! اور ابوبکرؓ کہتے السلام علیکم ورحمتہ اللہ تو لوگ جواب دیتے: ’’وعلیکم السلام وحمتہ اللہ وبرکاتہٗ‘‘ اس پر ابوبکرؓنے فرمایا آج تم لوگ فضلیت میں ہم سے بڑھ گئے۔ (الادب المفرد)
-19 جب کسی سے ملاقات ہو تو سب سے پہلے السلام علیکم کہیے، یک بارگی گفتگو شروع کردینے سے پرہیز کیجیے۔ جو بات چیت بھی کرنی ہو سلام کے بعد کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’جو کوئی سلام سے پہلے کچھ بات کرنے لگے اس کا جواب نہ دو‘‘۔
-20 ان حالات میں سلام کرنے سے پرہیز کیجیے۔
(1) جب لوگ قرآن و حدیث پڑھنے پڑھانے یا سننے میں مصروف ہوں۔
(2)جب کوئی خطبہ دینے اور سننے میں مصروف ہو۔
(3) جو کوئی اذان یا تکبیر کہہ رہا ہو۔
(4) جب کسی مجلس میں کسی دینی موضوع پر گفتگو ہورہی ہو یا کوئی کسی کو کوئی دینی احکام سمجھا رہا ہو۔
(5)جب استاد پڑھانے میں مصروف ہو۔
(6) جب کوئی قضائے حاجت کے لئے بیٹھا ہو۔
اور ذیل کے حالات میں نہ صرف سلام کرنے سے پرہیز کیجیے بلکہ اپنی بے تکلفی اور روحانی اذیت کا اظہار بھی حکمت کے ساتھ کیجیے۔
(1) جب کوئی فسق و فجور اور خلاف شرع لہو و لعب اور عیش و طرب میں مبتلا ہو کر دین کی توہین کررہا ہو۔
(2) جب کوئی گالی گلوچ، بے ہودہ بکواس، جھوٹی سچی غیر سنجیدہ باتیں اور فحش مذاق کرکے دین کو بدنام کررہا ہو۔
(3)جب کوئی خلاف دین و شریعت افکار و نظریات کی تبلیغ کررہا ہو اور لوگوں کو دین سے برگشتہ کرنے اور بدعت و بے دینی اختیار کرنے پر ابھار رہا ہو۔
(4) جب کوئی دینی عقائد و شعائر کی بے حرمتی کررہا ہو اور شریعت کے اصول و احکام کا مذاق اڑا کر اپنی اندرونی خباثت اور منافقت کا ثبوت دے رہا ہو۔
-21 یہود و انصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کیجیے۔ قرآن شاہد ہے کہ یہود اپنی بددینی، حق دشمنی، ظلم و درندگی، دجل و فریب اور خباثت نفس میں بدترین قوم ہے۔ اللہ نے اس پر بے پایاں انعامات کی بارش کی لیکن اس نے ہمیشہ ناشکری اور بدکرداری کا ثبوت دیا۔ یہی وہ قوم ہے جس نے اللہ کے بھیجے ہوئے برگزیدہ پیغمبروں تک کو قتل کر ڈالا۔ اس لئے مومن کو اس روش سے پرہیز کرنا چاہیے جس میں یہود کے اکرام و احترام کا شائبہ بھی ہو، بلکہ ایسی روش رکھنی چاہئے کہ جس سے بار بار ان کو محسوس ہو کہ حق کی بدترین مخالفت کا انجام ہمیشہ کی ذلت و مسکنت ہے۔
نبیؐ نے فرمایا:
’’یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کیا کرو اور جب تم راہ میں ان سے ملو تو ان کو ایک طرف سمٹ جانے پر مجبور کردو‘‘ (الادب المفرد)
یعنی اس طرح وقار اور دبدبے کے ساتھ گزرو کہ یہ راستے میں خود ایک طرف کو سمٹ کر تمہارے لئے راستہ کشادہ چھوڑ دیں۔
-22 جب کسی مجلس میں مسلمان اور مشرکین دونوں جمع ہوں تو وہاں سلام کیجیے۔ نبی اکرمؐ ایک بار ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلم اور مشرف سب ہی شریک تھے تو آپؐ نے ان سب کو سلام کیا۔ (الادب المفرد)
-23 اگر کسی غیر مسلم کو سلام کرنے کی ضرورت پیش آئے تو السلام علیکم نہ کہیے بلکہ آداب عرض، تسلیمات وغیرہ قسم کے الفاظ استعمال کیجیے اور ہاتھ یا سر سے بھی کوئی اشارہ نہ کیجیے جو اسلامی عقیدے اور اسلامی مزاج کے خلاف ہو۔
ہر قل کے نام نبیؐ نے جو مکتوب بھیجا تھا۔ اس میں سلام کے الفاظ یہ تھے:
“وَالسَّلَامُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدیٰ
’’سلام ہے اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے‘‘۔
-24 سلام کے بعد محبت و مسرت یا عقیدت کے اظہار کے لے مصافحہ بھی کیجیے۔ نبیؐ خود بھی مصافحہ فرماتے اور آپؐ کے صحابہؓ بھی آپس میں ملتے تو مصافحہ کرتے۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو مصافحہ کی تاکید فرمائی اور اس کی فضیلت اور اہمیت پر مختلف انداز سے روشنی ڈالی۔
حضرت قتادہؓ نے حضرت انس سے دریافت کیا: ’’کیا صحابہؓ میں مصافحہ کرنے کا رواج تھا؟ حضرت انس نے جواب دیا: ’’جی ہاں تھا‘‘ (بخاری)
حضرت سلمہ بن وردانؓ کہتے ہیں کہ: میں نے حضرت مالک بن انسؓ کو دیکھا کہ لوگوں سے مصافحہ کررہے ہیں، مجھ سے پوچھا تم کون ہو؟ میں نے کہا: ’’بنی لیث کا غلام ہوں‘‘۔ آپ نے میرے سر پر تین بار ہاتھ پھیرا اور فرمایا: ’’خدا تمہیں خیر و برکت سے نوازے‘‘۔
ایک بار جب یمن کے کچھ لوگ آئے تو نبیؐ نے صحابہؓ سے کہا: ’’تمہارے پاس یمن کے کچھ لوگ آئے ہیں اور آنے والوں میں یہ مصافحے کے زیادہ حق دار ہیں‘‘ (ابودائود)
حضرت حذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جب دو مومن ملتے ہیں اور سلام کے بعد مصافحے کے لئے ایک دوسرے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو دونوں کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں، جس طرح درخت سے (سوکھے) پتے‘‘ (طبرانی)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’مکمل سلام یہ ہے کہ مصافحہ کے لئے ہاتھ بھی ملائے جائیں‘‘۔
-25 کوئی دوست، عزیز یا بزرگ سفر سے واپس آئے تو معانقہ بھی کیجیے۔ حضرت زید بن حارثہؓ جب مدینے آئے تو نبیؐ کے یہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپؐ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے دروازے پر پہنچے ان سے معانقہ کیا اور پیشانی کو بوسہ دیا۔ (ترمذی)
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ جب صحابہ کرامؓ آپس میں ملتے تو مصافحہ کرتے اور اگر سفر سے واپس آتے تو معانقہ کرتے۔ (طبرانی)