سادہ نکاح مسائل کا حل

160

آج رضیہ خالہ کی بیٹی مریم کا نکاح تھا۔ رضیہ خالہ کے گھر میں رونق لگی تھی۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ظاہری نمود و نمائش کچھ نہ تھی مگر سب بہت خوش تھے۔

رضیہ خالہ نے صبح ہی اپنے رب سے ڈھیر ساری دعائیں کرکے سارا کچھ مانگ لیا تھا۔ یہی تو ان کے نزدیک سب سے اہم کام تھا۔ دولہا اور مرد حضرات مسجد میں جمع ہوگئے اور سادگی سے نکاح ہوا۔ رضیہ خالہ نے بڑھ کر مریم کا ماتھا چوما اور آنکھوں کی نمی کے ساتھ ڈھیروں دعائیں دے کر اسے رخصت کردیا۔

نکاح ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ فرمایا: جو اسے نہ اپنائے وہ ہم میں سے نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالغ ہونے کے بعد بچوں کو نکاح کے بندھن میں باندھ دینے کی تاکید کی تاکہ وہ بدنظری اور بری عادتوں سے بچے رہیں۔ نکاح کو اس قدر سادہ بنادیا کہ وہ ہر ایک کے لیے آسان اور قابلِ عمل ہوسکے۔ عورت کے لیے ولی کی شرط لگائی، ولی کے بغیر شادی کرنے والی عورت کو زانی قرار دیا۔ باقی نکاح کی تین شرائط مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں ہیں۔ پہلی: عورت اور مرد کی رضامندی ہونا، دوسری: گواہوں کا ہونا، اور آخری: حق مہر کا طے ہونا۔ کتنی سادہ شرائط ہیں۔ اس میں نہ تو جہیز کی شرط ہے کہ ماں باپ بچی کی پیدائش سے اسے جمع کرنے کی فکر میں لگ جائیں، نہ مرد کے خاندان والوں کے لیے قیمتی تحائف کی شرط ہے۔ عموماً بات پکی ہونے کے ساتھ ہی لڑکی والوں سے سسرال کے لیے جوڑے، دولہا کی بہنوں کے لیے سونے کی انگوٹھیوں، ساس کے لیے جڑاؤ کنگن اور پھر جہیز میں سارے گھر کے سامان کے مطالبے شروع کردیے جاتے ہیں، آخر میں گردان لڑکے کے لیے موٹر سائیکل یا گاڑی پہ آکر ٹوٹتی ہے۔ اس طرح دلہن کے ماں باپ کی کمر بے جا بوجھ سے ٹوٹتی ہے۔ نمود و نمائش سے بھرپور نکاح آج معاشرے کو طلاقوں کے تحفے کے سوا اور کیا دے رہے ہیں؟

دوسری جانب ماں باپ کے گھر کا تکبر عورت کو سسرال میں بسنے نہیں دیتا، پھر بھاری جہیز بھی اس کا گھر ٹوٹنے سے نہیں بچا سکتا۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ کے لیے جس شخص کو منتخب کیا وہ علم و عمل کی دولت سے مالا مال تھا، شجاعت اور بہادری میں بے مثال، اللہ کو محبوب تھا مگر دنیاوی مال و دولت سے بے نیاز تھا، نہ اس کا کوئی شان دار دنیاوی رتبہ تھا جو اس کے گھر کو بھر دیتا، نہ کوئی بینک بیلنس۔ دنیا داری تو نہ تھی پر دینداری ایسی تھی کہ شیرِ خدا دراصل محبوبِ خدا تھے۔ یہی داماد منتخب کرنے کا اصل معیار ہے۔

آج کے دور میں لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں نے بھی اپنے معیار بہت بلند کیے ہوئے ہیں، اسی بنا پر ماں باپ اگر چاہیں، تب بھی سادہ نکاح کی قدر و قیمت آج کے نوجوانوں کو ذرا بھی محسوس نہیں ہوسکتی۔

سادگی نہ ہونے کے باعث جہیز طلب کرنا اور تحائف کے نام پر لوٹ مار کرنا، پھر مہر میں خطیر رقم مقرر کرنا اس لیے تھا کہ اس کی ادائی لڑکے کے لیے ممکن ہی نہ ہو اور وہ اور اس کے گھر والے مہر کی ادائی کے بارے میں اُس وقت سوچیں جب خدانخواستہ طلاق کی نوبت آئے۔ یہ سب چیزیں نکاح کی راہ میں رکاوٹ کے ایسے پہاڑ کھڑے کر دیتی ہیں جن کو توڑنا یا عبور کرنا ممکن ہی نہیں۔

دنیا کی چکا چوند نے سادہ نکاح کے ثمرات سمیٹنے سے ہمیں محروم کر دیا ہے، حالانکہ سادہ نکاح چند جوڑوں، کم مہمانوں میں زیادہ محبت و پیار اور بھرپور تعلق کے ساتھ ہوتا ہے اور ہماری زندگی کے سکون و قرار کے لیے بہت ضروری ہے۔ جہیز مقرر کرنے کے باعث اکثر والدین بیٹی کی شادی کے بارے میں سوچ بھی نہیں پاتے۔ یہی نہیں بلکہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے خواب، اپنا کیریئر بنانے کے چکر میں نوجوان خود کو برائی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دوستیاں، تصاویر کے تبادلے، محبت نامے دیوانہ کیے دے رہے ہیں۔ کم عمر لڑکیاں نو عمر لڑکوں کے ساتھ بھاگ رہی ہیں، خودکشیاں عام ہو رہی ہیں، غیرت کے نام پر پسند کی شادی کرنے والوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہر طرف جنسیت کی جو آگ لگی ہے، بے ہودہ تصاویر، غلیظ مکالمے، بے ہودہ وڈیوز اور جانے کیا کچھ، انہیں بھی تو کوئی لگام دے۔ جائز طریقے سے انسانی خواہشات پوری کرنا اتنا مشکل ہو جائے گا تو یہ سب تو پھر ہوگا۔

حصہ