بخشو

199

اس کے بچپن کے دن بہت آزاد تھے… وہ بہت خوش تھا…اور بہت پُرسکون بھی، باوجود اس کے کہ اس کی زندگی میں کہیں آسانیوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ وہ دن بھر گلی گلی، نگر نگر، فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر ردی چنتا دکھائی دیتا… اور سرِ شام اپنے کام نمٹاکر دوستوں کے ساتھ خوب کھیلتا۔ پھرچاند اپنی روشنی بکھیرتا اوروہ اپنی جھگی میں جا گھستا۔ اماں نے جو روکھی سوکھی پکائی ہوتی وہ خاموشی سے کھالیتا اور جھگی کے باہر بچھی چارپائی پر سکون سے سوجاتا۔

’’اٹھ جا بخشو! دیکھ تو سورج سر پر چڑھ آیا… جلدی سے اٹھ جا۔ تیری ماں نے تیرے لیے روٹی بنائی ہے، کھالے اور اپنے کام پر چلا جا۔‘‘ یہ ابا کی آواز تھی جو ہر صبح سننے پر وہ بیدار ہوجایا کرتا…آنکھیں مَلتااٹھ بیٹھتا، ایک سرسری نظر ابا پرڈالتا جو آرام سے بیٹھ کر سگریٹ کے کش بھرنے میں منہمک ہوتا۔ پھراس کی نگاہیں اماں کو تلاشتیں تو وہ اینٹوں سے بنے بے ڈھنگے چولھے کے پاس بیٹھی کبھی دھواں چھوڑتی لکڑیوں کو الٹ کر رکھتی، تو کبھی روٹی کو توے پر گھماگھما کر پکانے کی فکر میں اس بری طرح مصروف ہوتی کہ دھویں کی وجہ سے آنکھوں سے بہنے والے آنسو تک نہ پونچھ پاتی۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اماں کے پہلو میں جا بیٹھتا۔ اماں اس کی جانب نظر بھر کر دیکھتی اور چنگیر میں سے ایک روٹی نکال کر اسے پکڑاتی۔ کیتلی میں سے ایک پیالی چائے ڈال کر اس کے سامنے رکھ دیتی۔ ناشتے سے فارغ ہوکر وہ اپناخالی تھیلا اٹھاتا اور سڑکوں کی خاک چھاننے نکل پڑتا۔ اللہ بخش، جس کا نام ابا نے اپنے باپ کے نام پر رکھا تھا لیکن پیار سے اسے بخشو کہتے، سڑک کنارے بنی گنتی کی چند جھگیوں میں سے ایک جگی میں رہتا تھا۔

اس کے شب و روز یوں ہی بیت جاتے… مگر اب وہ بڑا ہو رہا تھا اور اس کی خواہشیں بھی بڑھ رہی تھیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی خواہشات اس کو بے چین کرنے لگیں۔ وہ رات بھر نیند کو تلاشتا رہتا، مگر اس کی آنکھیں پُرسکون نیند کھو چکی تھیں۔ اب اسے بان کی چارپائی بہت اذیت دیتی۔ سوکھی روٹی اور چائے کی پیالی اس کا مذاق اُڑانے لگتی۔ اسے اماں کی روٹی بنانے کی فکر بہت حقیر محسوس ہونے لگی کیوں کہ اب وہ اپنے اردگرد ترقی کرتے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ ایک ایسے دور میں داخل ہوچکا تھا جہاں دنیا سمٹ کر گلوبل ولیج بن چکی تھی۔ وہ ہر طرف انٹرنیٹ کا راج دیکھ رہا تھا۔ اپنے اردگرد بچوں، بوڑھوں، جوانوں کے ہاتھوں میں پکڑے اسمارٹ فون کو وہ حسرت سے دیکھتا۔ کچھ مہینے قبل ہی اس کے دوستوں نے اسے یہ بات بھی بتائی تھی کہ اگرکسی آدمی کے پاس اسمارٹ فون ہو تو وہ انٹرنیٹ کا استعمال کرکے ڈھیروں پیسے کما سکتا ہے، یعنی راتوں رات امیر بننا اب بہت آسان ہوچکا ہے۔

بخشو ایسی باتیں بہت غور سے سنتا۔ پھر چند ہی دنوں بعد اس کے دوستوں نے پیسے جمع کرکے اپنا ایک اسمارٹ فون خرید لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ انٹرنیٹ بھی چلانے کے قابل ہوگئے۔ بخشو اب اپنے کام سے فراغت پاکر اُن کے ساتھ کھیلنے کے بجائے گھنٹوں انٹرنیٹ دیکھتا۔ فیس بک، واٹس ایپ، ٹویٹر، انسٹاگرام، گوگل، پلے اسٹور، اور سب سے بڑھ کر یوٹیوب نے تو بخشو کی پُرسکون راتوں کو مضطرب کر ڈالا۔ ٹک ٹاکر بننے کی خواہش نے اسے اپنے آہنی پنجوں میں دبوچ لیا۔

’’فنکار کی ایک وڈیو بھی یوٹیوب پر وائرل ہوجائے تو سمجھو پیسہ ہی پیسہ۔‘‘بخشو کو اس کے دوست بتاتے تو وہ خیالی دنیا میں کھو جاتا جہاں وہ ایک فن کار ہوتا اور دنیا سمٹ کر اس کے قدموں میں آجاتی۔ خواہشیں اس پر بری طرح سوار ہوچکی تھیں اسی لیے تو اس نے پائی پائی جوڑ کر اپنے لیے ایک اسمارٹ فون اور سم خریدی۔ انٹرنیٹ پیکیج لگا کر تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی جب وہ اپنی جھگی کے باہر بیٹھا پوری دنیا کو موبائل میں دیکھ رہا تھا۔ کہیں کوئی چائے بنانے والا وائرل ہوکر راتوں رات امیر بن چکا تھا، تو کہیں پتی چننے والی لڑکی۔ کہیں چھوٹے بچے اپنی معصومیت بیچتے دکھائی دیے تو کہیں بزرگ تھرک تھرک کر اپنی اشیا بیچنے کے لیے بزرگی کا سودا کرتے نظر آئے۔

بخشو اب زیادہ وقت اپنی جھگی کے باہر بیٹھا فنکاریاں سیکھنے میں مصروف رہتا۔ اس کے اردگرد کیا ہوتا اسے کوئی خبر نہ رہتی۔ اماں، ابا کو تو وہ غور سے دیکھنا بھی بھول گیا تھا۔

شام ڈھلے جب سڑک کنارے جھگیوں کے مکین خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے تو بخشو اپنے موبائل میں فنکاروں کی فنکاریوں سے محظوظ ہورہا ہوتا۔ خاموش راتیں اپنا سفر طے کرتے اس کی غفلتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر بیت جایا کرتیں اور چاند کی چاندنی اسے اپنی نورانیت کی جانب بلاتی بھی تو وہ چشم پوشی کرتا اپنا رخ تبدیل کرلیتا۔

لیکن اللہ رحمن الرحیم نے بخشوکو اپنے دامنِ رحمت میں سمیٹ لیا جب غلطی سے اس کی انگلی نے ایک وڈیو کو ٹچ کیا… قاری قرآن شیخ محترم تلاوت فرما رہے تھے۔ بخشو کو پھر شیخ محترم کی آواز سنائی دی۔ شیخ محترم کی آواز میں کوئی اجنبی سا درد تھا۔ بخشو پہلی بار کسی درد کو محسوس کرریا تھا۔ وہ مسلسل رو رہے تھے… روتے ہوئے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ انہوں نے پھر سے ان آیات کو دہرایا۔ پھرمزید آیات تلاوت فرما رہے تھے۔ بخشو کو ان آیات کے معانی تو نہیں آتے تھے مگر وہ آواز اور الفاظ کی رو میں بہنے لگا۔ لمحے بیت جاتے ہیں مگر اذنِ الٰہی سے کچھ لمحے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو ساری زندگی کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ بخشو کی زندگی کو تبدیلی کے سفر پر لے جانے والے یہی لمحات تھے۔

اب چاندنی راتیں ہوتیں، جھگی کے باہر بان کی چارپائی پر بیٹھا بخشو ہوتا، اس کے ہاتھ میں موبائل ہوتا… وہ انٹرنیٹ آن کرتا… فرق صرف یہ تھا کہ اب وہ فن کاروں کی فن کاریوں کو نظرانداز کردیتا۔ اسے فن کاروں کی فن کاریوں سے کوئی دل چسپی نہ رہی تھی… وہ اس آواز اور الفاظ کو سیکھنے میں اپنے اوقات کا بہت حصہ لگاتا… الفاظ کے معانی سیکھتا، الفاظ کی زبان سیکھنے لگا تو زبان کی فصاحت و بلاغت نے اسے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس کے وقت کا ایک بڑا حصہ مسجد و مدرسہ میں گزرتا۔ یہ ایک فری ادارہ تھا جہاں دین کے ساتھ دنیا کی تعلیم بھی دی جاتی۔ موبائل کا صحیح استعمال سکھایا جاتا۔ اب بخشو علم و عمل کے راستے پر چل نکلا، اور تاریخ گواہ ہے کہ جو بھی اس علم و عمل کے راستے پر چلے وہ دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ٹھیرے، دنیا سمٹ کر ان کے قدموں میں آگئی… مگر ان کی منزل چھوٹی سی حقیر دنیا نہ رہی بلکہ اپنے رب کی رضا کا حصول ہی ان کی منزل بن گیا۔

یوں رضائے الٰہی کا حصول اب بخشو کی بھی منزل بن چکا تھا، اور منزل کی اس طلب نے بخشو کی زندگی کو اس کے رب کی رحمتوں اور برکتوں سے مالامال کرڈالا۔

حصہ